علی فیصل
سمیر بیٹا! دن چڑھ آیا اٹھو کب تک سوتے رہو گے؟ گہری نیند میں امی کی آواز پر سمیر نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں اور بولا امی آج تو سنڈے ہے آج تو دیر تک سونے دیں۔بیٹا ساڑھے گیارہ بج چکے سمجھو آدھا دن گزر چکا۔اور اتنی دیر سے اٹھو گے تو سستی اور کاہلی بھی رہے گی اور رات کو نیند بھی دیر سے آئے گی اور پھر اگلے دن صبح اسکول کے لیئے اٹھنا بھی مشکل لگے گا۔۔۔یعنی آپ کا سارا “روٹین ” ہی خراب ہوجاتا ہے۔
ہونہہ کی آواز کے ساتھ ہی سمیر میاں آنکھیں ملتے بستر سے اٹھ بیٹھے اور سوچنے لگے کہ امی کی بات ہے تو درست لیکن کیا کریں دل یہی چاہتا ہے کہ چھٹی والے دن دیر تک سویا جائے۔حالانکہ یہ بھی حقیقت تھی کہ اور دنوں کی طرح چھٹی والے روز بھی آنکھ اپنے مقررہ وقت پر ہی کھلتی تھی لیکن یہی سوچ ہوتی ہے کہ چلو چھٹی کا دن ہے کچھ دیر اور سو لیں۔!
منہ ہاتھ دھوکر سمیر میاں جب برآمدے میں آئے تو دادا ابا کو آرام کرسی پر حسب معمول مطالعہ کرتے پایا۔
جون کا آخر تھا اور ڈیڑھ دو ماہ کی شدید گرمی کا زور اللہ اللہ کرکے ٹوٹا تھا۔اور اس وقت کالے بادلوں نے آسمان پر ڈیرے ڈال رکھے تھے۔آم کے پیڑوں پر کوئل کی کوک کی مدھر آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔
دادا جان السلام علیکم اور صبح بخیر کہتے ہوئے سمیر میاں تھوڑا اٹکے،کیونکہ اس وقت تو دوپہر ہوچکی تھی۔۔۔وعلیکم السلام “دوپہر بخیر” کہتے ہوئے دادا جان نے اپنےچشمے کوآنکھوں سے نیچےکر کےمسکراتے ہوئے جواب دیا اور سمیر کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔روزانہ اسکول جاتے ہوئے سمیر صاحب کا معمول تھا کہ دادا جان کو سلام اور صبح بخیر ضرور کہنا ہے اور دادا جان پیار کرکے اور سر پر ہاتھ پھیر کرانہیں اللہ نگہبان کہتے تھے۔
سمیر میاں بھی دوپہر بخیر سن کر مسکرادئیے۔
داداجان آپ ہر دن صبح سویرے اٹھ جاتے ہیں آپ کو کسی دن زیادہ دیر تک سونےکادل نہیں چاہتا۔؟
دادا جان سمیر کی بات پر دھیمے سےمسکرائے اور بولے بیٹا رات جلد سونا اورصبح جلد بیدار ہونا صحت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہمارے جسم میں ایک خودکار نظام بنایا ہے جسے ہم قدرت کی گھڑی بھی کہہ سکتے ہیں رات ایک مخصوص وقت پر ہم سب کو جو ایک نیند کا جھونکا سا محسوس ہوتا ہے وہ دراصل اسی قدرتی گھڑی کی وجہ سے ہوتا ہے۔اگر ہم اس وقت اس کو محسوس نا کریں اور جبرا” جاگتے رہیں تو یہ نظام کمزور پڑتا جاتا ہے ،اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے ہم وقت پر کھانا نا کھائیں تو ہماری بھوک اڑ جاتی ہے۔
اسی طرح یہی خود کار نظام قدرت ہمیں وقت مقرر اوسط چھ سات گھنٹوں بعد صبح جگاتا بھی ہے ۔۔۔لیکن اگر ہم اس پر توجہ نا دیں اور سستی کاہلی میں لیٹے رہیں تو یہ نظام آہستہ آہستہ اپنا کام کرنا بند کر دیتا ہے ۔دیر سے سونے اور صبح دیر سے اٹھنے والے اس” قدرتی گھڑی ” سے
یکسر محروم ہو جاتے ہیں۔!!
سمیر کے منہ سے بے اختیار نکلا واہ دادا جان آپ نے تو یہ بہت مفید اور معلوماتی بات بتائی۔ آئندہ میں کوشش کروں گا کہ چھٹی والے دن بھی جلد اٹھ جایا کروں۔
سمیر اور دادا جان کی دوستی بہت گہری اور بے تکلفانہ تھی۔۔۔!محمد سمیر علی آٹھویں جماعت کے ایک ہونہار طالب علم تھے اور ان کی دوستی گھر کے تمام افراد امی،بابا ،بہن اور بھائی کے مقابلے میں دادا جان سے زیادہ تھی۔ وہ ہر بات اور ہر سوال اپنے دادا جان سے ہی پوچھتے تھے۔
دادا جان کی عمر لگ بھگ 70/75 سال تھی لیکن اس عمر میں بھی وہ صحت مند اورچاق وچوبند تھے۔
صبح سویرے اٹھنا اور رات جلد سو جانا ان کے معمولات زندگی میں شامل تھا ۔اس عمر میں بھی چہرے پر سرخی وطمانیت تھی۔ اور یہ اس وجہ سے تھی کہ ان کےسونےجاگنے اور کھانے پینے کےمعمولات اور اوقات کار یکساں اور متوازن تھے۔
صبح فجر کی نماز کے بعد گھر کے سامنے پارک میں ہلکی پھلکی ورزش اور چہل قدمی بھی ان کا معمول تھا۔
دادا جان آپ کے بچپن میں “ویڈیو گیمز” تھے؟
اس سے پہلے کہ دادا جان سمیر کے سوال کا جواب دیتے بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے وہ چونک اٹھے۔آو سمیر باہر لان میں چلتے ہیں لگتا ہیں کہ آج بارش ہوگی موسم خوشگوار لگ رہا ہے۔لان میں خوشنما پھول کھلے تھے اور ان پر کچھ رنگ برنگی تتلیاں منڈلا رہی تھیں۔ سمیر میاں اور دادا اب لان میں جا کر بیٹھ گئے،سیاہ بادلوں ،دور سےکوئل کےکوکنے کی سریلی آواز بہت بھلی لگی۔ پھر ہلکی ہلکی بوندا باندی نے دن میں بھی شام کےجیسا سماں باندھ دیا تھا۔
دادا جان آپ نے سوال کاجواب نہیں دیا۔سمیر دادا جی سے لاڈ کرتے ہوئے بولا۔ آج آپ مجھے اپنے بچپن کی باتیں بتائیں۔
اچھابیٹا تو سنو! اسوقت آپ یہ نظارے دیکھ رہے ہیں، بس اسی طرح کے قدرتی مناظر، درخت،پھول،پودے ، تتلیاں،چندا کی چاندنی، سورج کی ڈوبتی کرنیں ہی ہماری دلچسپی کے سامان تھے۔ کہانی کی کتابیں پڑھنا اور انہیں احتیاط سے رکھنا، ٹکٹ اور پرانے سکے جمع کرنا اور لائبریری سے کتابیں لاکر پڑھنا یہ سب اسوقت کے مشترکہ مشاغل تھے۔یہ مشاغل تمھارے بابا کے بچپن اور کچھ لڑکپن تک بھی جاری رہے پھر تیز رفتاری کا زمانہ شروع ہوا اور آہستہ آہستہ یہ مشاغل کم ہوتے چلے گئے۔
آج کل کے مقابلے میں پہلےگھر کےصحن کی کیاریوں یا گملوں میں پھول، پودے اور روزمرہ استعمال کی سبزیاں لگانا اوراسے بطورمشغلہ اپنانا عام تھا۔گھر کے سب افراد صحتمند اور مفید سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اس کے یہ فائدے یہ تھےکہ گھر میں ہی بوقت ضرورت تازہ تازہ ٹماٹر، دھنیا، پودینہ اور دیگر سبزیاں بلامعاوضہ مل جاتیں، گملوں اور کیاریوں میں موجود رنگ برنگےخوشنما اور خوبصورت پھولوں کی بھینی بھینی مہک ہرطرف پھیل جاتی پھر جب ان پھولوں کا رس چوسنے کیلئے رنگ برنگ مختلف قسم کی تتلیاں منڈلاتیں تو نظارہ دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔آج نا ویسے پھول نظر آتے ہیں اور نا ہی وہ تتلیاں۔۔!! دادا جان ایک سرد آہ بھرتے ہوئے بولے۔ہمارے بچپن کے زمانے میں ناویڈیو گیمز تھے نا ایسے”گیجٹس” تھے بلکہ ہمارے بچپن میں ندی ،دریا پر جانا ،صبح کی سیر،درختوں پر چڑھنا ، ندی میں مچھلی کا شکار اور کشتی چلانا جیسے مشاغل عام تھے ۔ دادا جان! اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے بچپن کا زمانہ تو بہت مزے کا تھا۔ سمیر نے کچھ سوچتے ہوئے سوال کیا۔جی بیٹا آپ نےصحیح کہا۔اصل میں ہمارے بچپن اور پھر لڑکپن تک زندگی فطرت سے قریب اور سادہ تھی۔لباس ،کھانے پینے یہاں تک کہ روزمرہ کےاستمال کی چیزیں بھی عام اور سادہ ہوتی تھیں مثلا اس وقت برگر، پیزا، مفکروں اور نوڈلز قسم کی چیزیں نایاب تھیں۔ گھر میں کوئی ایک سبزی یا پھر دودھ میں روٹی ڈال کر سب خوشی خوشی کھا لیا کرتے تھے کوئی ضروری نا تھا کہ آج کل کی طرح بہت سی ڈشز ہوں۔اب تو گھر میں ہر ایک کی الگ پسند کا کھانا بنانے کا رواج بھی ہوتا جا رہا ہے۔ گھر کا کچن ہی دواخانہ ہوتا تھا ۔خواتین گھر میں موجود جڑی بوٹیوں سے ہی بچوں کا علاج کر لیا کرتی تھیں۔انہیں عام بیماریوں کے کئی نسخے یاد ہوتے تھے۔نزلہ، بخار ، کھانسی وغیرہ کا علاج با آسانی گھر پر ہی ہو جایا کرتا تھا۔یعنی کم خرچ بالا نشین۔۔۔!
یہ سب باتیں سمجھو تمھارے بابا جان تک بھی قائم تھیں پھر آہستہ آہستہ وقت اور حالات بدلتے گئے زندگی میں تعیشات بڑھتی گئیں اور مصنوعی چیزوں کا استعمال بڑھتا گیا۔ عام طور پر ریڈیو تفریح اور تربیت کا موثر ذریعہ تھے۔ٹی وی اور فریج بہت کم گھروں میں ہوتے تھے۔ فریج کی بجائےجالی لگے لکڑی کے نعمت خانے ہوا کرتے تھے جن میں کھانے کی اشیاء محفوظ کی جاتی تھیں۔ پانی پینے کیلئے مٹکےاور صراحی کا استعمال عام تھا۔مٹکے کے باہر مسامات( بہت باریک سوراخ) سے ہوا داخل ہو کر پانی کو قدرتی طور پر بالکل ٹھنڈا کر دیتی اور مٹی کی سوندھی خوشبو کے ساتھ پانی کو بہت مزیدار بنا دیتی تھی۔ آج سائنس کی جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ مٹی سے بنی چیز میں پانی پینا جسم کے لئے بہت مفید ہے اور آپ کو اس سے قدرتی طور پر “الکلائن ” مختلف وٹامن اور منرلز ملتے ہیں جو ہمارے نظام ہضم اور مجموعی جسمانی صحت کے لئے ازحد مفید ہیں ۔فریج میں موجود اشیاء اوراس میں رکھی پلاسٹک کی بوتل کا پانی مضر صحت اور کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کی وجہ فریج میں موجود گیسز کا ہونا ہے۔
دادا جان گلی میں ایک ریڑھے والے انکل مٹی کے برتن لے کر آتے ہیں میں ان سےایک مٹی کا کولر اور مٹی کے کٹورے خرید لوں گا۔سمیر خوشی سے چہکتے ہوئے بولا۔شاباش تم نے بالکل صحیح سوچا، ہمیں جس اچھی اور مفید بات کا علم ہو جائے اس پر فوری عمل کرنا چاہئے ۔دادا جان نے جواب دیا
پھر دادا جان گویا ہوئے : اسی طرح سفر کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ وہ بھی محدود تعداد میں چلتی تھیں گاڑیوں کی اتنی کثرت نا تھی اس وجہ سے روڈ خالی ہوتیں تھیں ۔ٹریفک کا رش بھی کم تھا اس کے نتیجے میں ہوا میں آلودگی اور کاربن کی مقدار بھی کم تھی جو کہ سانس اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔جگہ جگہ ہرے بھرے درخت تھے جو فضا میں تازہ آکسیجن مہیا کرنے کا سبب تھے اس وجہ سے لوگوں کو ناصرف تازہ آکسیجن ملتی تھی بلکہ درجہ حرارت بھی کم رہتا تھا اور گرمی کی شدت آجکل جیسی نا تھی۔