عنیزہ عزیر( جہانیاں )
قہر برساتے سورج کو آخر کار بادلوں نے ڈھانپ لیا تھا۔ بہت دنوں کے بعد آسمان کھل کر برسا تھا اور ہر طرف جل تھل ایک تھا لیکن اتنی بارش برسنے کے بعد بھی موسم میں حبس برقرار تھا۔ اس حبس زدہ ماحول میں ہر کوئی اپنے آپ میں مگن اپنی زندگی جیے جا رہا تھا اس بات سے انجان کہ ان فضاؤں میں نہ جانے کن کن گناہوں کا اثر تھا۔ صبح ہوتی پھر شام ہوتی، موسم کی تلخی ویسے ہی برقرار رہتی لیکن سارے کام اسی معمول کے مطابق جاری و ساری رہتے تھے۔
اسی طرح کی ایک صبح کاشان منزل پر بھی اتری تھی۔ کچن میں امینہ بیگم ناشتہ بنا رہی تھیں اور ناشتے کی مزے دار خوشبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ کچن کے دروازے کے سامنے برآمدے میں دادی اماں کا تخت رکھا ہوا تھا جس پر وہ لیٹی ہوئی تھیں، تخت کے ساتھ ہی دو کرسیاں پڑی رکھی گئیں تھیں جن کے اگے ایک چھوٹی میز رکھ کی گئی تھی۔ گرمیوں میں صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا یہاں ہی کھایا جاتا تھا۔
مصعب یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو کر کمرے سے نکلا تو بر آمدے میں قدم رکھتے ہی سامنے دادی اماں کو دیوار کی طرف منہ کر کے لیٹا دیکھ کر ٹھٹھکا۔
مصعب نے بے اختیار پوچھا:
” ارے دادی اماں! خیریت؟ آج آپ اس وقت لیٹی ہوئی ہیں؟“
دادی اماں فجر کی نماز پڑھ کر اذکار کرتی تھیں پھر سب کے ساتھ ناشتہ کر کے اشراق اور چاشت پڑھ کر پھر کچھ دیر کے لیے سوتی تھیں۔ ان کو بے وقت لیٹا دیکھ کر مصعب کو تشویش لاحق ہوئی۔ دادی کا جواب نہ پا کر ماں کی طرف دیکھا جو کچن کے دروازے میں کھڑی اسی کو دیکھ رہی تھیں؛ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ رو رہی ہیں۔ وہ راحیلہ کے کمرے میں گیا تاکہ اس سے پوچھ سکے۔
” راحیلہ! دادی اماں کو کیا ہوا ہے؟ “
”پتہ نہیں بھائی، صبح سے موبائل دیکھ رہی تھیں اور ساتھ ساتھ روئی جا رہی تھیں۔ اب موبائل تو بند کر کے رکھ دیا ہے لیکن پھر بھی روئی جا رہی ہیں۔ آپ کو کہاں بھی تھا کہ ان کو موبائل نہ لے کر دیں لیکن آپ کہاں سنتے ہیں۔
راحیلہ نے دھیمے لہجے میں بتایا تا کہ باہر دادی تک آواز نہ جائے۔
مصعب نے کچھ عرصہ پہلے ہی اپنے جیب خرچ سے دادی اماں کو موبائل لے کر دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ دادی کے پاس بھی موبائل ہونا چاہیے تا کہ وہ جس سے بھی چاہیں، جب چاہیں رابطہ کر سکیں۔
”اچھا تم پریشان نہ ہو، میں دیکھتا ہوں۔“
مصعب اس کو تسلی دے کر باہر نکلا تو پیچھے پیچھے راحیلہ بھی چلی آئی۔
”دادی اماں! پیاری دادی اماں!“
مصعب نے ان کو کاندھوں سے پکڑ کے سیدھا کیا تو انہوں نے چہرے دوپٹے سے ڈھانپ لیا۔
”یار دادی! بتائیں نہ کیا ہوا ہے؟“
مصعب نے لاڈ سے پوچھا تو انہوں نے تکیے کے نیچے سے موبائل نکال کر اس کے سامنے کر دیا۔ سامنے ہی فیس بک کی نیوز فیڈ جگمگا رہی تھی۔ پورے فیس بک پر ایک ہی خبر گردش کر رہی تھی۔
”اسماعیل ھنیہ شہید۔“
اب دادی اماں ہچکیوں سے رو رہی تھیں۔ اس نے بے بسی سے پہلے امی کو دیکھا تو انہوں نے کاندھے اچکاۓ گویا
”میں کیا کر سکتی ہوں۔“
پھر اس کی نظر راحیلہ پر پڑی تو اس نے انکھوں سے اشارہ کیا جیسے کہہ رہی ہو
”اور موبائل لے کر دیں۔“
”دادی!“
اس نے بے بسی سے پہلے دادی کو بلایا اور پھر راحیلہ کو مخاطب کیا۔
”راحیلہ! پانی لاؤ دادی کے لیے۔“
وہ پانی لائی تو تب تک مصعب ان کے پیچھے تکیہ لگا کر ٹھیک طرح سے بٹھا چکا تھا۔ اس نے دادی کو پانی پلایا اور خود بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔
”اب بتائیں کہ رونے کی اصل وجہ کیا ہے؟“
انہوں نے اس کی چپت لگائی اور آنسو پونچھتے ہوۓ بولیں:
”ابھی تو بتایا ہے۔“
”دیکھیں دادی! ان کو تو شہادت کا رتبہ ملا ہے اور آپ رو رہی ہیں۔“
” بیٹا! رو تو اپنی بے بسی پر رہی ہوں کہ ہم اتنے بے بس ہیں کہ کھل کر غم بھی نہیں منا سکتے۔“
”دادی غم منانا کیوں ہے؟ “
راحیلہ جو اتنی دیر سے مصعب اور دادی کی باتیں سن رہی تھی، دادی کے دوسری طرف آ کر بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
”بیٹا! تم لوگ ان باتوں کو کیا سمجھو گے؟ تم لوگ کیا جانو ان کو قربانیوں کو، جو اسلام کی سربلندی کے لیے دی جاتی ہیں۔ جو لوگ اس سب کے لئے جدو جہد کرتے ہیں وہ کتنے نایاب ہوتے ہیں۔“
” لیکن دادی! یہ بھی تو ہے اگر حماس پہلے حملہ نہ کرتا تو جواباً اسرائیل بھی اتنی تباہی برپا نہ کرتا اور شاید اسماعیل ہنیہ بھی محفوظ رہتے؟ “
راحیلہ نے پر سوچ انداز میں کہا تو دادی اماں نے ایک آہ بھری۔
” بیٹا! آزادی کے لیے تو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، بہت کچھ سہنا پڑتا ہے اور بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔ لیکن یہ بات محفوظ چھت کے نیچے پر آسائش ماحول میں، تمام سہولیات کے میسر ہونے والوں کو نہیں سمجھ آ سکتی۔ دادی کہتی کہتی کہیں کھو گئی تھیں۔
_*_*_*_
”محمد سمیع! اس دفعہ تو تم نے زیادہ دن رہنا تھا لیکن ابھی تو دو دن بھی نہیں ہوۓ اور واپس جا رہے ہو؟“
نسیمہ نےفوجی وردی پہنے، سینے پر میڈل سجائے شیشے میں دیکھ کر کنگھا کرتے ہوئے سمیع کی دل ہی دل میں بلائیں لیتے ہوئے پوچھا۔
”سوچا تو یہ ہی تھا کہ اس دفعہ آؤں گا تو کچھ دن رہوں گا اسی لئے چھٹی بھی زیادہ لے کر آیا تھا۔ لیکن سنا ہے کہ سرحد کی طرف کچھ مسائل درپیش ہیں اس لیے تمام چھٹی پر جانے والے افسران کو ڈیوٹی پر واپس بلا لیا گیا ہے۔“
سمیع نے نسیمہ کی گود میں بیٹھے دو سالہ شفیق کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا۔
”اچھا تو دوبارہ کب تک چھٹی پر آؤ گے؟ میں نے اور امی نے تو سوچا تھا کہ تم آؤ گے تو خالہ کی طرف چلیں گے لیکن اب تم تو جا رہے ہو تو پھر میں امی کے ساتھ چلی جاؤں یا تمہارے آنے کا انتظار کروں؟
