رحمان امجد مراد کی کتاب “منظر کشی آوارگی” ایک منفرد اور پُراثر ادبی تصنیف ہے جو اردو ادب میں آوارگی، ہجرت، تنہائی اور داخلی کرب جیسے موضوعات کو نہایت دلنشین اور فکری انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک ادبی تجربہ ہے بلکہ ایک فکری سفر بھی ہے جو قاری کو روحانی و سماجی کرب کے راستوں پر لے جاتا ہے۔کتاب کا مرکزی موضوع “آوارگی” ہے مگر اس میں تنہائی، شناخت کا بحران، دیارِ غیر کی بےرخی اور یادوں کی تلخ و شیریں پرتیں بھی شامل ہیں۔ مراد نے آوارگی کو ایک وجودی مسئلہ بنایا ہے اور بتایا ہے کہ یہ کیفیت صرف جغرافیائی نہیں بلکہ جذباتی اور فکری بھی ہے۔رحمان امجد مراد کی شاعری میں گہرائی، تجزیاتی فکراور جذبات کی شدت نمایاں ہے۔ وہ منظر کو صرف بیان نہیں کرتےبلکہ اسے محسوس کرواتے ہیں۔ آوارگی کو وہ محض جسمانی نقل مکانی نہیں بلکہ ایک باطنی کیفیت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو انسان کو معاشرے اور خود اپنی ذات سے کاٹ دیتی ہے۔کتاب میں غزلوں کے ساتھ چند مختصر نظمیں بھی شامل ہیں۔نظم سنگم ملاحظہ کیجیے:

برائی کواسی دن
مرناچاہیے
جس دن وہ پیدا
ہوتی ہے
کل اس کا جنم دن تھا
اورکل ہی اس کی موت ہوئی
اب اس کی برسی
اورجنم دن
ایک ساتھ منایاجاتا ہے
غم اورخوشی
کے سنگم پر

رحمان امجد مراد نے اس مختصر نظم میں اخلاقی، جذباتی اور علامتی سطحوں پر بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ یہ نظم “برائی” کے وجود، اس کی عمراور اس کے خلاف ایک اخلاقی پیغام پر مبنی ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ برائی کو اسی لمحے مٹ جانا چاہیے جب وہ جنم لیتی ہے۔ اگر ایسا ہو، تو وہ کبھی معاشرے میں جڑ نہیں پکڑتی۔نظم یہ بھی دکھاتی ہے کہ اگر برائی کو موقع نہ دیا جائےتو وہ وقتی ہی رہتی ہے نہ اس کی عمر لمبی ہوتی ہے، نہ اثر۔نظم چونکہ مختصر ہے، اس لیے اس کا اثر  گہرا ہے۔آخری سطر “غم اور خوشی کے سنگم پر”ایک فلسفیانہ اختتام ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔کیا خوشی اسی میں ہے کہ برائی کا خاتمہ فوراً کر دیا جائے؟رحمان امجد مراد کی یہ نظم اپنے مختصر قالب میں ایک گہرا اخلاقی، فکری اور علامتی پیغام رکھتی ہے۔ یہ نظم ہمیں نہ صرف برائی کے خلاف بیدار کرتی ہے بلکہ یہ بھی سکھاتی ہے کہ ہر واقعہ صرف غم یا خوشی نہیں، بلکہ اکثر وہ دونوں کا سنگم ہوتا ہے اور یہ سنگم ہی انسانی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔

نظم” لمحہ “ملاحظہ کیجیے:

ہرگزرتا لمحہ
ایک انجانے سفرمیں
ہمارے ساتھ
محوِ سفر ہے۔اس لیے
وہدن دورنہیں
جب ہرظالم سےاس کے ظلم کا
حساب لیاجاۓ گا
اورہرمظلوم کی دادرسی کی جاۓ گی
ان شاءاللہ
وہ دن دورنہیں

نظم کا مرکزی خیال وقت کے ساتھ عدل و انصاف کی یقین دہانی ہے۔ یہ نظم ظالموں کو خبردار کرتی ہے اور مظلوموں کو امید دلاتی ہے کہ ظلم کے خلاف احتساب اور انصاف کا دن ضرور آئے گا۔نظم کا انداز کچھ کچھ خطیبانہ (rhetorical) ہےجو قاری کو جھنجھوڑتا ہے اور عمل کی ترغیب دیتا ہے۔
نظم وقت کو گواہ اور انقلابی قوت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ظلم کو وقتی اور انصاف کو حتمی قرار دیتی ہے:
“ہر ظالم سے اس کے ظلم کا حساب لیا جائے گا”
“ہر مظلوم کی دادرسی کی جائے گی”
“ان شاء اللہ” کا استعمال صرف مذہبی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ یقینِ محکم کی علامت ہے  شاعر کو اپنے موقف اور انجامِ کار پر پورا اعتماد ہے۔”ہر گزرتا لمحہ”: صرف وقت نہیں بلکہ وہ خاموش گواہ بھی ہے جو ہر ظلم و انصاف کو نوٹ کر رہا ہے۔”وہ دن دور نہیں”: بار بار دہرایا گیا فقرہ جو نظم کا نعرہ بن جاتا ہے — ایک قسم کی امید کی صدا۔نظم کا تکرار (repetition)  “وہ دن دور نہیں”  ایک شعوری ادبی تکنیک ہےجو نظم کے اختتام کو یادگار بناتی ہے۔رحمان امجد مراد کی نظم “لمحہ” ایک اجتماعی شعور کو جھنجھوڑنے والی نظم ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وقت کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتا۔ ہر لمحہ گواہ ہے، ہر ظلم ریکارڈ ہو رہا ہے، اور انصاف کا دن جلد آنا ہے  یہ نظم مظلوم کے دل میں حوصلہ اور ظالم کے دل میں خوف پیدا کرنے والی فکری کاوش ہے۔
شاعرکی زبان سادہ مگر پُراثر ہے۔ محاورے، تشبیہات، اور استعاروں کا استعمال دل کو چھو لینے والا ہے۔ ہر جملہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور ہر صفحہ ایک نئی فکری جہت کھولتا ہے۔ بعض اوقات زبان رمز میں گفتگو کرتی ہے، جو قاری کو مزید غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔”منظر کشی آوارگی” ایک خاموش چیخ ہے اُن تمام لوگوں کی جو ہجرت کے کرب سے گزرے، جو اپنوں کے بیچ اجنبی ہو گئے، یا جنہیں معاشرے نے نظرانداز کر دیا۔ یہ کتاب ایک آئینہ ہے، جس میں ہم اپنی داخلی آوارگی کو دیکھ سکتے ہیں۔یہ کتاب محض مطالعے کے لیے نہیں، بلکہ محسوس کرنے کے لیے ہے۔ وہ قارئین جو گہرے جذبات اور فکری ادب کو پسند کرتے ہیں، اُن کے لیے یہ ایک قیمتی اضافہ ہے۔ رحمان امجد مراد نے ایک منفرد موضوع کو گہرائی کے ساتھ پیش کر کے اردو ادب میں ایک اہم سنگِ میل عبور کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content