کہانی کار : نازیہ نزی نوشہرہ کینٹ
”امی جان! خادم انکل آگئے ہیں ؛ ان کا کھانا نکال دیں ۔“ احمد نے پلاسٹک کا ڈبا امی کی طرف بڑھایا ۔
احمد کی امی نے گرما گرم کھانا ڈبے میں ڈال کر احمد کو پکڑا دیا ۔
احمد نے غور کیا تو ڈبا کافی پرانا اور خراشوں سے بھرا ہوا تھا۔ احمد کو یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ڈبا نہ صرف پرانا ہے ؛ بلکہ اس سرد موسم میں کھانے کو زیادہ دیر گرم نہیں رکھ سکتا ۔
خادم انکل محلے کی مسجد کے خادم تھے اور پورا محلہ ان کا بہت خیال رکھتا تھا۔ ہر گھر سے باری باری ان کے لیے کھانا آتا تھا ۔ احمد کے گھر سے بھی ہفتے میں دو دن کھانا جاتا تھا۔ جب بھی خادم انکل کو احمد کے گھر سے کھانا ملتا تو وہ بہت خوش ہوتے اور دعائیں دیتے۔
احمد نے امی سے کہا : ”امی! یہ ڈبا بہت پرانا ہو گیا ہے اور کھانا جلدی ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ کیا ہم خادم انکل کو ایسا نیا ڈبا دے سکتے ہیں، جو کھانا زیادہ دیر تک گرم رکھے؟“
امی نے ڈبے کو غور سے دیکھا اور کہا :”تم صحیح کہہ رہے ہو بیٹا! ڈبا ایسا ہونا چاہیے کہ جو کھانا زیادہ دیر گرم رکھے؛ لیکن فی الحال ہمارے پاس نیا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں؛ میں اگلے مہینے نیا لے دوں گی۔ “
احمد نے یہ سن کر سوچا کہ وہ خود اس مسئلے کا حل نکالے گا۔ اگلے دن اسکول کے بعد، وہ اپنی جمع کی ہوئی عیدی گلک میں سے نکال کر بازار گیا اور ایک نیا خوبصورت ٹفن باکس خریدا ،جو دو حصوں پر مشتمل تھا اور بالکل ہاٹ پاٹ کی قسم کا تھا .ایک میں روٹی اور دوسرے میں سالن ڈالا جا سکتا تھا ۔
گھر پہنچ کر احمد نے امی کو جب نیا ٹفن باکس دکھایا تو امی حیران رہ گئیں اور بولیں: ”بیٹا! تم نے یہ کیسے خریدا؟“
احمد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا. ”امی! میں نے اپنی عیدی کے پیسے استعمال کیے ہیں۔ خادم انکل ہماری محلے کی مسجد کے پرانے خادم ہیں؛ اتنی خدمت کرتے ہیں , ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے ۔”
امی نے احمد کو گلے لگا لیا اور کہا: “تم نے بہت اچھا کام کیاہے بیٹا! تمھاری سخاوت اور دوسروں کا خیال رکھنے کی عادت تمھیں اچھا انسان بنائی گی۔”
اگلے دن جب احمد نے نیا ٹفن باکس خادم انکل کو دیا تو انکل نے اسے دیکھ کر کہا: ” یہ تو میرا ڈبا نہیں ہے ۔”
”جی انکل ! آج سے یہ آپ ہی کا ہے۔ “
احمد نے محسوس کیا کہ خادم انکل کے آنکھوں میں خوشی کی چمک لہرائی ہے اور وہ ٹفن باکس کو نہایت اپنائیت سے دیکھ رہے ہیں اور ان کے لبوں پر دعائیں ہی دعائیں ہیں۔
ان کی خوشی دیکھ کر احمد بھی بہت خوش تھا ۔
نتیجہ
آج احمد جان گیا تھا کہ دوسروں کی خوشیوں اور ضرورتوں کا خیال رکھنے سے بھی ہمیں بہت خوشی حاصل ہو سکتی ہے ۔