نسیمہ نے مسکراتے ہوئے سمیع سے پوچھا تو خالہ کے ذکر پر بے ساختہ ایک زندگی سے بھرپور چہرہ چھم سے سمیع کی آنکھوں کے پردے پر لہرایا۔
”اب بس مسکراتے رہو گے یا میری بات کا جواب بھی دو گے؟ “
اس کے چہرے پر پھیلی خوبصورت سی مسکان دیکھ کر نسیمہ نے اس کو چھیڑا۔
ان کی اواز سے وہ چونکا اور اپنے خیالات سے باہر آیا تو چہرے کی مسکراہٹ سمٹ گئی اور اس کی جگہ سنجیدگی نہیں لے۔
”ہاں تو آپا آپ ہو آئیں۔ خالہ جان اور خالو جان کو میرا بھی سلام کہئیے گا۔“
” ارے وہ تو کہہ دوں گی لیکن ہم کسی اور مقصد کے لیے جانا چاہ رہے تھے نا۔“
” نہیں آپا۔ ابھی نہیں میں نہیں چاہتا کہ کسی کو اپنے نام پر بٹھاؤں۔“
اس کا لہجہ مزید سنجیدہ ہو گیا تھا۔
” ہیں کیا مطلب ہے بھئی اس بات کا؟ بٹھانا کیوں ہے؟ دھوم دھام سے رخصتی کروا کر لائیں گے۔“
انہوں نے پیار سے اس کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”آپا! بس دعا کریں۔ سنا ہے حالات کافی سنگینی کی طرف جا رہے ہیں۔ اس لیے میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ ابھی اس قصے کو رہنے دیں۔“
سمیع سنجیدگی سے تو کہا تو نسیمہ پریشانی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”اللّٰہ خیر کرے سمیع! سنا تو تھا کہ سرحدوں پر کچھ مسائل ہیں لیکن حالات اتنے سنگین ہوں گے اس کا اندازہ نہیں تھا۔“
”بس حالات تو سنگین ہیں لیکن کتنے سنگین ہیں یہ تو اب ڈیوٹی پہ جا کر پتہ چلے گا۔
سمیع نے سنجیدگی سے کہا تو نسیمہ بے اختیار دل پر ہاتھ رکھتی سلامتی کی دعا مانگنے لگیں۔
”آپا! پریشان نہ ہوں بس دعا کریں۔“
ننھا شفیق جو کب سے اس کے پاس آنے کے لیے اس کی ٹانگوں سے لپٹ رہا تھا اس کو اٹھاتے ہوۓ سمیع نے آپا سے کہا۔
شفیق کو پیار کر کے آپا کو دیا اور خود بیگ اٹھا کر باہر اماں اور ابا سے ملنے کے لیے ان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ سمیع والدین کی دعائیں لے کر گھر سے روانہ ہو گیا تھا لیکن پیچھے ایک اداسی چھوڑ گیا تھا۔
سرحدی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے تھے اور پھر چھوٹی موٹی بہت سی چھیڑ چھاڑ کے بعد ایک دن رات کی تاریکی میں دشمن نے بھرپور حملہ کر دیا تھا۔ وطن کے محافظ اپنی جانیں ہتھیلی پر لئیے دشمن کے حملے کا منہ توڑ جواب دے رہے تھے۔ عوام بھی اپنے سپاہیوں اور فوج کا ساتھ دینے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ ہر شعبے سے منسلک لوگ اپنی خدمات پیش کر رہے تھے، طویل رات گزرنے کے بعد اجالے کی کرن نظر آنا شروع ہوئی تھی، دشمن پسپا ہو رہا تھا، اچھی خبریں آنا شروع ہو رہی تھیں اور پھر ایک روشن صبح طلوع ہوئی اور پوری دنیا نے دیکھا کہ ناپاک عزائم رکھنے والا اور شب کی تاریخی میں وار کرنے والا دشمن پسپا ہو گیا تھا۔ ہو طرف جوش بڑھ چکاتھا لیکن خوشی کی خبروں کے باوجود بھی نہ جانے کیوں نسیمہ بولائی بولائی پھر رہی تھی۔ اس کا دل نہ جانے کیوں بیٹھا جا رہا تھا اور پھر اتنے زور سے دروازہ بجا کے سوتے ہوئے ماں باپ بھی اٹھ بیٹھے۔ ننھا شفیق ڈر کر بے اختیار رونے لگا اور نسیمہ ان کے تو گویا جس میں جان ہی نہ تھی۔ اتنی ہمت بھی نہ ہوئی کہ دروازہ کھول سکیں۔
لیکن دروازہ شاید کھلا تھا، فوجی بوٹوں کی دھمک پورے گھر میں گونج رہی تھی۔ وطن کا محافظ وطن کی سلامتی کے لیے قربان ہو چکا تھا۔
_*_*_*_
دادی اماں ماضی سے حال میں لوٹیں تو بہتے آنسوؤں سے دلگرفتی سے بولیں۔
”بیٹا! وطن کو دشمنوں کے نرغے سے بچا لینے کی خوشی ایک طرف، جان سے عزیز بھائی کی شہادت کی خوشی دوسری طرف لیکن اس کی ابدی جدائی کا غم اس سب سے بڑا تھا۔
تم لوگوں کے لیے تو آج یہ سب کہنا بہت آسان ہے کہ دشمن سے لڑائی نہ کریں تا کہ امن و امان رہے۔ لیکن دشمن کو کچھ نہ کہنے کی اس سے بھی بھاری قیمت اٹھانا پڑتی ہے۔ اپنے ایمان کا سودا کرنا پڑتا ہے اور ایمان کا سودا کیسے کر لیں بیٹا؟“
” دادی،! دشمن سے لڑائی نہ کرنے میں ایمان کا سودا کہاں سے آ گیا؟ “
راحیلہ نے الجھن بھرے انداز میں پوچھا۔
”بیٹا! جب اپنے دین اسلام اور ایمان کی سلامتی کے لئے ہجرت کی جاتی ہے تو ہجرت کے بعد بھی اولین ترجیح اپنے اءمان کی حفاظت کرنا ہوتی۔ یہ ملک بھی ہم نے اسلام اور ایمان کے نام پر حاصل کیا ہے۔ت اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان کی بازی لگائی ہے بالکل اسی طرح جس طرح فلسطین کے لوگ اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں۔ لیکن ہماری نوجوان نسل اس بات سے آگے ہی نہیں بڑھ رہی کہ ہم نے دشمن کو چھیڑ کر غلط کیا ہے۔“
دادی لرزتی ہوئی اواز میں بولتی جا رہی تھیں۔
”بیٹا! اس ایمان کی سلامتی کے لئے مسلمانوں نے اب تک کتنی قربانیاں دی ہیں، کتنی اذیتیں سہی ہیں اور کتنی مشکلات سے دوچار ہوۓ ہیں ان کا اگر بیس فیصد احساس بھی آج کی نوجوان نسل کو ہوجاۓ تو وہ اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ اپنی بقا اور ایمان کی سلامتی کے لئے آزادی کتنی ضروری ہے۔“
دادی کے رقت آمیز لہجے میں کہنے پر مصعب اور راحیلہ شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے جا رہے تھے۔ نئی نوجوان نسل کی طرح انہوں نے بھی کبھی اس نہج پر تو سوچا ہی نہیں تھا۔
” پتر! جب تک ہم آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو یاد نہیں رکھیں گے ہم کبھی بھی اس آزادی کی قدر و مصلحت کو نہیں پا سکیں گے۔“
دادی کی آواز پر دونوں چونکے اور دونوں اپنی اپنی جگہ سوچ رہے تھے کہ
”آئندہ وہ بھی آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے اس آزادی کے پیچھے کی قربانیوں کو یاد رکھیں گے۔“
***
(ختم شد)