گھنے جنگل کے بیچوں بیچ ایک شفاف نہر بہتی تھی۔ اس نہر کے کنارے دو پرانے درخت کھڑے تھے۔ایک لمبا سیدھا اور گھنے پتوں والا جبکہ دوسرا کچھ چھوٹا مگر مضبوط جڑوں والا۔ دونوں درخت برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھی تھے۔ دن بھر سورج کی کرنیں ان کے پتوں پر جھلملاتیں اور رات کو چاندنی ان کے تنوں پر خاموشی سے اترتی تھی۔
ایک دن آسمان پر کالے بادل چھا گئے۔ ہوا میں نمی اور خوف کی لہر دوڑ گئی۔ جنگل کے جانور اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔ تھوڑی دیر میں موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ بجلی کڑکنے لگی اور تیز ہوائیں درختوں کو جھنجھوڑنے لگیں۔
اسی دوران ایک ننھی سی چڑیا بارش میں بھیگتی ہوئی ادھر اُدھر پناہ ڈھونڈنے لگی۔ جب وہ تھک گئی تو وہ دونوں درختوں کے قریب پہنچی۔ اس نے پہلے بڑے اور گھنے درخت سے کہا،
“درخت بھائی! مجھے پناہ دے دو، میں بہت بھیگ گئی ہوں۔ میرے پر کانپ رہے ہیں، کہیں بارش سے مر نہ جاؤں۔”
بڑے درخت نے غرور سے اپنی شاخیں ہلائیں اور کہا،
“دور ہٹ جا چھوٹی سی چڑیا! میرے پاس پہلے ہی بہت بوجھ ہے۔ میرے پتّے اور شاخیں پانی سے بھاری ہو چکی ہیں۔ میں تیرے وزن کو برداشت نہیں کر سکتا۔ کوئی اور جگہ ڈھونڈ لے۔”
چڑیا کی آنکھوں میں مایوسی اتر آئی۔ وہ اڑتی ہوئی دوسرے درخت کے پاس گئی۔
“درخت بھائی، مجھے پناہ دے دو۔ میں تھک گئی ہوں اور بارش بہت تیز ہے۔”
دوسرے درخت نے مسکراتے ہوئے کہا،
“آجا پیاری چڑیا، میرے پتوں کے نیچے بیٹھ جا۔ جتنی بارش ہو، ہم ساتھ سہہ لیں گے۔”
چڑیا شکر گزار دل سے درخت کی ایک شاخ پر جا بیٹھی۔ درخت نے اپنے پتے تھوڑے نیچے جھکا لیے تاکہ بارش کے قطرے اس پر کم گریں۔ چڑیا کو سکون محسوس ہوا اور وہ آنکھیں بند کرکے سو گئی۔
بارش اور تیز ہونے لگی۔ بجلی چمکنے لگی، گرج کی آواز جنگل میں گونج اٹھی۔ بڑا درخت، جو غرور میں چڑیا کو بھگا چکا تھا، اپنی کمزور جڑوں کے باعث ہلنے لگا۔ اس کے تنے میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ کچھ ہی دیر میں ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ وہ زمین پر گر گیا۔ نہر کا بہاؤ تیز تھا، لہٰذا وہ درخت جڑوں سمیت بہہ گیا۔
دوسری طرف چھوٹے درخت کی جڑیں مضبوط تھیں۔ اس نے چڑیا کے ساتھ بارش برداشت کی، لیکن اپنی جگہ قائم رہا۔ جب صبح سورج نکلا تو جنگل تازہ ہوا سے مہک اٹھا۔ چڑیا نے اپنے پر پھیلائے، آسمان کی طرف دیکھا اور خوشی سے چہکنے لگی۔
“شکریہ درخت بھائی! اگر تم مجھے پناہ نہ دیتے تو شاید میں بچ نہ پاتی۔”
درخت نے مسکرا کر جواب دیا،
“شکر میرا نہیں، اُس ربّ کا کرو جس نے ہمیں ایک دوسرے کی مدد کا وسیلہ بنایا۔ جو دوسروں کو سہارا دیتا ہے، قدرت اُسے بھی مضبوط بناتی ہے۔
دور بہتے پانی میں اب صرف بڑے درخت کے ٹکڑے تیر رہے تھے ۔ وہ درخت جو اپنے غرور میں تنہا رہ گیا اور اپنی کمزوری سے مٹ گیا۔
سبق:
غرور انسان کو کمزور کر دیتا ہے، جبکہ دوسروں کی مدد اور نرمی دل کو مضبوط بناتی ہے۔ قدرت ہمیشہ اُن کا ساتھ دیتی ہے جو دوسروں کے لیے سایہ بننا جانتے ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.