کچھ عمر کے موڑ ایسے ہوتے ہیں جن کا اعلان نہ کوئی کیلنڈر کرتا ہے، نہ سالگرہ کا کیک۔ بس ایک دن آپ خود کو بدلتا ہوا محسوس کرتے ہیں — اور تب سمجھ آتا ہے کہ اب بچپنا پیچھے رہ گیا ہے۔
یہ “خاص عمر” ہر کسی کے لیے مختلف وقت پر آتی ہے۔ کوئی بیس میں ہی تھک جاتا ہے، کوئی چالیس تک بھی ٹھیک ٹھاک محسوس کرتا ہے۔ مگر ایک دن ایسا آتا ہے جب زندگی کا بوجھ، خوابوں سے زیادہ وزنی لگنے لگتا ہے۔ تب انسان خود سے نظریں چرا کر آئینہ دیکھتا ہے — اور چونک جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے، ایک وقت تھا جب زندگی صرف خوابوں کے پیچھے بھاگنے کا نام تھی۔ دن رات یہی لگن رہتی تھی کہ کچھ بڑا کرنا ہے، کچھ خاص بننا ہے۔ لیکن پھر ایک دن یونہی آئینے میں نظر پڑی — چہرے پر ایک عجیب سی تھکن، آنکھوں میں وہ چمک نہیں رہی تھی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔
تب پہلی بار محسوس ہوا کہ صرف خواب کافی نہیں ہوتے، کبھی کبھی وقت کا گزرجانا بھی انسان کو خاموش کر دیتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب اندر سے آواز آئی: “کیا واقعی زندگی ایسے ہی گزر جانی ہے؟”
یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب فیض کا وہ مصرع دل پر اثر کرتا ہے:
“اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا”
ہم جو کبھی محبت کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے، اچانک باقی سب دکھ زیادہ گہرے لگنے لگتے ہیں۔
کہیں کسی کا کیرئیر رُک گیا، کہیں کسی کو جاب نہیں ملی۔ کوئی ملک چھوڑ کر جانا چاہتا ہے تو کسی کا دل بچھڑنے کے غم میں روتا ہے۔
کہیں شادی نہیں ہو رہی، اور کہیں شادی ہو کر بھی دل نہیں ملتے۔
کوئی اولاد کا منتظر ہے، اور کوئی اولاد کے رویے سے دلگیر۔
ایسا نہیں کہ یہ سارے دکھ اچانک زمین پر اتر آتے ہیں، یہ تو پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ بس آپ کی نظر انہیں اُس وقت تک دیکھ نہیں پاتی، جب تک آپ خود اس “خاص عمر” میں داخل نہ ہو جائیں۔
تب لگتا ہے جیسے ساری ذمہ داریاں ایک ساتھ آپ کے کندھوں پر آگری ہوں۔
آپ بچپن کی معصومیت، نوجوانی کے خواب، اور جوانی کی تیزی — سب کچھ پیچھے چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔
اب نہ واپسی کا راستہ ہوتا ہے، نہ رُکنے کی گنجائش۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی ایک بھول بھلیاں ہو، جہاں ہر موڑ پر نیا سوال کھڑا ہو جاتا ہے اور جواب کہیں نہیں ملتا۔
مگر..
یاد رکھیے، آپ اکیلے نہیں ہیں۔
یہ عمر، یہ احساس، یہ الجھنیں — ہم سب کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ اور جب کوئی آپ کو سمجھے بغیر بھی “سمجھ جائے”، تو یہی وہ سکون ہے جو سب سے قیمتی ہوتا ہے۔
سو، اگر آپ بھی اس “خاص عمر” میں داخل ہو چکے ہیں، تو خود کو الزام نہ دیں۔ بس سانس لیجیے، خود کو تھپکی دیجیے، اور یاد رکھیے کہ چلتے رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.