ایزد عزیز کا نام ادبی حلقوں کے حوالے سے نیا نہیں ہے۔ وہ نہ صرف بطور شاعر بلکہ بطور افسانہ نگار بھی ایک مضبوط حوالہ رکھتے تھے۔
چھ اگست انیصد چون کو ساہیوال میں پیدا ہونے والے ایزد عزیز کا اصل نام عثمان عزیز تھا جب کہ ادبی میدان میں آپ ایزد عزیز کے نام سے جانے جاتے تھے۔انیصد اٹھاسی میں ایزد عزیز کا پہلا اردو شعری مجموعہ ’’غروبِ شب‘‘ شائع ہوا۔ انیصد ستانوے میں افسانوی مجموعہ ’’عالمِ ارواح کی مال روڈ پر‘‘ آیا تو ایزد عزیز کی ادبی شناخت کو ایک اور سنگِ میل عبور کرنے پر ہر طرف سے مبارک باد سنائی دی۔ 2009ء میں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے ایزد عزیز نے پنجابی مجموعہ کلام ’’کلے رُکھ دا وین‘‘ منظرِ عام پر لانے کا قصد کیا جسے بہت جلد پورا کیا، 2014ء میں نعت، سلام اور رباعیات پر مشتمل اردو مجموعہ کلام ’’تسلیم‘‘ بھی قارئین کے ہاتھوں میں پہنچا جبکہ ملتان سے پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد کی زیرِ نگرانی شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’سہ ماہی پیلوں‘‘ میں مجید امجد پر لکھا ایزد عزیز کا مضمون ’’مخروطی انگلیوں والا شخص‘‘ شائع ہو چکا ہے جو احساسات کی لو میں لکھی گئی مختصر مگر جامع تحریر ہے۔’’عالمِ ارواح کی مال روڈ پر‘‘ سادہ بیان و زبان کے تحت لکھی گئی نو کہانیوں کا مجموعہ ہے جن کے نام رنگ برنگی ڈوری، پرانا مکان، درخت اور جیالا، عالمِ ارواح کی مال روڈ پر، پٹریوں کے درمیان، غازی کا علم، طوافِ کوئے ملامت، گوشئہ تنہائی اور کمی ہیں۔ کتاب میں شامل ہر افسانہ اپنے اندر ایک الگ موضوع اور جہانِ معنی لئے ہوئے ہے۔ بعض جگہوں پر افسانہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ ہمارے ارد گرد کی کہانی ہے۔ایزد کی تحریر میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے کہ ایزد نے زبان کو بہت زیادہ گنجلک نہیں ہونے دیا نہ ہی اندازِ تحریر کو اس قدر شوخ کیا ہے کہ تحریر کی سنجیدگی متاثر ہو۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ جگہوں پر ایزد عزیز کا قلم حد سے زیادہ سہل پسندی کا شکار ہو جاتا ہے۔جن جملوں کو تھوڑی بہت رنگینی دے کر پیش کیا جا سکتا ہے ان جملوں کو بھی ایزد کے قلم نے سہل انداز میں پیش کیا ہے۔
منظر نگاری کے حوالے سے ایزد عزیز کا ذہن ایک اعلیٰ تخلیق کار ہونے کی گواہی دیتا ہے۔نفسیات پر دسترس کسی بھی لکھاری کو وہ تحاریر لکھنے پر اکساتی ہے جنہیں دو آتشہ کہا جاسکتا ہے۔رنگ برنگی ڈوری نفسیات سے کھیلتی ہوئی اس افسانوی مجموعےکی پہلی کہانی ہے جو مسکراتے ہوئے قاری کا استقبال کرتی ہے۔ یہ اس پرندے کی کہانی ہے جس کے نزدیک اس کی ساری کائنات فقط ایک پنجرے میں آباد ہے۔ وہ کچھ دیر کے لئے پنجرے سے باہر آتا ہے لیکن جلد ہی ہمیشہ کی طرح پنجرے میں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ایک دِن اچانک اسے آسمان پر اپنے ہم جنس پرواز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو اس کا تخیل بھی اسے باہر کی دنیا سے آشنائی پر اکساتا ہے، وہ تیلیوں سے بنے پنجرے کو اپنی چونچ سے کاٹ کر اتنا کھول لیتا ہے کہ اس میں سے باہر جا سکے لیکن اڑنے میں اس وقت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب پاوں میں بندھی رنگ برنگی ڈوری اس کو بہت دور جانے سے روک لیتی ہے۔ اب یہاں قاری کی نفسیات کا امتحان بھی شروع ہوتا ہے کہ آیا وہ اس ڈوری کو صرف اس پرندے کے پاوں سے بندھی ڈوری سمجھتا ہے یا اپنے پاوں میں لپٹی خاندانی، سماجی یا معاشرتی بیڑی، اسی طرح مجموعے کی سب سے اہم کہانی ’عالمِ ارواح کی ما ل روڈ پر‘ تین روحوں کی کہانی ہے جو عالمِ ارواح کی ایک شاہراہ پر اکٹھی ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک روح اس شاہراہ کو لاہور کی مال روڈ سے مشابہت دیتی ہے لیکن لاہور کی مال روڈ کے حوالے سے اس المیہ کو بھی بیان کرتی ہے کہ وہ مال روڈ محفوظ نہیں ہے۔ باتوں باتوں میں انہیں کشمیر، بوسنیا اور لاہور سے آنے والے ایسے لفافے نظر آتے ہیں جن پر مہریں ثبت ہیں اور ان میں ان سب ممالک کا احوال بند ہے۔یہ افسانہ دنیا پر ہونے والے مظالم کی داستانِ الم ہونے کے ساتھ ساتھ ظالم حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
معاشی مسائل جدید افسانے کا ایک اہم پہلو ہیں جنہیں پہلے پہل نظر انداز کیا گیا لیکن جدید افسانہ نگاروں نے حقیقی زندگی کے تال میل سے وہ فن پارے تراشے جن کے بغیر ادب نامکمل دکھائی دیتا ہے۔’’پٹڑیوں کے درمیان‘‘ انہی معاشی مسائل کا نوحہ ہے جبکہ ’’غازی کا علم‘‘ فرقہ واریت سے پیدا ہونے والے ناسور پر مشتمل ایک المناک کہانی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ’’عالمِ ارواح کی ما ل روڈ پر‘‘ میں موجود تمام افسانے نہ صرف یکسانیت کے مرض سے پاک ہیں بلکہ نفسیاتی لحاظ سے بھی قاری کو الگ موڑ پر لے جانے اور سوچنے پر مجبور کرنے والے ہیں۔معروف لکھاری اعجاز رضوی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’بازار میں افسانوں کے بہت سے مجموعے نظر آتے ہیں لیکن ایزد عزیز کا افسانوی مجموعہ عالمِ ارواح کی مال روڈ پر ایک مختلف مجموعہ ہے۔اس میں شامل تمام کہانیاں ہر لحاظ سے سے ایک الگ اور نئی سوچ لے کر آئی ہیں یقیناً آنے والے افسانہ نگاروں کے لئے یہ مجموعہ نئی راہوں کی نشاندہی کرے گا اور انہیں زمین اور انسانیت سے زیادہ قریب بھی”۔
معروف ادیب سہیل احمد خاں کے مطابق ’’یہ چیز خوش آئند ہے کہ وہ پیشرو افسانہ نگاروں کی نقالی نہیں کرتے اپنی راہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.