تبصرہ نگار : سندس شبیر

انسا ن دنیا کی مخلو قا ت کے لیے اجنبی ہے یہی اجنبی انسا ن دنیا کی جستجو میں صبح سے شام کو نہ کو نہ مچھا ن رہا ہے سمندر کی تہو ں اور آسمان کی وسعتو ں کو نا پتا پھرتا ہے۔ ایسے ہی کتاب “بہا ولپور میں اجنبی ” نا م سے ہی ایک انسا ن میں اجنبیت کا احسا س پیدا ہو تا ہے۔

مظہر اقبال مظہر کی کتا ب ” بہا ولپور میں اجنبی ” دیدہ زیب رنگو ں میں منر ین سر ورق لیے جاذب نظر کتاب ہے جیسے چھو نے سے لطا فت ٹپکتی ہے۔ انہوں نے اپنی کتا ب میں زبا نو ں کو ما ں بو لیا ں، بہنیں اور ہمسا ئیا ں قرا ر دیا ہے۔وہ کہتے ہیں  کہ زبان سرا ئیکی ، کشمیری ، پہا ڑی یا پھر پنجا بی ہو بہا ولپور کے کسی کو جو ان کی ہو ۔ یہ سب زبا نیں ماں کا رو پ دکھا کر اور بھی شریں ہو جاتی ہیں ۔ یہی حال سرائیکی زبان اور وسیب کا بھی ہے۔ مصنف نے بہاولپور کی تاریخ و تہذیب کو بیا ن کر تے ہو ئے اس کا حق ادا کر دیا ہے ۔ بلا شبہ نواب سر صادق محمد خان عباسی کے ذکر بنا بہا ولپور کی تا ریخ ادھو ری ہے ۔ آپ نے اپنے وطن کے لیے تعلیمی ، تہذیبی ، ثقا فتی اور طب کے شعبے میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں ۔ اسی بنا پر قا ئد اعظم محمد علی جنا ح سے محسن پاکستان خطا ب حاصل کیا تھا ۔ کتاب کے مطا لعے کے دوران ایسا محسو س ہو تا ہے۔ کہ جیسے قاری مصنف کے سا تھ ساتھ تاریخ کے اسی جاہ جلا ل کا حصہ بن گیا ہو ۔لیکن مظہر اقبال مظہر نے قا ری کو تا ریخ کے سا تھ لور نہیں کیا بلکہ مزا ج کا بھی بھر پو ر اہتمام کیا ۔ آپ نے ایک کشمیری تارک وطن کی حیثیت سے اقوا م عا لم میں پیش آنے والے مسا ئل کا بھی احسن طریقے سے تذکرہ کیا ہے۔

مصنف نے کتا ب کے آخر میں بہا ولپور اور کشمیر میں مما ثلت کی جوبا ت کی ہے۔ اس میں بڑے احترا م کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گی۔” کہ یہ بہا ولپور تو خود کبھی پاکستان تھا  اور بھی ہے با قا عدہ حکو مت میں بھی شا مل ہے ۔

رہی بات حق اور انصا ف کی تو اس سلسلے میں ، سب سراپا احتجا ج ہیں “

کتا ب کے آخری حصے میں دیے گئے دو افسا نے مصنف کے انسا نی درد چا ر کا منہ بو لتا ثبو ت ہیں ۔ لہذا افسا نہ “دل مندر ” ماں بیٹے کے فطری پیا ر میں گندھا ہوا ملتا ہے۔ دوسرا افسا نہ ” ایک بو ند پانی ” جیسے پڑھتے ہوئے سفر اور افسا نہ ساتھ ساتھ لگے ۔ یوں سمجھے کہ ایک تیر سے دو شکا ر ہو گئے ۔ ایسی لفظی تصویر کھینچی کہ یہا ں بھی قا ری لق و دق صحرا میں چلتے ہو ئے اپنے پائو ں میں لگی ریت جھا ڑنے پر مجبور ہو نے لگتا ہے۔ دو نو ں افسا نو ں میں اور بہا ولپور کی تحریر و تا ریخ کو بہت زبر دست انداز میں لکھا ہے ۔آخر میں پریس فار پیس فاؤنڈیشن  (لندن ) اور مصنف کے لیےنیک تمنا ئیں جن کے زیر اہتمام اس خو بصورت کتھا نے لفظو ں کا رو پ ڈھا لا ۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content