خالد بزمی اردو ادب کے جدید اور حساس مزآج شاعر ہیں جنہوں نے اپنی غزل گوئی سے نئی فکری جہات کو متعارف کرایا ہے۔ ان کے دوسرے مجموعۂ غزلیات ”آغوشِ صدف“ میں ایک سو اٹھارہ غزلیں شامل ہیں جو ان کی تخلیقی وسعت، فکری تنوع اور فنی پختگی کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ مجموعہ نہ صرف ان کی شعری ریاضت اور جمالیاتی شعور کا مظہر ہے بلکہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ بھی ہے۔

اشکوں کی طرح خاک میں اس کو ملاؤ گے

تم جس کسی کو اپنی نظر سے گراؤ گے

اس روز میرا جذبہ دل یاد آئے گا

جب تم کسی کی یاد میں آنسو بہاؤ گے

خالد بزمی نے روایت کو صرف برتا ہی نہیں، بلکہ اسے نئے معنوی تناظر میں ڈھالا ہے، جس کے باعث ان کی غزلوں میں ندرت، تخیل اور تازگی محسوس کی جا سکتی ہے۔

ان کی غزلوں کا سب سے نمایاں وصف جدت ہے جو موضوعات، اسلوب اور اظہار کے قرینوں میں جھلکتی ہے۔ انہوں نے روایتی غزل کے محبوب، وصال، فراق اور ہجر کے موضوعات کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں داخلی کرب، وجودی سوالات، وقت کے تقاضے اور انسان کی تنہائی جیسے مسائل کو گہری فنکارانہ چابکدستی سے برتا گیا ہے۔ ان کے اشعار قاری کو چونکا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ عام انسانی تجربات کو غیر معمولی شعری پیکر میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ خالد بزمی کی زبان میں سادگی کے ساتھ ایک تہہ دار پیچیدگی ہے جو بظاہر آسان مگر معنی کے اعتبار سے گہرائی رکھتی ہے۔

جب بھی کسی کو عشق میں تلقین کی گئی

دل سی حسین چیز کی توہین کی گئی

آغاز ہی سے اس میں تھا موجود باب غم

جس دن کتاب زیست کی تدوین کی گئی

فنی اعتبار سے خالد بزمی کی غزل گوئی میں توازن، رچاؤ اور روانی کی صفات نمایاں ہیں۔ وہ بحر و وزن پر مکمل دسترس رکھتے ہیں اور ہر غزل میں فکری وحدت کو قائم رکھتے ہوئے اشعار کو اس فنکارانہ مہارت سے مربوط کرتے ہیں کہ قاری کسی ایک شعر کو الگ کر کے نہیں، بلکہ پوری غزل کو ایک مربوط خیال کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ ان کی غزلیں زبان و بیان کے حسن، تراکیب کی ندرت، تشبیہ و استعارہ کی چمک اور علامتی اظہار کی لطافت سے مزین ہیں۔ ان کے یہاں الفاظ محض وسیلہ اظہار نہیں بلکہ خود ایک جمالیاتی تجربہ ہیں۔ ان کی شعری فضا میں خاموشی بولتی ہے اور سکوت سرگوشی کرتا محسوس ہوتا ہے، جو قاری کو نہ صرف غزل کی معنوی سطح پر متوجہ کرتا ہے بلکہ اسے محسوس کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ وہ اظہار ذات کو صرف غزل تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ دیگر اصناف سخن کو بھی برتنے کا ہنر خوب جانتے ہیں خالد بزمی نے غزل کے خلاف ایک نظم غزل کے عنوان سے لکھی تھی اور وہ خود لکھتے ہیں کہ جس مشاعرے میں وہ یہ نظم پڑھ دیتے وہاں شاعروں کو غزل کہنا مشکل ہو جاتا اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں

میں کچھ عرصے سے دانستہ غزل سے دور رہتا ہوں

کچھ ایسا ذہن بدلا ہے ہے کہ اب نظمیں ہی کہتا ہوں

غزل میں ایک شاعر اس قدر پابند رہتا ہے

جو کہنا چاہتا ہے وہ عموماً کم ہی کہتا ہے

خالد بزمی صاحب کی نظم نگاری جس طرح اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے اسی طرح ان کی غزل سرائی بھی لآجواب ہے ایک غزل میں وہ خود شاعرانہ تعلی سے کام لیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

بزمی غزل سرائی کا سودا نہیں مجھے

نالے جو لب پہ آ گئے منظوم ہو گئے

ادبی محاسن کے اعتبار سے خالد بزمی کی شاعری میں فکری گہرائی، معنوی وسعت، جذباتی شدت اور فلسفیانہ جھلک نمایاں ہے۔ ان کی غزلوں میں نہ صرف انفرادیت کا تاثر ملتا ہے بلکہ وہ آجتماعی شعور کے حامل بھی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے غزل کو نہ صرف اظہارِ ذات کا وسیلہ بنایا ہے بلکہ اسے عصرِ حاضر کے مسائل اور انسانی نفسیات کے پیچیدہ رویوں کا آئینہ بھی بنا دیا ہے۔ ان کے اشعار میں کہیں طنز کی کاٹ ہے تو کہیں درد کی لَے، کہیں محبت کی نرمی ہے تو کہیں سوال کی تپش۔ یہ تنوع ہی ان کی شاعری کو قابلِ قدر بناتا ہے۔

کچھ اثر ہونے لگا ہے آہ کی تاثیر کا

رنگ پھر نکھرا ہے میرے خواب کی تعبیر کا

”آغوشِ صدف“ خالد بزمی کی شعری جہتوں کا ایسا مجموعہ ہے جو صرف ان کی ادبی شخصیت کی نمائندگی ہی نہیں کرتا بلکہ اردو غزل کی ترقی یافتہ روایات میں ایک نئی تازگی کا رنگ بھی بھرتا ہے۔ خالد بزمی کی غزلیات کے اس مجموعے ”آغوشِ صدف“ میں موضوعاتی تنوع بطور خاص قابلِ ذکر ہے۔ ان کی شاعری صرف محبت، ہجر و وصال یا روایتی عشقیہ جذبات تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنی غزلوں میں سمویا ہے۔ ان کی غزلوں میں عصری بے چینی، وجودی تشکیک، تنہائی کا کرب، معاشرتی ناہمواری، اقدار کی زوال پذیری، انسانی رشتوں کی شکست و ریخت، خواب و حقیقت کا تصادم، اور ذات و کائنات کے پیچیدہ سوالات نمایاں طور پر جلوہ گر ہیں۔ کبھی وہ اپنے باطن کی خلش کو شعری پیکر میں ڈھالتے ہیں تو کبھی خارجی دنیا کے تضادات کو آئینۂ غزل میں منعکس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری محض جذبات کی ترجمانی نہیں بلکہ ایک فکری مکالمہ بھی ہے جو قاری کو ذاتی تجربات اور سمآجی مشاہدات کے درمیان جھانکنے پر مجبور کرتا ہے۔ موضوعات کی یہی وسعت ان کی غزلوں کو عصرِ حاضر کے نمائندہ فن پارے کا درجہ عطا کرتی ہے۔

حق کا انعام ہے پھولوں کے بجائے پتھر

کون اس دور میں سچ بول کے کھائے پتھر

دیکھیے پھر پس دیوار پہ کون اپنا ہے

کس کی جانب سے میری سمت پھر آئے پتھر

اس مجموعے کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ خالد بزمی محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک حساس عہد کے ترجمان ہیں جنہوں نے اپنے اندر کے انسان کو معاشرے کے آئینے میں دیکھ کر اشعار میں ڈھالا ہے۔ ان کی غزلیات آج کے قاری کو مخاطب کرتی ہیں، اسے سوچنے پر آمادہ کرتی ہیں اور ایک جمالیاتی تجربہ عطا کرتی ہیں جو دیر تک یاد رہتا ہے۔

جس کو بھی دیکھیے وہی حیراں ہے آج کل

ہر شخص زندگی سے پریشان ہے آج کل

اس دور میں بشر کا تو جینا حرام ہے

ہر کوئی دوسروں سے ہراساں ہے آج کل

پروفیسر خالد بزمی نے تحقیق اور تنقید کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی درجنوں کتابیں تحریر کیں البتہ ان کی زندگی میں ان کا ایک ہی مجموعہ غزل آئینہ خیال کے نام سے شائع ہوا ان کی وفات کے بعد ان کی صاحب زادی محترمہ عافیہ بزمی نے نعتیہ مجموعہ ”سبز گنبد دیکھ کر“ شائع کروایا اس کے علاوہ ایک حمدیہ مجموعہ بھی ”جبین نیاز“ کے نام سے شائع کروایا ہے۔ میرے خیال میں انھوں نے اپنے والد محترم کے مسودات سے دو مجموعہ ہائے غزلیات تلاش کر کے اردو ادب کے دامن کو مالا مال کیا ہے جس میں سے ایک مجموعہ اس وقت آپ کے سامنے ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content