دوبارہ شجر کاری مہم اسی لئے شروع کی جاتی ہے کہ ہم درختوں کی تعداد کو بڑھا کر اپنے ماحول کو صحت افزا ء بنا سکیں۔لوگ زیادہ تر پیدل چلا کرتے تھے ۔ایک دو میل پیدل چلنا عام سی بات تھی۔اب محلے کے کونے پر واقع دکان تک جانےکیلئے لوگ موٹر سائیکل اور گاڑی استعمال کرتے ہیں۔آپ کو تو اچھی طرح معلوم ہے کہ پیدل چلنا انسانی جسم کے لئے ناصرف مفید بلکہ بہت ضروری ہے۔ ہمارے جسم کے تمام اعضاء اور خاص طور پر ٹانگ کی ہڈیوں کی مضبوطی کیلئے پیدل چلنا ایک بہترین ورزش ہے۔جی دادا جان! سمیر نے سر ہلایا لیکن سائیکل چلانا بھی تو عمدہ ورزش ہے؟ سمیر نے بے ساختہ سوال کیا۔ بالکل سائیکلنگ کے اپنے فوائد ہیں اور پیدل چلنے کے اپنے۔آپ کھانا کھا کر پیدل چل سکتے ہیں لیکن کھانا کھا کر فورا” سائیکل چلانا معدے کے لئے مضر ہے۔یہ بات ہے تو کھانا کھا کر میں ہر گز سائیکل نہیں چلاوں گا ۔سمیر نے کچھ سوچتے ہوئے اثبات میں جواب دیا۔
اسی طرح لوگوں کا ملنا ملانا،دکھ درد میں ایک دوسرے کی خبر گیری، ہمدردی،کسی بھی مشکل صورتحال میں مشورہ لے لینا، ایک دوسرے کے گھر میں پکی ڈشز کا تبادلہ کرنا، بلا تکلف روزمرہ گھر میں استعمال ہونے والی اشیاء کا ایک دوسرے سے مانگ لینا۔۔۔اس طرح کی قربت اور تعلق بڑھانے والی عادات کسی بھی محلے میں رہنے والوں کے درمیان عام تھیں۔آج کل تو اس اکثر جگہ لوگوں کو اپنے محلے کے چند ہی گھروں کے مکینوں کی خیرخبر ہوتی ہے اور بڑے اور مہنگے رہائشی علاقوں کے مکین تو اپنے پڑوس کے لوگوں سے بھی بالکل لا تعلق اور انجان ہوتے ہیں۔!!
یہ بھی بہت اچھوتی اور تلخ حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہم سب کر رہے ہیں۔! واقعی دادا جان! آپ اکثر ایک لفظ نفسانفسی بولا کرتے ہیں۔جس کے معنی”خود غرضی” اور” اپنے مفاد کو عزیز رکھنا ہیں” ،میں نے اس کے معنی اردو کی کاپی میں لکھے تھے سمیر سر کھجاتے ہوئے بولا۔ بالکل اور آج کل ہم کچھ اسی قسم کے حالات سے گزر رہے ہیں۔ دادا جان نے ایک سرد آہ بھری۔
دادا جان ! اس بڑھتی ہوئی نفسانفسی کی کیا وجہ ہے ؟یوں تو یہ سوال بہت اہم،پیچیدہ اور بحث طلب ہے لیکن سمجھنے کے لئےسادہ طور پر آپ یہ سمجھ لیں کہ جس معاشرے میں معاشی زرائع محدود ہو جائیں تو مہنگائی اور بیروزگاری بڑھتی ہے جس کے نتیجے میں جرائم بھی بڑھ جاتے ہیں اور بالآخر معاشرے میں افراتفری اور نفسانفسی پروان چڑھتی ہےاور زیادہ ترلوگ ان حالات صرف اپنے اور اپنے اہل خانہ کے مفادات تک محدود ہو جاتے ہیں یعنی خودغرضی کا چلن عام ہو جاتا ہے۔ آج کے دور میں ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
جی دادا جان آپ نے بالکل درست تجزیہ کیا ہے بالکل ایسا ہی ہے۔
ہمارے بچپن میں کرکٹ،ہاکی، فٹبال وغیرہ ہی کھیلے جاتے تھے۔ آج بچے یہی “آوٹ ڈور” کھیل گھر میں ٹیلی ویژن اسکرین پر کھیلتے ہیں ان سے ان کی کوئی جسمانی ورزش ہونا ممکن نہیں ۔ سمیر بیٹا آپ ہی بتا رہے تھے کہ کچھ ایسے کھیل بھی آگئے ہیں جن میں طرح طرح کی مجرمانہ مشن، قتل وغارت گری اور قابل اعتراض مناظر دکھائے جاتے ہیں جوناصرف بچوں کےذہنی وجسمانی نشوونما بلکہ ان کےاخلاق وکردار پر بھی بہت منفی وبرے اثرات ڈال رہے ہیں۔!
جی داداجان! آپ نے بالکل درست فرمایا میں ایک دن اپنے دوست کے گھر گیا تھا تو اس نے “پلے اسٹور” پر ایک ایسا ہی “گیم” لگایا ہواتھا اور اس میں لوگوں کو مارنے اور آگ کے منظر تھے۔مجھے تو بالکل اچھا نہیں لگا اور میں دوست کے گھر سے اسی وقت واپس آگیا تھا۔۔!
بالکل سمیر میاں! آپ نے بہت اچھا کیا ۔ان کھیلوں کے اثرات معصوم کچے ذہنوں پر جلد ہوتے ہیں اور اس عمر میں جو عادات اور طریقے اپنا لئے جائیں تا زندگی قائم رہتے ہیں۔کوئی بھی غلط عادت ابتداء میں ایک چھوٹی کانٹے دارجھاڑی کی طرح ہوتی ہےجسے شروع میں ختم کردینا ہی بہتر ہے۔اگر یہ ایک تن آور درخت بن گئی تو اسے اکھاڑ پھینکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ مثال سب کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔
جی دادا جان ! آپ نے یہ بہت اچھی مثال دی مجھے یہ نصیحت ہمیشہ یاد رہے گی سمیر نے جوشیلی آواز میں کہا۔شاباش میرے پیارے بیٹے، دادا جان مسکراتے ہوئے بولے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے یہاں ایسے “مجرمانہ مشن” والے کھیلوں پر پابندی لگا دی جائے۔!!
شام اب گہری ہو چلی تھی۔سیاہ بادلوں کی ٹولیاں آسمان پر پرواز کر رہی تھیں۔اچانک بادلوں کے گرجنے کی آواز آئی اور پھر موٹی موٹی بوندیں ہوا کے تیز جھونکوں کے ساتھ زمین پر گرنے لگیں۔چلو بیٹا اندر چلیں لگتا ہے گرج چمک کے ساتھ برسات آیا ہی چاہتی ہے۔اور پھر چشم زدن میں موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔
اتنی دیر میں “دونوں دوست” کچھ بھیگ چکے تھا لیکن اچھا یہ ہوا کہ حبس شدہ گرمی کا زور ٹوٹ چکا تھا۔!
گھر میں داخل ہوتے ہی پکوڑوں کی خوشبو دونوں کے نتھنوں میں سما گئی اور پھر رامین صاحبہ (سمیر کی بہن) گرم گرم پکوڑوں کی پلیٹ لئے آتی نظر آئیں۔السلام وعلیکم! داداجان ۔جیتی رہو بیٹی ۔دادا جان نے رامین کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
اس وقت کوئی اور دعا مانگتے تو قبول ہو جاتی ۔ہم دونوں کی نگاہیں ان پکوڑوں کو ہی تلاش کر رہی تھیں۔سلامت رہو بیٹی۔داداجان نے رامین کو دعا دیتے ہوئے کہا۔
دادا جان آج آپ کےبچپن کی باتیں سن کر یوں محسوس ہوا کہ ہم لوگ آہستہ آہستہ فطری اور سادہ زندگی سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ہمیں چاہئے کہ ہم پھر سے ان عمدہ فطری اصولوں اور صحت مندطرز زندگی کی
طرف لوٹنے کی کوشش کریں کہ وہ راہنما اصول ہمارے اور معاشرے دونوں کے لئے بہت مفید اور اہم ہیں۔
بالکل بیٹا! آپ نے بالکل درست کہا ان باتوں پر عمل کرنا ہم سب کیلئے بہت مفید اور کارآمد ہوگا۔فطرت سے دوری میں انسان کی تباہی اور اس سے قربت میں انسان کی فلاح اور کامیابی کا راز ہے۔
یہ سب باتیں ہمارے دین اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔آمین