کہیں بھی آنے جانے سے خائف،بالآخر بائیس اپریل کو ہم تقریبا چاربجے اپنے دو عدد بچوں کے ہمراہ نمل کتب میلے میں جا پہنچے۔
میلے میں خاصی گہما گہمی تھی۔چونکہ گیٹ نمبر تین سے ورود ہوا تھا تو پریس فار پیس کے اسٹال تک پہنچتے پہنچتے ایک آدھ منٹ اضافی لگ گیا۔
سامنے ہی احمد حاطب صدیقی صاحب براجمان نظر آئے تو خود بخود قدم اس جانب اٹھ گئے۔رباب صاحبہ چونکہ کامنی سی ہیں اور ان کے سامنے کوئی اور حضرت کھڑے تھے جس کی بنا پر وہ ہمیں دکھائی نہ دے پائیں۔ہم نے حاطب صاحب کو بصداحترام سلام کیا،اور ماورا کی جانب بڑھا چاہتے ہی تھے کہ رباب صاحبہ پر بھی نظر گئی۔انھیں بھی سلام کیالیکن شاید نقاب اوڑھے ہونے کے باعث ان تک ہماری آواز نہیں پہنچ پائی۔ جس کا ادراک ہمیں تب ہوا جب انھوں نے ہم پر اپنی پیار بھری سرزنش سے نوازا۔
ماوراء زیب اس دوران کہیں اور چل دیں۔ارشد ابرار ارش اور مسلم انصاری ایک دوسرے کے سنگ آئے اور سب کو دنگ چھوڑ کر چل دیے۔
بہت ہی پیاری اور عمدہ شخصیت حفص نانی کتب بینوں کے ساتھ خاصی مصروف تھیں انھیں ہم نے دبے قدموں پیچھے سے جا لیا تو ہمیں پہچانتے ہوئے انتہائی تپاک سے ملیں۔ ماوار نے بھی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔
مکرم صاحب نے آتے ہی اپنا تعارف کروایا حالانکہ ان کی شستہ اردو اور خالص لب و لہجہ آپ اپنا تعارف ہے۔
شمیم آپا کی چہکار ہر طرف سے سنائی دے رہی تھی۔
جلد ہی علمی و ادبی گفتگو کا آغاز ہوا۔کبھی تشنگی کم ہوئی اور کبھی سوا ہو گئی لیکن بہرحال ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہی کا موقع ملا۔کتب کے حوالے سے بھی مختصر دورانیے کا تبادلہ خیال ہوا۔
اسلامک یونیورسٹی سے حسن ابن ساقی اپنے ایک دوست کے ہمراہ خاص طور پر اپنی شاعری سنانے آئے۔
“اردو کا گلاب لہجہ” کی فرمائش کر ڈالی تو ساتھ ہی دستخط بھی چاہے۔
اسی دوران پی ٹی وی کی ٹیم آن موجود ہوئی،انہوں نے احمد حاطب صدیقی اور رباب صاحبہ کے تاثرات ریکارڈ کئے۔
پریس فار پیس کےمنجھےہوئے گرافک ڈیزائنرابرار گردیزی صاحب جو کہ خود بھی عمدہ ادبی گفتگو کرتے رہے ان کی صاحبزادی جو مستقبل قریب کی ڈاکٹر ہیں اور بولان یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں ،نے مجھے خاصا متاثر کیا۔اور یہ امید دلائی کہ آئندہ نسلوں سے مایوس نہ ہوا جائے۔
میرے دونوں بچے گردیزی صاحب سے آئس کریم پاکر خوش تھے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے بعد شیر ہو گئے اور اردگرد کا جائزہ لینے نکل کھڑے ہوئے۔
حفص نانی صاحبہ نے ادارے کی جانب سے ہمیں سند توصیف عنایت کی۔
آخر کار مہمانان نےگھروں کی واپسی کا قصد کیا۔شمیم عارف اور ماورا بھی چل دیں ۔
بچوں نے اسٹال سے
بلیوں کی بارات
اور امید کا درخت پسند کی۔
حفص نانی بھی اسٹال پر رکھی کتب کو سمیٹ سنبھال چکی تھیں۔لیکن کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے ساتھ رکی رہیں کہ ہماری گاڑی کو پہنچنے ابھی کچھ دیر تھی۔
آخرش ہم نے نمل میلے کو خیر باد کہا ،اور گیٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں براجمان اپنے گھر کوچل دیے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.