تحریر : ساجدہ بتول

    “کیا کہتے ہو؟ “

                پروفیسر حیان چلائے ۔

وہی جو تم نے سنا “پروفیسر رام داس کی آنکھوں سے خباثت ٹپک رہی تھی ۔”

 ” مم مگر یہ نا ممکن ہے“

   ”کیوں نا ممکن ہے ؟ کہاں گئے وہ سارے وعدے جو تم دوستی کے نام پہ کیا کرتے تھے ؟“  پروفیسر رام داس کا لہجہ یکدم طنزیہ ہو گیا  ”تم نے ہی کہا تھا ناں پروفیسر حیان! کہ تم دوستی کے لیے جان بھی دے سکتے ہو ۔ تم نے ہی کہا تھا ناں! کہ رام داس تمہارا سب سے بہترین دوست ہے! ہاں تم نے ہی کہا تھا ۔ رام داس تمہارے لیے سب سے اہم ہے اور تم نے ہی کہا تھا , مومن اپنی زبان سے کبھی نہیں پھرتا ۔ تو اب  دو اپنے مومن ہونے کا ثبوت ۔دوستی کے لیے یہ کام کر کے دکھاؤ۔“

    ”ہاہاہا مسلمان ہونے کا ایسا نرالا ثبوت دوں کہ اپنے وطن کا ہی دشمن ہو جاؤں ۔“ پروفیسر حیان نم آنکھوں کے ساتھ ہنس دیے ۔

 ”ارے دشمنی کیسی! چند کپڑوں اور کاغذوں کی ہی تو بات ہے ۔ ان دو ٹکے کے کپڑوں اور کاغذوں کی بقا کے لیے تم اپنی زبان سے پھر کر منافق ہو جاو گے!!“

   ”تم ان کو دو ٹکے کا کہتے ہو!“  پروفیسر حیان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ آواز جذبات کی شدت سے بھرا گئی

      ”کچھ بھی ہو  , تم دوستی میں ہر بات ماننے کا وعدہ کر چکے ہو اور تمہارا ہی کہنا ہے , مسلمان اپنے وعدے سے کبھی نہیں پھرتا ۔“

        پرفیسرحیان گڑبڑا گئے ۔کوئی جواب نہ سوجھا ۔

          ”دیکھو! 14 اگست کل ہے ۔ یہ جو تم نے چپکے چپکے کارنامہ سر انجام دیا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے کئی گھنٹے درکار ہیں ۔ اب اگر میں یہ کپڑے اور کاغذ جلانے کی کوشش بغیر سمجھے ہی کروں گا تو کچھ غلط کر بیٹھوں گا ۔ تم بس کل یہ کام کر دو ۔ اس میں میرا ساتھ دو گے تو اوپر سے بہت کچھ آئے گا ۔ ایک کروڑ تو ضرور ہی ہو گا ۔ اس میں سے پچاس لاکھ تمہارے ہوں گے ۔ “پروفیسر رام داس کہتا چلا گیا ۔

       ”اوکے “ پروفیسر حیان نے سپاٹ لہجے میں کہا اور اٹھ کر اپنے گھر کو چل دیے   ۔

         ”کب تک آؤ گے ؟“ رام داس نے پوچھا ۔

           ”کچھ دیر تک آتا ہوں ۔“

          ان کے جانے کے بعد پروفیسر رام داس نے ایک زوردار قہقہہ مارا ۔۔ ایک مکروہ قہقہہ

      ”ہاہاہاہا ۔ آزادی کا جشن منانے والو!  اس دفعہ ہم تمہیں نہیں , تمہاری علامت کو ماریں گے ۔ تمہاری آزادی ہم سے کبھی ہضم ہوئی ہے نہ ہوگی ۔۔۔۔ کیسا شیشے میں اتار لیا میں نے تمہیں پروفیسر حیان! وہ بھی تمہارے ہی اصولوں کے زور پہ ۔ ہاہاہاہا ۔“

                      پھر اس نےسامنے میز پہ رکھی اس عجیب و غریب چیز کو اٹھایا ۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                      وہ پریشانی کے عالم میں چلے جا رہے تھے ۔ کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ کیا کریں! پروفیسر رام داس سے دوستی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی اور اس سے بھی بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ اس کو اپنی حالیہ ایجاد کے متعلق بتا بیٹھے تھے ۔ اب وہ بضد تھا کہ وہ اس کے لیے کام کریں ۔

               پروفیسر رام داس پچھلے پانچ سال سے پاکستان میں مقیم تھا ۔ اس کا تعلق بھارت سے تھا ۔ پانچ سال پہلے وہ پاکستان آیا تھا ۔ اور یہاں آ کر اس نے سب سے پہلے پروفیسر حیان جیسے ذہین اور مایہ ناز سائینسدان سے دوستی گانٹھی تھی ۔

 پروفیسر حیان نے اسے عام دوستی سمجھ کر قبول کر لیا تھا ۔ مگر پھر ان پر پروفیسر رام داس کی مہربانیاں بڑھتی چلی گئیں ۔ بدلے میں وہ ان سے چھوٹی موٹی تحقیقات کروا رہا تھا مگر غضب تو کل ہوا جب وہ اس کو اپنی نئی ایجاد کے متعلق بتا بیٹھے ۔

      ”واہ بھئی! مگر یہ کام کیا کرتا ہے ؟“   پروفیسر رام داس اب اس حیران کن چیز کو دیکھ رہا تھا ۔

     ”اس کا سسٹم ذرا مشکل ہے ۔ تمہاری سمجھ میں جلدی نہیں آئے گا ۔ اس کے استعمال میں کافی تکنیک سے کام لینا پڑتا ہے اور کئی بٹن دبانا ہوتے ہیں مگر ان کی ترتیب ہر بار مختلف ہوتی ہے ۔ کام بس یہ ہے کہ اس کے اندر جس چیز کا عکس ڈال دیں وہ جل جاتی ہے ۔ “

       ”ہائیں ۔ وہ چیز بذات خود جل جاتی ہے  ؟“ رام داس حیران رہ گیا ۔

  ”جی ہاں! اس کی تصاویر اس کے کیمرے میں اتاری جاتی ہیں اور پھر اسکی تابناک شعاعیں  اسی وقت  پورے ملک میں پھیل جاتی ہیں ۔ جہاں جہاں وہ چیز موجود ہو , وہ جل جاتی ہے ۔ “

     پروفیسر حیان کو معلوم ہی نہیں تھا , وہ کتنی بڑی غلطی کر چکے ہیں ۔ کیونکہ اس سارے معاملے کو دیکھنے کے بعد پروفیسر رام داس کے دماغ میں بہت خطرناک منصوبہ تیار ہو رہا تھا ۔

     ” پرسوں 14 اگست ہے ۔ بس اس ملک کے جھنڈوں کا بیڑہ غرق کرواتا ہوں ۔ “ وہ سوچ رہا تھا ۔

         اور چند ثانیے کے بعد اس نے اپنا یہ منصوبہ پروفیسر حیان کے سامنے رکھا تو وہ اچھل ہی تو پڑے ۔

      ”نہیں نہیں ۔ “ انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے ۔”میں ایسا نہیں کروں گا ۔ “

   ”مجھے اس کا سسٹم سمجھنے میں  تین چار دن تو لازمی لگ جائیں گے ورنہ میں خود یہ کام کر لیتا “ پروفیسر رام داس ہاتھ مل رہا تھا ۔

     پروفیسر حیان کے جانے کے بعد اس نے اپنے ملک رابطہ کر کے باس کو ساری صورتحال بتائی تھی ۔

      ”اوو یس  !  بس تم اس کو مناؤ ۔ ہم منہ مانگی قیمت دیں گے “ باس کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی  ۔

            **********

       کل سے آج تک پروفیسر رام داس پروفیسر حیان کو منانے کے لیے سارے حربے اختیار کر چکا تھا مگر وہ رام ہو کے ہی نہیں دے رہے تھے ۔۔ مگر آخر مومن اور اس کے وعدے کی بات پر اس کا داؤ چل گیا اور وہ رضا مند ہو گئے ۔

         اب وہ پریشانی کے عالم میں چلے جا رہے تھے ۔ چلتے چلتے خیال آیا , اس غلطی سے قبل اللہ سے معافی تو مانگ لیں!

            وہ چلتے چلتے مسجد کے قریب پہنچ گئے ۔

                اندرداخل ہو کر انہوں نے وضو کیا اور سجدے میں گر گئے ۔ ” یا اللہ! میں مومن ہوں مگر نہایت مجبور ہو چکا ہوں ۔ جو غلطی میں کرنے جا رہا ہوں مجھے اس پہ معاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “

                  کہتے کہتےآواز بھرا گئی ۔ اس کی جگہ آنسو بولنے لگے ۔ سجدے سے سر اٹھایا تو ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح ان کے دل پہ گرا ۔ وہ زور سے اچھلے ۔

 **************

              پھر اس نے سامنے میز پہ رکھی اس عجیب و غریب چیز کو اٹھایا ۔ یہ دراصل ایک چھوٹا سا آلہ تھا جو پروفیسر حیان نے ایجاد کیا تھا  ۔ اس کا کام نہایت عجیب تھا ۔ اس آلے کی سامنے کی جانب ایک سکرین اور پچھلی جانب بہت سے بٹن تھے  اور کیمرہ بھی فٹ تھا ۔ ان بٹنوں کو دبانا ہوتا تھا اور پھر کیمرے  سے جس چیز  کی بھی تصویر لی جاتی وہ اس آلے میں محفوظ ہو جاتی ۔ اس کے بعد اس آلے میں کچھ کوڈ نمبر ملانا ہوتے تھے ۔ اس کے بعد دوبارہ چند بٹن دباۓ جاتے , جس کے بعد سکرین پر کچھ اشارے ملتے اور پھر ایک بٹن دبایا جاتا جس سے اس  آلے میں سے تابناک شعاعیں نکلتیں اور پورے ملک میں پھیل جاتیں ۔ آلے میں محفوظ تصویر کی اصل شکل ملک میں جہاں جہاں ہوتی وہ شعاعیں وہاں وہاں پہنچ کر اس کو جلا دیتیں ۔ یہ سارا کام کافی تکنیکی تھا اور پروفیسر رام داس ابھی اس کو سیکھ نہ پایا تھا ۔ خاص طور پہ کوڈ والا کام ابھی کافی مشکل لگ رہا تھا اور بٹن بھی ہر بار الگ ترتیب سے دبانا ہوتے . کوئی غلطی اس آلے کو استعمال کرنے والے کو بھی جلا سکتی تھی ۔ پروفیسر رام داس کو وقت کی کمی کے سبب یہی مناسب لگا کہ چودہ  اگست کو جھنڈوں اور جھنڈیوں کو جلانے کا کام پروفیسر حیان ہی سے لے لیا جائے۔ وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ باس کا نمبر دیکھ کر اس نے جھٹ کال اٹینڈ کی ۔

  ”سر وہ مان گیا ہے ۔ “

     ”ویری گڈ ۔ “

 ”سر میں چاہتا ہوں اس کو رقم پہلے ہی دے دی جائے ۔ بصورت دیگر وہ کوئی گڑ بڑ کر سکتا ہے ۔ “

      ”ہمممم ۔۔۔۔۔ کام ہو جائے گا  ناں ؟“

           ”وہ مان تو گیا ہے ۔ “

   ”تم بہت اچھے جا رہے ہو ۔ “

     ”سس سر وہ رقم!“

    ”ہاہاہا ۔۔۔۔۔ منہ میں پانی آ رہا ہے کیا! بھیجتا ہوں ۔ “

       ”تھینک یو سر!“

            رام داس نے کال کاٹ دی ۔

    کچھ دیر بعد پروفیسر حیان آ گئے ۔

     ”موبائل چیک کرو یار ۔ پیسے آ گئے ہوں گے ۔ “

    ”ہائیں!  اتنی جلدی!! “

       ”ہمارے کام کرو گے تو یونہی عیش کرو گے ۔“ پروفیسر رام داس مسکرایا ۔

     ”پرچم اور جھنڈیاں خرید لیں ؟“

    ” ہاں بھئی! بہت ۔۔۔۔۔۔۔ یہ رہیں ۔ بس ابھی ان کی تصاویر اتار لو ۔“

    ”دراصل تمہیں اس کا طریقہ کار ابھی معلوم نہیں ۔ تصاویر کارروائی سے چند منٹ پہلے اتارنا ہوتی ہیں ۔“ پروفیسر حیان نے بتایا ۔

      ”چلو پھر کل صبح آ کر ہی یہ کام کر لینا ۔“

       ”ہاں ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ اوہو! “ کہتے کہتے پروفیسر حیان چونکے ۔

    ”کیا ہوا؟“

    ”آلے کی بیٹری تو بالکل ڈاؤن ہو چکی ہے اور اس کی چارجنگ کا بھی خاص بٹن ہے جو میرے گھر میں ہی لگا ہے ۔ “

          ”تو جا کر چارج کر لو اور کل لے آنا “

      ”نہیں , چارجنگ پہ کئی گھنٹے لگتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کل دس بجے ہی یہ کام ہو جاۓ ۔ کیونکہ جشن آزادی کی زیادہ تر تقاریب صبح کے وقت ہی ہوتی ہیں ۔ “  پروفیسر حیان نے کہا ۔

   ”تو پھر اب کیا کرنا ہے  ؟ “ پروفیسر  رام داس نے پوچھا ۔

  ”کرنا کیا ہے ۔ کل جب تک چارجنگ فل ہو گی دس تو بج ہی جائیں گے ۔ پھر میں یہاں آؤں گا تو آدھ پون گھنٹہ اور نکل جاۓ گا ۔ بہتر ہے اپنے گھر ہی یہ کام کر لوں ۔      ”ہاں یہ ٹھیک ہے ۔ “

             پروفیسر رام داس نے کہا تو پروفیسر حیان نے آلہ ،پرچم اور جھنڈیاں اٹھائیں اور اپنے گھر کو

  چل دیے۔

  *******************

                                               چودہ اگست کو صبح دس بجے پروفیسر رام داس نے پروفیسر حیان کو کال کی ۔

               رسمی گفتگو کے بعد پروفیسر حیان نے بتایا کہ بس کام ہونے ہی والا ہے ۔

       ”گڈ ۔۔ مجھے تم سے یہی امید تھی ۔“

           پروفیسر رام داس نے فون بند کیا اور پھر لگا قہقہے لگانے ۔  اس کا جی چاہ رہا تھا , ناچنے لگ جاۓ  ۔ ”واہ بھئی! کیسا بیوقوف بنا لیا تمہیں ۔ اب مزہ آۓ گا جب کچھ دیر بعد پورے ملک میں ہلچل مچ جاۓ گی ۔ یہ سارے مسلے اس وقت صدمے اور حیرت سے سر ہی پکڑ لیں گے جب وہی پرچم ہی جل جاۓ گا جس کی طرف اشارے کر کے بڑے جوش سے ملی نغمے گا رہے ہیں ۔ ہاہاہاہا ۔۔۔ ہاہاہاہا ۔“

        اسے دلچسپی ہو رہی تھی کہ باہر نکل کر افراتفری کے مناظر دیکھے ۔ کہ اچانک پھر سے اس کے موبائل پہ بیل ہوئی ۔ نمبر اس کے باس کا تھا ۔ اس نے اٹینڈ کیا ۔

         ”یس باس! اب آۓ گا مزہ ۔ کام ہونے ہی والا ہے ۔ کچھ دیر میں ہی ملک بھر میں لہرانے والے پرچم اور جھنڈیاں جل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “  آواز اس کے حلق میں ہی اٹک گئی ۔

           *****************

              پروفیسر حیان نے آلے سے تصویر لی اور پھر بٹن دباۓ تو سکرین پہ اشارے ابھرنے لگے ۔ کچھ دیر ایسا ہوتا رہا اور پھر انہوں نے وعدہ نبھاتے ہوۓ نہایت سفاکی سے وہ خاص بٹن دبا دیا تھا ۔ وہ جانتے تھے , اب کام ہو چکا ہے ۔ مسکراتے ہوۓ انہوں نے اس تصویر کو دیکھا جس کی اصل شکل انہوں نے جلا دی تھی ۔ تصویر تاریک پڑ چکی تھی ۔

             ****************

                   آواز کی بجاۓ پروفیسر رام داس کے حلق سے ایک دلدوز چیخ برآمد ہوئی تھی کیونکہ اس کے پورے جسم میں یکدم کرنٹ دوڑنے لگا تھا اور وہ بری طرح تڑپنے لگا ۔ دو منٹ میں ہی وہ جہنم رسید ہو گیا ۔ کیونکہ پروفیسر حیان نے آلے سے تصویر پرچم اور جھنڈیوں کی نہیں بلکہ پروفیسر رام داس کی لی تھی اور جلایا پیارے سبز ہلالی پرچم کو نہیں بلکہ رام داس کو تھا ۔

       ”میرے پیارے اللہ! میں نے اپنے پیارے وطن کی حفاظت اور عزت کا وعدہ جو آپ سے کر رکھا ہے تو مومن ہوتے ہوۓ اسے کیسے توڑتا! “      کہتے کہتے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے مگر اب یہ آنسو خوشی کے تھے ۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact