بسمل عشق کومل یاسین کی ان بیس کہانیوں اور افسانوں پر مشتمل ہے جو مختلف رسائل، ڈائجسٹوں اور ادبی ویب سائٹس پر شائع ہوئیں۔ کومل یاسین کو میں گرافک ڈیزائنر کے طور پر ہی جانتی تھی مگر جب ان کی کتا ب کا مسودہ ہمارے پاس اشاعت کے لیے آیا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ کوئیٹہ بک فئیر میں کومل یاسین نے جس طرح بڑھ چڑھ کر پریس فار پیس کے اسٹال کو کامیاب کرایا ،میں اس دھان پان سی لڑکی سے کافی متاثر ہوئی تھی۔اب کومل یاسین کی کتاب کی اشاعت نا صرف مصنفہ کے ادبی سفر کے لیے ایک خوش کن سنگ میل ہے بلکہ بلوچستان اور کوئٹہ کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے جہاں باقی ملک کی نسبت خواتین قلم کاروں کی تعداد قدرے کم ہے۔
کتاب کے بیک کور پر افسانہ نگار اور شاعرہ ماہم حامد کی رائے شامل ہے ۔
“بسمل عشق ‘ بیس افسانوں اور کہانیوں کا خوب صورت مجموعہ ہے جو 170 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا سرورق بہت پر کشش ہے اور جب کتاب کے افسانوں اور کہانیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو سرورق کی پینٹنگ کے نسوانی کردار کتاب میں شامل بعض کرداروں کا عکس لگتے ہیںَ( یہ پیننٹگ ما یہ ناز آرٹسٹ آنیہ ایس خان نے بطور خاص کتاب کے کور کے طور پر تیار کی ہے )۔
کتاب میں شامل کہانیوں کی اکثریت کا مرکزی کردار عورت ہے۔
“بسمل عشق کہانیوں میں ہر طرح کے رنگ اور کردارملتے ہیں، کچھ کہانیوں میں روحانی اور صوفیانہ رنک جھلکتا ہے اور کچھ پر رومانوی ، کہیں کہیں معاشرتی اور سماجی کردار نظر آتے ہیں۔ کہانیاں اور افسانے پڑھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ ان کے کردار کہیں آپ کے آس پاس ہی ہیں۔ مصنفہ کی زبان کہیں کہیں شاعرانہ لگتی ہے۔ لگتا ہے مصنفہ نے کہیں کہیں اشعار کا استعمال بھی کیا ہے مگر اس بات کا حوالہ نہیں کہ یہ ان کے اپنے اشعار ہیں یا کہیں سے لیے گئے ہیں۔
وفا، سوچ، سونے کے کنگن ، تعفن زدہ لاش، دستار کا بوجھ، اور فرض قاری کو متاثر کرنے والی کہانیاں ہیں۔جو نسبتا طویل ہیں۔
البتہ “بخت کی کالک “افسانچہ ہے۔
اس کا انجام بہت پر اثر ہےاور قاری افسانہ پڑھنے کے بعد اس کے سحر اور اثر میں گھرا رہتا ہے۔ افسانے کا انجام ان الفاظ پر ہوتا ہے:
“بچی بیس روپے صاحب جی کو اپنے بخت کے صدقے دیتی آگے بڑھ جاتی ہے اور بچے کے بخت کی کالک صاحب جی کے جوتے میں سما جاتی ہے۔ “
دستار کا بوجھ ” “
ایک ایسا افسانہ ہے جو سماج میں عام انسانوں کی زندگی میں دخل دیتے جرگہ اور پنجایتی نظام پرتنقید کے نشتر برساتے ہوئے یہ پیغام دیا ہےکہ مصنفہ نا صرف نسوانی کرداروں کے مسائل، جذبات اور احساسات کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں بلکہ معاشرے میں طبقاتی نظام کی برائیوں کو بھی اپنے قلم سے اجاگر کیا ہے۔
کتاب میں بہت ساری جگہوں پر خوب صورت نثر کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ جیسے
“محبت اور دستار کا قرض جان دے کر اتارا جاتا ہے اور یہ قرض مرداورعورت کی زندگی میں لازمی آتاہے۔ محبت دستار سے ٹکراتی ہے تو پاش پاش ہو جاتی ہے جبکہ دستار اس ٹکراؤ میں توازن کھو دیتی ہے اور زندگی کی جنگ میں پچھتاوے ،دکھ اور آنسو سمیٹ کر دستا ر کے محافظ کا وجود اس قدر تھک جاتا ہے کہ لمحہ لمحہ مظبوط دکھائی دیتا شخص موت کی آغوش میں سمٹ جاتا ہے۔ )
افسانہ آتش عشق صفحہ 44
افسانہ عشق کے رنگ پکے پیا
ظاہری عشق سے باطنی سفر کی داستان ہے۔افسانے کے کردار عشق مجازی سے حقیقی تک کا سفر طے کرتے ہیں ۔ افسانے کے بعض مراحل بہت جذباتی اور متاثر کن ہیں اور قاری کی روحانی اور قلبی تربیت کا ساماں کرتے ہیں۔
۔ “اسیر عشق” میں ناولٹ نما طویل افسانہ ہے اس میں ایک پیرا گراف ہے۔
“محبت تین کونوں والی مثلث بن چکی تھی جہاں ایک کونامحبت کی اذیت جھیل رہاتھا، دوسرا کونامحبت کی قدر کا احساس دلا رہا تھا اور تیسرا کونا دو کونوں کو اپنی محبت کی قربانی دے کر جوڑنا چا رہا تھا مگر محبت تینوں سے ناراض ہو چکی تھی۔ “
ص 82
کومل یاسین اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد کی مستحق ہیں۔ ہمیں امید ہے ان کا قلم اور مطالعہ مستقبل میں زیادہ جامع موضوعات کا احاطہ کرے گا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.