ڈاکٹر لیاقت علی
سنو،
تم جو شاہی پوشاک میں چھپے،
ہمیں اندھیروں کی نذر کرتے ہو،
کبھی تم نے سوچا
کہ اس ویرانی کے پیچھے
صرف تمہاری سیاست نہیں
بلکہ وہ بوسیدہ تصورات بھی ہیں
جو ظاہری عبادتوں کی چادر اوڑھے
اپنے دلوں میں فریب چھپائے بیٹھے ہیں۔
ہم نے سنا تھا
کہ درویشوں کی دعائیں
صدفوں کی طرح موتی برسانے والی ہیں،
مگر یہ کیا؟
ہماری کشتیاں انہی کے ساحلوں پر ٹوٹتی رہیں
انہی کے عتاب کا خوف
ہمارے دلوں میں گھر کر گیا،
انہی کی بد دعاؤں کے سایے میں
ہماری تقدیریں زنگ آلود ہو گئیں۔
وہ صوفیائے کرام
جو کبھی چراغِ ہدایت تھے
آج خود گمراہی کے اندھیروں میں
اپنی جھوٹی کرامات کے اسیر
ہمیں آسمان کے نیچے
بے یار و مددگار چھوڑتے رہے۔
ہم نے چاہا
کہ ان کی دُعاؤں میں پناہ لیں،
مگر ان کی زبانوں پر فقط عتاب تھا،
اور ان کے دل
خود اپنے نفس کی غلامی میں جکڑے ہوئے۔
اے خدا
ہم کس کے در پر جائیں
جب تیرے نام لیوا
خود تفرقے کے بازار میں بیوپار کر رہے ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ یہ اہلِ دل ہیں
مگر یہ دل؟
یہ دل تو کینہ و حسد سے لبریز
اپنی عظمت کے سہارے
ہمیں تلوار کی دھار پر چلاتے رہے۔
وہ بد دعائیں جو ہمیں لرزہ براندام کرتی تھیں
کبھی ان میں صداقت نہیں تھی
مگر ہم،
ہم جو بے سہارا تھے
ان کے خوف میں راستے بدلتے رہے
اپنی راہیں بھولتے رہے
کبھی کسی درگاہ کے طواف میں
کبھی کسی پیر کی دستار کے نیچے
اپنے سچ کو دفناتے چلے گئے۔
اے وقت کے بادشاہو
تم سے بھی زیادہ
ان پیروں کے درباروں نے ہمیں برباد کیا
جو ہر آندھی کو ہماری خطا کا نتیجہ قرار دیتے
اور ہر بارش کو اپنے آستانے کی عطا سمجھتے۔
وہ جانتے تھے
کہ ان کے ایک اشارے پر
ہماری تقدیر بدل سکتی ہے،
مگر وہ اشارہ
ہمیشہ ہماری ہلاکت کی طرف تھا
اور ہم؟
ہم ہمیشہ ان کی بد دعاؤں کے خوف میں
اپنی بربادی کا سبب بنے رہے۔
اے گردشِ فلک
یہ قوم نہ گھر کی رہی
نہ گھاٹ کی،
ان آستانوں کے سامنے
اپنی گردنیں جھکائے
ہم نے اپنی عزت و وقار
خود اپنے ہاتھوں سے خاک میں ملا دی
اور وہ؟
وہ اپنی دستار کی عظمت کے نشے میں
ہماری بدحالی پر مسکراتے رہے۔
اےخدا
کب تک یہ نام نہاد مُرشداں
ہماری تقدیر کے فیصلے لکھتے رہیں گے؟
کب تک ہم ان کے فریب کا شکار رہیں گے؟
یہ قوم کب تک
ان کی جھوٹی کرامات کے سائے میں
اپنا راستہ کھوئے گی؟
کہ درویشی بھی عیاری بن چکی ہے
اور سلطانی بھی فریب