دانیال حسن چغتائی
حافظ ذیشان یاسین صاحب کی کتاب “اسیرِ ماضی” میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں لیکن پریس فار پیس کے تحت اس کا دوسرا ایڈیشن نہایت دیدہ زیب انداز میں شائع کیا گیا ہے ۔ کتاب کا انتساب روایتی انداز سے ہٹ کر ہے جس میں فطرت کے سارے رنگ نمایاں ہیں اور جو قاری کو متحیر کرنے کے لیے کافی ہے۔
ادب نہ صرف زندگی کا ترجمان ہے بلکہ اس پر تنقید کا فریضہ بھی سر انجام دیتا ہے۔ زندگی کی الجھنوں، مشکلات اور اس کے ارتقاء و زوال کی داستان کو حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کرنے کے لیے ہر قلمکار ایک خاص ذہنی رویہ اپناتا ہے جب بھی کوئی حادثہ کسی ادیب کے ذہن پر خاص طریقہ کے اثرات مرتب کرتا ہے تو وہ اس واقعہ کے بیان میں اپنی تمام ذہنی و فکری صلاحیتیں بروئے کار لاتا ہے۔ جب بھی کوئی ادیب سماجی و معاشرتی تبدیلیوں پر اعتراض کرتا ہے یا تنقیدی نقطہ نظر اختیار کرتا ہے تو اس کا مقصد معاشرے کی اصلاح ہے۔ لیکن جب ادیب ذاتی ناپسندیدگی اور اختلاف کی بنا پر کسی شخص یا معاشرتی رویے پر تنقید کرتا ہے تو اس کے انداز بیان میں طنز کی گہری شکل بھی نمودار ہو جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ فرد، سماج اور فطرت کے غیر مناسب پہلوؤں پر تنقید میں طنز کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔
دیگر اصناف ادب کی طرح افسانہ نگاری میں حد بندی کا تعین کرنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ کہانی و افسانہ بظاہر مختلف ہونے کے ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ کہانی نگار کا فن گہرے سماجی و معاشی شعور کا حامل ہوتا ہے جبکہ افسانے میں تلخی کی شدت، برہمی اور مسائل نمایاں ہوتے ہیں ہے۔ افسانہ نگار معاشرے کے بدلتے معیاروں اور ارتقاء کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ اپنے گرد و پیش کے ناسوروں، معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی برائیوں اور خباثتوں پر واضح انداز میں وار کرتا ہے اور اس کے یہ کاٹ دار وار عموماً خالی نہیں جاتے۔
زیر نظر کتاب کہانیوں سے ہٹ کر معاشرے کے نوحے پر مشتمل ہے۔ کہانی سے ہٹ کر اسے نثری شاعری کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کی کاٹ کسی شاعر کی نظموں سے کم نہیں۔ افسانہ اسیرِ ماضی جس کے نام پر کتاب کا بھی نام رکھا گیا ہے ، بچپن کی تلاش میں لکھا گیا دل گداز افسانہ جس میں علامتی کردار کو استعمال کرتے ہوئے ماضی و حال کا زبردست موازنہ کیا گیا ہے ۔ ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے ہیں ، اس ترقی نے ہم سے بہت سے خراج بھی لئے ہیں اور ہمیں اپنی اصل سے بھی دور کر دیا ہے۔
اسی طرح افسانہ سرد شام میں گزرے وقتوں کے موسم سرما کا بہت عمیق نظری سے جائزہ لیا گیا ہے ۔ مصنف نے اس دور کی نسل کو جاڑے کے ان دنوں کی بہت سی یادوں سے اس افسانے کے ذریعے جوڑا ہے تو دوسری طرف اپنی ثقافت کا بھی ذکر کر کے گم شدہ روایتوں کو تازہ کیا ہے ۔
غبارِ دشت ، آغوش جنوں ، گم شدہ قافلے یا ادھوری داستاں ، یا اس کے علاؤہ کتاب میں موجود سبھی افسانے ہماری اقدار سے جڑے ہوئے ہیں۔ فطرت سے محبت ان افسانوں کا جزو لاینفک ہے۔
ذیشان یاسین صاحب نے ماضی، حال اور مستقبل کے حالات و واقعات کے تناظر میں نہ صرف اچھوتے اور اہم معاشرتی موضوعات کو زیر بحث بنایا بلکہ مظاہر فطرت پر اس طرح طبع آزمائی کی کہ قاری خود کو پرندوں، جانوروں، درختوں، ندی نالوں اور پہاڑوں کوہساروں سے گفتگو کرتا محسوس کرتا ہے اور خود کو اس ماحول کا حصہ تصور کرتے ہوئے مظاہر فطرت میں گم ہو جاتا ہے۔
دوسری اہم چیز جو مجھے اس کتاب میں اچھی لگی ہے وہ اُردو کا حقیقی مقصد عیاں کرنا ہے۔ وگرنہ صورتحال یہ ہے کہ آج نہم جماعت کا بچہ اُردو لکھنا تو درکنار پڑھ نہیں سکتا اور یہ سب پاکستان میں ہو رہا ہے جس کی قومی زبان اردو ہے۔ فروغ اردو میں یہ کتاب اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور اس سلسلے میں اس کتاب کو اردو کے نصاب میں بھی شامل کیا جانا چاہیے کہ اُردو کے بہت سے متروک الفاظ اس کتاب کا حصہ ہیں جو نسل نو کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ہوگا۔
اپنی تحریروں کے ذریعے ذیشان یاسین نے نہ کسی کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی تضحیک ان کا مقصد ہے۔ علامتی افسانہ نگار ہونے کی حیثیت سے ان کے ہاں طنز افسانوں میں زیریں سطح پر موجود ہے۔ مصنف کے بعض افسانوں میں اس بات کا احساس بھی ہوتا ہے کہ ان کے ہاں طنز کا مقصد اصلاحی ہے جس طرح وہ طنزیہ انداز میں فطری حالات و معمولات پر توجہ دلاتے نظر آتے ہیں تو وہاں بعض مقامات پر ان کا لہجہ تلخ ہو جانا یقینی بات ہے۔ انتہائی لطیف انداز سے انہوں نے زندگی کی تلخیوں کو قابل برداشت بنایا ہے اور یہی ان کے تحریر کی نمایاں خوبی ہے۔
میں ذیشان بھائی کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ یہ کتاب مستقبل میں ان کے لئے ایک تابناک ادبی حوالہ بنے گی اور جہاں جہاں بھی علامتی افسانے کا ذکر کیا جائے گا اس کتاب کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا ۔ ذیشان یاسین کے ادبی مستقبل کے نیک خواہشات ۔