تابندہ شاہد
وہ پہلی مرتبہ گاؤں جا رہی تھی۔ اُس کی بیٹی کی سرکاری تعیناتی گاؤں میں نئے کُھلے خواتین کالج میں ہوئی تھی۔ کالج کے احاطے میں ایک چھوٹا سا گھر بھی مل گیا اور وہ اپنے پانچ سالہ بیٹے کے ساتھ وہاں منتقل ہو گئی۔
دو ماہ ہو چکے تھے۔ ابا، بہن، بھائی، خالہ وغیرہ نے دو تین مرتبہ گاؤں کا ایک روزہ چکر لگایا مگر اُسے موقع نہ ملا۔ آج بغیر کسی منصوبہ بندی کے اُسے ۔۔۔۔۔ بیٹی کے ساتھ جانا پڑ گیا۔
بیٹی ہمیشہ عوامی بس میں سفر کرتی تھی۔ گھر کے بقیہ افراد ذاتی گاڑیوں میں جاتے رہے تھے لیکن اِسے بیٹی کے ساتھ عوامی بس میں جانا پڑا۔
بسیں پچھلی صدی کی یادگار تھیں۔ تنگ تنگ نشستیں اور کھٹارا ڈھانچہ ۔۔۔۔۔ انجن کی آواز سے مردے جاگ جائیں اور پریشر ہارن کی آواز سے مردے دوڑ لگا دیں ۔۔۔۔۔۔
سفر شروع ہوا۔ آدھا گھنٹہ موٹروے پر قدرے بہتر رہا پھر بس موٹروے سے اُتر کر ضلع کی حدود میں داخل ہو گئی۔ اصل سفر ( انگریزی اور اردو دونوں) تو اب شروع ہوا تھا۔۔۔۔سڑک کے دونوں اطراف کھیت ہی کھیت۔۔۔۔ایک گاؤں کے کھیت ختم تو چھوٹا سا سٹاپ۔۔۔ کچھ دکانیں۔۔۔ بس پاں پاں کرتی رکی۔۔۔ سواریاں اتریں چڑھیں اور بس پاں پاں کرتی اگلے گاؤں کی طرف روانہ۔۔۔
پورا ضلع نیم پہاڑی علاقہ ہے اس لئے سڑک پر بہت موڑ ہیں اس پر مستزاد تنگ بھی ہے۔ سڑک کی حالت اچھی ہے مگر بس کی اچھی نہیں لہٰذا جھٹکوں کا کوئی حساب نہیں تھا۔
جیسے ہی بس موٹروے سے اُتری وہ چوکنّا ہو کر بیٹھ گئی۔ بس یقیناً ستر سے زیادہ کی رفتار سے اُڑی جا رہی تھی کہ آگے موڑ آ گیا۔ معلوم نہیں بس نے رفتار آہستہ کی یا نہیں مگر پریشر ہارن زور و شور سے بجنے لگا۔ اِس کے ساتھ ہی بس نے موڑ کاٹا اور وہ نشستوں کی درمیانی راہ میں گرتے گرتے بچی۔ جیسے ہی بس سیدھی ہوئی۔۔ وہ بھی سنبھل گئی۔ دیکھا سامنے سے آتا ہوا ٹرالہ سڑک سے اتر کر کچے میں کھڑا تھا ( اتنی تنگ سڑک تھی) اچھا اس لئے ہارن بجایا تھا !! اس نے سوچا۔
اس کے بعد پے در پے موڑ آتے گئے اور اس کے بازو، ٹانگیں اور کمر۔۔۔۔ توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں اینٹھنے لگے۔
اللّٰہ اللّٰہ کر کے بیٹی کے گاؤں کی حدود شروع ہوئیں۔ بس گاؤں میں داخل ہو گئی۔ دونوں اطراف میں دوکانیں اور تنگ گلیاں تھیں۔ گلیاں اتنی تنگ تھیں کہ ایک وقت میں شاید ایک ہی بندہ گزر سکتا !!
ایک منٹ میں بس موڑ کاٹ کر دوسرے بازار میں داخل ہوئی اور اگلے ایک منٹ میں بس کالج کے صدر دروازے پر رک چکی تھی۔ یہ گاؤں کا واحد بازار ہے۔ اِس کے آگے ” پکا ” گاؤں ختم اور کھیت شروع !!!! اُس نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور بس سے نیچے اتر گئی۔
وسیع و عریض احاطے میں واقع کالج کی کشادہ و پرشکوہ عمارت اور پہلو میں دو چھوٹے چھوٹے گھر اور خاموشی۔۔۔۔ اس نے سکون کا گہرا سانس لیا۔ دوسرے گھر میں کالج کا سرکاری ملازم اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ مقیم تھا۔ وہ دور کے گاؤں کا تھا اور یہ مکان اسے الاٹ ہوگیا۔
مکان میں قدرتی گیس کے علاوہ ہر سہولت موجود تھی۔ گیس پورے گاؤں میں نہیں تھی۔ کالج کا اپنا ٹرانسفارمر تھا۔ بجلی وافر تھی اور گیس کی کمی بخوبی پوری ہو رہی تھی۔
اُسے شہر اور گاؤں کی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں لگا لیکن ماحول!! ۔۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ماحول کا فرق واضح ہونے لگا۔ شام پھیل رہی تھی۔ اکتوبر کی خوشگوار خنکی بڑھنے لگی۔ ہر طرف خاموشی اور کہیں دور سے پریشر ہارن کی آواز اب جلترنگ کی مانند محسوس ہوئی۔ مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھایا۔ رات اُتر چکی تھی۔ وہ باہر نکلی۔ چہار سو گہرے اندھیرے کی چادر تنی تھی۔ آخری تاریخوں کا چاند طلوع نہیں ہوا تھا۔ اس نے چہل قدمی کرتے ہوئے خاموشی اور خنک مہکتی ہوا کو اپنے اندر اتارا اور عادتاً سر اُٹھا کر آسمان کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔ اوہ!
وہ پلک جھپکانا بھول گئی۔۔۔اُففف! اتنا خوبصورت! کیا آسمان اتنا خوبصورت بھی ہو سکتا ہے !! اتنا سیاہ !! اس نے گردن سیدھی کی، پلکیں جھپکائیں پھر سر اٹھایا ۔۔ اللّٰہ اکبر ! سبحان اللّٰہ! سبحان اللّٰہ!
اس نے اندر سے آرام کرسی نکال کر ایک مناسب جگہ پر بچھائی اور اطمینان سے سر ٹکا کر نیم دراز ہو گئی۔
دور دور تک پھیلا کالج کا میدان اور اوپر بغیر کسی رکاوٹ کے تا حدِ نگاہ کالا آسمان گویا۔۔۔۔۔ کالا سیاہ پھیلا آنچل اور اُس پر ٹِکے چھوٹے بڑے تارے۔۔ بے ترتیب مگر مُنظّم۔۔ جھلمل جھلمل ۔۔ قدرت کی ایسی صنّاعی کہ گھنٹوں تکتے رہو۔۔ ۔۔ جی نہ بھرے ! واللّٰہ ! آلودگی بھرے شہروں میں ایسا نظارہ کہاں! وہاں تو جب آسمان دیکھنا چاہا۔۔۔ دھندلکے کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔
” ہاں ! گاؤں اور شہر کی زندگی میں کوئی فرق ہو نہ ہو مگر دونوں کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے”
اُس کے دل نے فیصلہ سنا دیا!
لکھاری کا تعارف
تابندہ شاہد نثر نگار ہیں جنھو ں نے سائنس کی تعلیم حاصل کی ہے خود کو خواتین کی اصلاحی و دینی اصلاحی سرگرمیوں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ اردو زبان سے محبت بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے ۔ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے ہے۔ اردو زبان اور ادب کے تاب ناک مستقبل کی خواہاں ہیں۔ان کی تحریریں ادبی ویب سائٹس پر شائع ہوتی ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.