تحریر : حفظ نانی

گزشتہ ہفتے بروز جمعہ بتاریخ 16 اگست 2024ء معمول کے مطابق سیل فون کی سکرین روشن ہوئی اور عادت کے مطابق ایک اچٹتی نظر نوٹیفیکیشن پر ڈالی اور حیرت و مسرت سے اچھل پڑی۔اسی وقت روشن سکرین سیاہی میں ڈوب گئی۔ فوراً بٹن دبایا اور سکرین پر چمکنے لگا،

“میں نصرت نسیم”

فوراً پیغام کھولا۔

“السلام علیکم! کیسے مزاج ہیں؟”

“میں نصرت نسیم”

خوشی کے مارے پیغام ٹائپ ہی نہ ہو۔ اسی وقت دو منٹ کا صوتی پیغام ریکارڈ کرکے بھیج دیا۔ ایک گھنٹے بعد براہ راست ایک دعوت نامہ موصول ہوا کہ مورخہ 19 اگست آئی 8 اسلام آباد میں شام ساڑھے پانچ بجے تشریف لائیے۔ساتھ ہی گھر کا پتہ اور ایک صوتی پیغام بھی موصول ہوا۔ ایسی پر شفقت آواز اور ایسی محبت بھری دعوت کہ

                 کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ

والا حال ہوگیا۔ اسی وقت دعوت قبول کی اور یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ”تقریب بہر ملاقات“کیا ہے؟

دو دن بعد مقررہ وقت پر بتائے گئے پتے پر پہنچ گئی۔ملازم کی راہنمائی میں اندر پہنچی تو ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گئی۔ نصرت آپا کو تو فوراً پہچان لیا اور آگے بڑھ کر ان سے خوشی خوشی ملی اور خود پر قابو پاتے ہوئے پہلے سے موجود دو بزرگ حضرات اور ایک مسکراتی ہوئی خاتون اور ان کے ساتھ موجود پانچ سالہ بچی سے بھی سلام دعا لی۔

یہ حضرات محترم جبار مرزا صاحب اور محترم شجاعت علی راہی صاحب تھے۔ تھوڑی دیر میں محترم نسیم سحر صاحب اور محترم ابرار حسین صاحب اپنی بیگم  کے ساتھ تشریف لائے۔ آخر میں آپا نصرت کے شریک حیات محترم نسیم صاحب بھی تشریف لے آئے۔

آپا نصرت کی بیٹی کا ڈرائنگ روم ادب کے ستاروں سے جگمگا رہا تھا اور میں اپنی قسمت پر نازاں پہلی مرتبہ ایسی باادب مجلس میں خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔

تمام مہمانان گرامی تشریف لا چکے تھے۔ آپا نصرت نے ہر ایک کو ایک ایک کتاب عنایت کی۔ چھوٹی سی تقریب میں سادگی کے ساتھ ہر ایک نے اپنی کتاب وصول کی۔ خوشی سے سب کے چہرے دمک رہے تھے لیکن آپا نصرت دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ عاجزی کا پیکر دکھائی دے رہی تھیں۔ بہت کم لوگ ایسے میری زندگی میں آئے کہ پہلی ہی نشست میں دل میں گھر کر جائیں، آپا نصرت ان میں سے ایک ہیں۔

پھر عائشہ بیٹی نے چائے کے لیے دعوت دی۔ اصل سماں چائے کی میز پر بندھا۔ چائے کے ساتھ خوبصورت گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ شجاعت راہی صاحب نے آپا نصرت سے،انہی پر لکھے خاکے کو پڑھنے کی اجازت چاہی۔

سبحان اللہ! کیا الفاظ تھے اور کیا انداز تھا۔ لفظوں کے موتی پھوار کی طرح برس رہے تھے اور آپا نصرت کام اور شخصیت کی خوشبو چہار سو پھیل رہی تھی۔ میری ہر ایک شخصیت سے پہلی ملاقات تھی لیکن یوں محسوس ہوا کہ ہمیشہ سے جانتی ہوں۔

شجاعت راہی صاحب کی تحریر سے چند اقتباسات

“جب وہ قلم بدست ہوتی ہیں تو ان کے لبوں پر دعاؤں کے پھول کھلتے ہیں اور ان کی رگوں میں خلوص کا لہو گردش کرتا ہے۔”

“وہ جانتی ہیں کہ نیکی کی ایک چھوٹی سی کرن اندھیرے کی دیوار میں دراڑ ڈال دیتی ہے اور مثبت محسوسات سے رسیلے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔”

“اپنی مٹی سے نصرت نسیم کا رشتہ بہت پائیدار ہے۔انہوں نے اپنے شہر کوہاٹ اور صوبے پختون خوا کی جو ثقافتی سفارت کاری اور لفظی مینا کاری کی ہے،وہ دیدنی اور شنیدنی ہے۔”

بعد ازاں محترم ابرار حسین صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ سفرنامے میں تاریخی و جغرافیائی حقائق تو سبھی بیان کرتے ہیں لیکن اپنے محسوسات بیان کرنا زیادہ اہم ہے۔ نصرت نسیم نے اپنی قلبی واردات اس سہولت سے بیان کی ہے جو کسی کو بہت گہری ریاضت کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ انداز بیاں اتنا سہل اور رواں ہے کہ قاری خود کو اس سفر میں ان کے ہم قدم محسوس کرتا ہے۔

اس دوران محترم جبار مرزا صاحب نے گاہے بگاہے اپنے شگفتہ جملوں کے ساتھ محفل کو کشت زعفراں بنائے رکھا۔ محترم نسیم سحر زیادہ تر خاموشی سے محفل کا لطف اٹھاتے رہے۔ عائشہ بیٹی بہت تندہی سے میزبانی کے فرائض سر انجام دے رہی تھیں اور ہم خواتین محفل کا بھر پور لطف اٹھا رہی تھیں۔

اس پورے عرصے میں آپا نصرت اور ان کے شریک حیات محترم نسیم کا انداز اور رویہ قابل رشک تھا۔ آپا نصرت پورا وقت عجز و انکساری اور محبتوں کا نمونہ دکھائی دیں جب کہ نسیم صاحب کی آنکھوں کی چمک اور اپنی بیگم کے لیے سراپا محبت وجود برگد کے گھنے پیڑ کا تاثر دے رہا تھا۔

مغرب کی نماز کے ساتھ ہی یہ خوبصورت مجلس اپنے اختتام کو پہنچی۔

ایک نیو یک
نصرت نسیم اور حفظ نانی
پک 2
نصرت نسیم
پک 3
جناب نسیم سحر اور مصنفہ
پک 4
تقریب کے شرکا
پک 5
محترمہ نصرت نسیم
پک10
جناب شجاعت راہی
مین پیک
نصرت نسیم کی کتاب “ کھلی آنکھوں کا خواب “تقریب اجرا

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact