قسمت کی ماری ایک دوشیزہ کی سچی داستان
قلم کار نگہت فرمان
کے قلم سے
علینہ کی پیدائش پر گھر پر جشن کا سماں تو نہ تھا لیکن کسی نے بہت بھنویں بھی نہ چڑھائیں ۔وہ گھر کی پہلی اولاد تھی مناسب سی شکل و صورت کی سب کی خواہش تھی کہ اولاد نرینہ ہو لیکن اس پر اختیار کسی کا نہیں تھا ۔پھر تین سال بعد سمیعہ آئی تو گویا ابا جان کی لاٹریاں نکل آئی ہوں۔ ایک نہیں اکٹھے تین ٹینڈر جو گزشتہ کئی ماہ سے تعطل کا شکار تھے، منظور ہوئے۔ ابا کہ تو قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔سمیعہ تو تھی بھی خوب صورت حسن کا پیکر۔ سب کی توجہ کا مرکز سمیعہ بن گئی ابا۔ نے تو اسے اپنے لیے بڑا ہی بھاگوان مان لیا۔ اس کی شکل ہی نہیں عادات بھی سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیتیں ۔ابا میاں جب گھر میں ہوتے تو سمیعہ کے یکے بعد دیگرے آنے والے بہن بھائی بھی سمیعہ کا مقام کم نہیں کرسکے۔ علینہ کم گو اور الگ الگ رہنے والی اور بچپن ہی سے ذمہ دار سی ہوگئی تھی۔ اماں پے در پے بچوں کی پیدائش کے سبب کچھ بیمار و چڑچڑی ہوگئیں تھیں ۔غصہ میں علینہ کے چھوٹے بہن بھائی روئی کی طرح رھنک دیے جاتے ۔بعض اوقات بلا سبب علینہ بھی اماں کے عتاب کا شکار ہوتی۔ ان سب باتوں نے علینہ کی حساس طبیعت پر گہرا اثر ڈالا ۔وہ خود ہی بہن بھائیوں کو سمیٹ کر ان کا خیال رکھنے لگی۔ بچپن اس کا ذمہ داریوں کی نذر ہوگیا جب کہ تین سال چھوٹی سمیعہ لاابالی تھی اور اپنا بچپن خوب انجوائے کررہی تھی۔ ابا یہ دیکھتے تو لیکن ان کا خیال تھا کہ یہ اچھا ہی ہے۔ بڑی بہن پیدائشی “بڑی آپا” ہی ہونا چاہیے ۔کبھی گھر میں کچھ خاص آتا تو بڑا ہونے کے باوجود علینہ کو سب سے آخر میں حصہ ملتا اور سب سے بہترین حصہ سمیعہ کو ملتا ۔
یہ بات اسے بڑی حیرت و کرب میں مبتلا کرتی وہ صرف سوچتی رہ جاتی کہ میں بڑی ہوں یا وہ ؟ فرض نبھانے کے لیے میں اور حق وصولی کے لیے وہ۔ اس حساسیت نے اسے زندگی کی رنگینیوں سے دور اور ہر ایک سے نالاں کردیا ۔۔قسمت کی ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ اماں گرگئیں شدید چوٹوں کے سبب بستر سےزیادہ اٹھ نہیں سکتیں چل پھر نہیں سکتیں ۔اس نے چھوٹے بہن بھائیوں کی جو آدھی ذمہ داری اٹھا رکھی تھی وہ مکمل اس کے ناتواں کندھوں پر آگئی ۔یوں انٹر ہی میں اسے اپنی تعلیم کو خیر باد کہنا پڑا ۔اور وہ سولہ سترہ سال کی عمر میں سات بہن بھائیوں کی ماں کا کردار ادا کرنے لگی۔ اسکول بھیجنا ، لنچ بنانا ، روٹی، کھانا ہر ذمہ داری گویا اسے ہی ادا کرنا تھی ۔وہ سارا دن مشین بنے چپ چاپ جتی رہتی ۔چولہے کی تپش نے چہرے و ہاتھ کی جلد جھلسا دی لیکن کسی کو اس بات کی زیادہ فکر نہیں ہوئ۔ی چھ سات ماہ بعد اماں ٹھیک ہوگئیں ۔اس نے سوچا اب تو اپنی پڑھائی شروع کرسکتی ہوں۔ اماں سے پوچھا لیکن اجازت نہیں ملی کہ اماں کو تو عادت نہیں رہی ،نہ ان کی طبیعت ابھی مکمل صحیح ہے اور وہ طبیعت کبھی مکمل صحیح ہوئی ہی نہیں، اس لیے علینہ جو میٹرک میں پوزیشن ہولڈر تھی انٹر بھی نہیں کرسکی ۔
ذمہ داریوں کی ادائیگی اور زندگی کے تکلیف دہ حالات نے اس کے چہرے پر لڑکیوں والی رونق و روپ تو آنے نہیں دیے اور سمعیہ جو حسین تو تھی بے فکری و لوگوں کی توجہ نے روپ کو چار چاند لگائے۔اب رشتے کے لیے دیکھنے آنے والے علینہ کے مقابل سمیعہ کو نا پسند کرتے۔ یہ تو ممکن نہیں تھا یوں شادی بھی پہلے سمیعہ کی ہوگئی ۔اس بات نے علینہ کو اور حساس و اداس کردیا ۔ہر آنے جانے والے کی نگاہ میں علینہ کے لیے ترس و ہمدردی ہوتی جو اسے برداشت نہیں ہوتی ۔وہ سوچتی کہ ایسا کیا ہے جو اس کے ساتھ یہ ہورہا ہے۔ خدمت گزار، ذہین، سب کا خیال رکھنے والی لیکن اسے لگتا کہ کوئی اس سے سچی محبت نہیں کرتا۔اس تکلیف دہ سوچ نے اسے مکمل تنہا کردیا ۔بہن بھائی اس کا دکھ سمجھتے لیکن سمیعہ اور اماں ابا میاں جانے کس دنیا کے باسی تھے کہ انہیں علینہ کی نہ اداسی ستاتی نا اس کے اندر ہونے والی تبدیلیاں انھیں فکر مند کرتیں ۔وقت کے ساتھ یہ منفی سوچیں اتنی پروان چڑھیں کہ وہ دل جو محبت و ہمدردی سے بھرا ہوا تھا ،جس میں بس خیال و احساس تھا اس میں اب ناراضگی خفگی اور بے زاری تھی۔ رفتہ رفتہ وہ انہی احساسات میں ڈوبی ڈپریشن کی مریضہ بن گئی ۔وہ کسی کو ہنستا دیکھتی تو اسے لگتا کہ اس پر ہنس رہے ہیں کوئی اس کی جانب ایسے ہی دیکھ لیتا تو اس کا جی چاہتا کہ وہ اس کی آنکھیں نوچ لے ۔لیکن گھر والے اب بھی اس کی کیفیت نہیں سمجھ رہے تھے یا شاید سمجھ کر انجان بنے ہوئے تھے۔ اس کے بہن بھائی بھی کب تک اس کا ساتھ دیتے ۔جب ماں باپ نے ہی اس سے یہ ناروا سلوک کیا تو کسی اور سے کیا شکوہ کرنا تھا ۔کوئی دوست کوئی رفیق و غم گسار نہیں جس سے وہ اپنے حال کہہ سکتی ۔اس کی صرف ذہنی نہیں جسمانی صحت بھی خراب ہورہی تھی لیکن ہر کسی کو یہی گمان گزرتا کہ سمیعہ کی خوشیاں اس سے برداشت نہیں ہورہیں۔ سمیعہ کی موجودگی میں وہ واقعی انتہائی مشتعل رہتی ۔اس کے بچے جن کی وہ خالہ تھی ان سے بھی لیے دیے رہتی لیکن اس کا سبب نفرت نہیں وہ احساس محرومی تھا جس کا وہ پیدائش کے وقت سے شکار رہی تھی اور یہی احساس اسے گھن کی طرح ختم کررہا تھا ۔
پھر ایک دن جب سمیعہ اپنے شوہر و بچوں کے ساتھ باہر کا ٹور کرکے تحائف سے لدی پھندی واپس آئی تو گھر میں سب کی توجہ کا مرکز سمیعہ تھی اور علینہ ایک کباڑ کی طرح گھر کے کونے میں تھی لیکن کسی نے کھانے کی میز پر بھی اس کی کمی محسوس نہیں کی ۔اس کھانے کی دعوت پر جس میں سے تین ڈشیں امی نے کہہ کر اس سے پکوائیں دل تو اس کا چاہا تھا کہ وہ ان میں زہر ملادے لیکن اس کے لیے ہمت چاہیے تھی اور وہ اتنی باہمت نہیں تھی کھانے میں زہر تو نہیں ملایا لیکن اپنی جان اسی دن لے لی۔
نیند کی گولیاں جو وہ کئی عرصہ سے استعمال کررہی تھی جس سے سب لاعلم تھے اس نے یک مشت کھا کر ظالم دنیا سے کنارہ کرلیا تھا ۔اس کے ہاتھ میں ایک پرچہ تھی جس میں درج جملہ ہر اس والدین کے لیے سبق آموز تھا جو اپنی اولاد میں فرق کرتے اور ان پیار بھرے رشتوں میں نفرتیں پروان چڑھانے کا سبب بنتے ہیں
۔جانے کس کرب و اذیت سے لکھا گیا تھا
“میں نے اپنا خون اپنے والدین کو معاف کیا جنہوں نے مجھے نہ بچپن جینے دیا نہ لڑکپن اور نہ ہی جوانی “۔