کہانی: میری جنت
احمر ایک خوبصورت مگر بگڑا ہوا لڑکا تھا۔ والد صاحب ایک سرکاری آفس میں ملازم تھے اور چھوٹی بہن سارہ نویں جماعت کی ذہین طالبہ تھی۔ احمر نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔اب چھٹیاں تھیں اور وہ کالج میں داخلے کا انتظار کر رہا تھا۔
احمر کبھی وقت پر گھر نہیں آتا۔ کبھی ماں کے پکائے کھانے پر ناک بھوں چڑھاتا۔ دوستوں کے ساتھ گھومنا، مہنگے برانڈز پہننا اور بے مقصد راتوں کو جاگنا، یہی اس کی زندگی کا معمول بن چکا تھا۔
ماں اکثر پیار سے سمجھاتیں، بیٹا!” زندگی یوں ضائع مت کرو، وقت بہت قیمتی ہے۔”
احمر طنزیہ لہجے میں کہتا، “امی، آپ ہر وقت نصیحتیں ہی کرتی رہتی ہیں ۔مجھے اپنی زندگی جینے دیجیے نا!
والد صاحب خاموشی سے سنتے رہتے۔ کبھی غصہ آتا تو بس یہی کہتے، “احمر! ہم نے تمہیں آزادی دی ہے، مگر تم اس کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہو۔ تم اب اس عمر میں نہیں کہ تمہیں ہر وقت سمجھایا، مارا یا ڈانٹا جائے۔تم اب سمجھدار ہو، تمہیں اپنے مستقبل کی خود فکر ہونا چاہیئے۔یہ وقت نکل گیا تو پھر لوٹ کر نا آئے گا۔!!
سارہ چھپ کر یہ سب دیکھتی اور ماں کے کندھے پر سر رکھ کر کہتی،” امی! بھائی پہلے جیسے کیوں نہیں رہے؟”
ماں بس ایک سرد آہ بھر کر کہتیں اللہ اسے ہدایت دے بیٹی،ماں کی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
ایک دن احمر کے دوستوں نے اسے شہر کے ایک پوش علاقے میں موٹر بائیک ریس میں شامل ہونے کا کہا۔ وہ جوش میں آ گیا۔ والد نے سختی سے منع کیا، احمر! یہ کھیل نہیں، اپنی جان سے کھیلنا ہے۔” مگر وہ ہنس کر بولا، “ابو! آپ لوگ زمانے سے پیچھے رہ گئے ہیں، یہ بس ایک ریس ہے، کوئی جنگ نہیں!”
ماں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، “بیٹا، میرے دل کو کچھ برا سا احساس ہو رہا ہے، مت جاؤ۔”
احمر نے سننے کی زحمت تک نہ کی، ہیلمٹ اٹھایا اور زور سے دروازہ بند کر کے چلا گیا۔
رات اندھیری تھی، سڑکوں پر نوجوانوں کا شور اور موٹر سائیکلوں کی گرجتی ہوئی آوازیں تھیں ۔ اس لمحے احمر کا دل فخر سے بھرا ہوا تھا۔ ریس شروع ہوئی، وہ سب سے آگے تھا۔ مگر ایک موڑ پر تیز رفتاری کے باعث اس کی بائیک پھسل گئی۔ زوردار آواز کے ساتھ وہ سڑک پر جا گرا۔ بائیک ایک طرف، اور وہ دوسری طرف جا کر گرتے ہی بے ہوش ہو گیا ۔ باقی سب دوست خوف سے بھاگ گئے۔
جب آنکھ کھلی تو وہ اسپتال کے بستر پر تھا۔ جسم پر پٹیاں، ہاتھ میں ڈرِپ اور سانس میں تکلیف تھی۔ سامنے ماں بیٹھیں تھیں۔آنکھوں میں آنسو، ہونٹوں پر دعا۔ والد صاحب خاموش مگر غمگین، سارہ ایک کونے میں چپ چاپ رو رہی تھی۔
احمر کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ کمزور آواز میں بولا، “امی، میں غلط تھا… مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ سب کا دل دکھایا۔”
ماں نے لرزتی آواز میں کہا، “بیٹا، ماں تو کبھی ناراض نہیں ہوتی۔ شکر ہے کہ تم زندہ ہو۔ اللہ نے تمہیں دوسرا موقع دیا ہے، اسے ضائع نہ کرنا۔”
کچھ دنوں میں وہ صحتیاب ہو گیا، مگر دل کے اندر ایک نیا احساس جاگ چکا تھا۔ اب وہ خاموش رہنے لگا، زیادہ وقت ماں کے پاس بیٹھتا۔ ایک دن ماں نے دیکھا، احمر نماز پڑھ رہا تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، زبان سے توبہ کے الفاظ نکل رہے تھے۔ والد صاحب نے فخر سے کہا، “میرا بیٹا واپس آ گیا ہے۔”
سارہ نے خوشی سے بھائی کو گلے لگا لیا، “بھائی، اب تو میں آپ پر فخر کر سکتی ہوں نا؟”
احمر مسکرا کر بولا، “ہاں سارہ، اب تمہارا بھائی واقعی بدل گیا ہے۔”
احمر نے بگڑے ہوئے دوستوں کا ساتھ چھوڑ دیا، تعلیم پر دھیان دیا، اور ماں کے ہر حکم کو سر آنکھوں پر رکھا۔ اب وہ روز صبح والد کو آفس کیلئے موٹر سائیکل پر تھوڑے فاصلے پر بس اسٹاپ تک چھوڑنے جاتا اور سارہ کے لیے اسکول کا بیگ سنبھالتا۔ ماں اکثر شکر ادا کرتیں، “یا اللہ! تُو کتنا رحم کرنے والا ہے، میری دعائیں قبول ہو گئیں۔”
وقت گزرتا گیا، احمر نے ڈگری مکمل کی اور ایک معزز نوکری حاصل کر لی۔ اب وہ ماں باپ کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا تھا۔ اکثر شام کو وہ چائے کا کپ لے کر ماں کے قدموں میں بیٹھتا، کہتا،
“امی، جب میں گرا تھا تو سب بھاگ گئے، مگر آپ وہاں تھیں۔ آج میں جان گیا ہوں جنت واقعی ماں کے قدموں تلے ہے۔”آپ ہی میری جنت ہیں۔”
ماں مسکرا کر بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھتیں، “بیٹا، ماں کی دعا ہی اولاد کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔”
ایک دن سارہ بولی، “امی! آپ جانتی ہیں، اب جب بھی احمر بھائی دفتر سے آتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کے قدم چھوتے ہیں”۔
ماں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، “ہاں بیٹی، کیونکہ اب اسے اصل جنت کا راستہ مل گیا ہے۔”
سبق:
زندگی میں دولت، شہرت، اور آزادی سب فانی ہیں۔ مگر ماں باپ کی رضا ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ جو اپنے والدین کو خوش رکھتا ہے، اس کے لیے دنیا بھی آسان ہوتی ہے اور آخرت بھی روشن۔ کیونکہ جنت واقعی ماں کے قدموں تلے ہے۔!
(علی فیصل )
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.