پھولاوئی اور شینا زبان، ایک تعارف / تحریر: عبد الخالق ہمدرد

You are currently viewing پھولاوئی اور شینا زبان، ایک تعارف / تحریر: عبد الخالق ہمدرد

پھولاوئی اور شینا زبان، ایک تعارف / تحریر: عبد الخالق ہمدرد


تحریر: عبد الخالق ہمدرد

’’پھولاوئی‘‘ وادی نیلم آزاد کشمیر کی یونین کونسل گریس/ گریز میں 2626 میٹر (8615 فٹ) کی بلندی پر دریائے نیلم کے مشرقی کنارے پر جانوئی اور مرناٹ کے درمیان واقع ایک گاؤں ہے۔ اس کے سامنے ’’ہولا‘‘  کا جنگل اور پہاڑی ہے جو اوپر جا کر مقبوضہ کشمیر سے مل جاتا ہے اور اس کی پشت پر چمکتا دمکتا ’’شیشہ کور‘‘ کا پہاڑ ہے۔ شیشہ کور کا مطلب ہے شیشے کی طرح چمکنے والا پہاڑ۔ یہ پتھر کی ننگی چٹانوں پر مشتمل پہاڑ ہے جو سورج کی شعاعیں پڑنے سے خوب چمکتا ہے اور اس پر نگاہ نہیں ٹکتی۔

یہ گاؤں تقریباً ڈیڑھ صدی پرانا ہے۔ اس کا نام آج کل ’’پھولاوئی‘‘ لکھا جاتا ہے لیکن یہاں کے باشندے اس کا تلفظ ’’پھولوئی‘‘ کرتے ہیں جبکہ استور اور چلاس کے لوگ اسے ’’فولوئی‘‘ کہتے ہیں۔ ڈوگرہ راج کے ایک کاغذ میں اس کو ‘‘فولہ وئی’’ لکھا دیکھا ہے اور ایک پرانے نقشے میں FOLOWAI لکھا تھا جبکہ انٹر نیٹ کے نقشوں میں بھی FOLOWAI اور PHULLAWAI لکھا ہے۔

موسم سرما میں پھلاووئی بازار کا ایک منظر

پھولاوئی کا جغرافیہ اور آبادی:
اس گاؤں کی کل آبادی آٹھ ہزار نفوس سے متجاوز ہے اور اس کی سرے سے دوسرے تک لمبائی تقریباً چھ  کلو میٹر ہے۔ ہر جگہ کی طرح اس کی بھی مقامی تقسیم ہے۔ گاؤں کے پانچ حصے ہیں: پائین سیری(رشکچی، ہٹ، مجینی ہٹ، چھکداس، بازار)، بالا سیری (سیری، بریت، لمبی پٹی، بحرین)، ڈنہ، ٹھنڈا پانی اور بزراٹ۔ اس سے آگے چراگاہیں شروع ہو جاتی ہیں۔

یہاں گیارہ مساجد، تین مدرسے، پانچ سکول اور بڑے بازار کے علاوہ تین چار جگہ کچھ کچھ دکانیں ہیں۔ یہاں کی عام زبان شنیا ہے جو یہاں کے چار بڑے قبیلوں غلمے، نسرے (ناصر)، کسرے (عثمانی) اور سمجرے (مچک) کی مادری زبان ہے مگر یہاں رہنے والے دیگر باشندے بھی یہی زبان بولتے ہیں البتہ بزراٹ میں روبیوں کے چند گھرانے ہندکو اور گوجری بھی بولتے ہیں۔ یہاں کچھ گھر لون، بٹ اور سرخیلی بھی ہیں۔ یہاں کے باشندے چلاس، استور اور گریس سے ہجرت کر کے آئے ہیں لیکن یہاں آنے کے بعد بھی شنیا زبان اور ثقافت نے ان کو ایک ہی لڑی میں پروئے رکھا ہے۔
پھولاوئی کے لوگوں کو ارد گرد کی ہندکو بولنے والی آبادی  ’’داردی‘‘ اور اپنے آپ کو ’’پارما‘‘ کہتی ہے۔ اس سے اس تاریخی حقیقت کی جانب اشارہ ہوتا ہے کہ پھولاوئی کے باشندوں کا نسلی تعلق دارد شین قبائل سے ہے۔ حسن اتفاق یہ کہ یہاں کے باشندوں کی چلاس اور استور سے اب بھی رشتہ داری قائم ہے اور لوگوں کا پہاڑی دروں سے ایک دوسرے کے ہاں معمول کے مطابق آنا جانا لگا رہتا ہے۔
اس گاؤں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے یہاں کے تقریباً ہر گھر میں ایک حافظ اور اوسطاً تین یا چار گھروں میں ایک عالم ہے۔ یہاں کے علماء اور قراء پاکستان اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ بلا مبالغہ اس میدان میں اس گاؤں کا یہاں دور دور تک کوئی مقابل نہیں۔

پیشے:
یہاں کے لوگ بھی عام دیہاتوں کی طرح زمینداری سے وابستہ ہیں۔ مویشی پالتے ہیں اور محنت مزدوری اور ملازمتیں کرتے ہیں مگر حالیہ برسوں میں جڑی بوٹی اور قیمتی پتھروں کی تلاش نے ان سب چیزوں پر اثر ڈالا ہے۔ اب لوگوں کے پاس پیسہ بہت آگیا ہے مگر اس کی وجہ سے پرانی روایات رفتہ رفتہ مر رہی ہیں۔ اس گاؤں کے لوگوں کا فوج کے ساتھ تعاون مثالی رہا ہے۔ کشمیر کی آزادی کے وقت چترال سکاؤٹس کے دستے اس علاقے میں پہنچے تو ان کے پاس رسد ختم ہو گئی تھی۔ چنانچہ گاؤں کے نمبرداروں نے فی گھر کے حساب سے روٹی اور گھی وغیرہ فوج کو بہم پہنچایا اور ہر مشکل میں فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔
طرز زندگی اور لباس پوشاک:
پھولاوئی گاؤں اگرچہ ایک دائمی آبادی ہے جو سردی گرمی میں اسی طرح قائم رہتی ہے لیکن یہاں کی زندگی کو نیم خانہ بدوشانہ کہا جا سکتا ہے۔ کاشتکاری زندگی کی اہم ضرورت اور زمینیں کم ہیں اس لئے یہاں بہار میں فصلیں بونے کے بعد مویشیوں کو چراگاہوں میں لے جایا جاتا ہے۔ جہاں مال مویشی کو اکتوبر میں فصلیں کٹنے تک رکھا جاتا ہے۔ اس عرصے میں گاؤں میں فصلیں تیار ہو جاتی ہیں جن میں مکئی، آلو اور کچھ سبزیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح وسط اگست سے اواخر ستمبر تک گھاس بھی چھیل کر ذخیرہ کی جاتی ہے اور اکتوبر کے آخر تک مال مویشی کو واپس گاؤں لایا جاتا ہے۔ اب اس ترتیب میں  زمینوں کی تقسیم در تقسیم سکڑنے اور نوجوانوں کی سہل پسندی کی وجہ سے تبدیلی آ رہی ہے۔
یہاں زندگی بہت مشکل ہے کیونکہ نومبر کے آخر سے اپریل تک برف کا راج رہتا ہے۔ اس لئے سردیاں گزارنے کے لئے انسانوں کے لئے خوراک، جانوروں کے لئے چارہ اور آتشدان کے لئے ایندھن ذخیرہ کرنا پڑتا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں سردیوں میں اونی لباس پہنا جاتا تھا جو مقامی طور پر بھیڑوں سے اون حاصل کر کے اسے کات بن کر تیار کیا جاتا تھا مگر اب اس جھنجھٹ میں کوئی نہیں پڑتا۔

پھولاوئی اور شینا زبان:
جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ یہاں کی زبان شینا ہے اور یہ رابطے کی زبان ہے لیکن جس طرح پھولاوئی میں یہ زبان دوسری زبانوں پر غالب آئی ہے، ویسے ہی دوسری زبانوں نے بھی اس پر کچھ نہ کچھ اثر ڈالا ہے۔ پھولاوئی کی دونوں جانب واقع گاؤں کے باشندے شینا سمجھتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی بول بھی لیتے ہیں جبکہ شینانے بعض الفاظ کی ادائیگی میں ہندکو کا اثر قبول کیا ہے۔ اسی طرح ہندکو اور کشمیری کی بہت سی ضرب الامثال ہو بہو یا ترجمہ ہو کر شینا میں شامل ہو گئی ہیں اور زمانی اور مکانی بعد کی وجہ سے پھولاوئی کا لہجہ چلاس اور استور دونوں کے لہجوں سے کچھ مختلف ہو گیا ہے جس کو اہل زبان با آسانی محسوس کر سکتے ہیں۔

پھولاوئی کے علاوہ شینا زبان  تاؤبٹ اور سوتی (کریم آباد) میں بھی بولی جاتی ہے لیکن اس کا لہجہ پھولاوئی کے لہجے سے الگ اور مقبوضہ گریس اور  قمری کے لہجے سے بہت قریب ہے۔ مکانی قربت کی وجہ سے ایسا ہونا  کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ یہ دونوں گاؤں بھی گریس کا حصہ اور قمری سے جڑے ہوئے ہیں البتہ یہاں کشمیری زبان کا رواج ہونے کی وجہ سے  اس میں کشمیری الفاظ کی ملاوٹ بہت ہو گئی ہے۔

پھولاوئی کے شعراء:
یہ بات بدیہی سی ہے کہ ہر زبان میں نظم اور نثر موجود ہوتی ہے۔ چونکہ شینا تا حال زبان کے اس درجے تک نہیں پہنچ سکی کہ یہ لکھنے پڑھنے کی عام زبان بن جائے لیکن اس کے باوجود اس کا دامن بھی ان اصناف سخن سے خالی نہیں۔ نثر میں پرانی لوک کہانیاں خاص اہمیت کی حامل ہیں جو پہلے مجمعوں یا گھروں میں سنائی جاتی تھیں۔ بچپن میں سرما کی طویل راتوں میں مجھے خود بھی کہانیاں سننے کا موقع ملا ہے۔ اس زمانے میں کچھ لوگ کہانیاں ایک خاص انداز میں ادا کاری کے ساتھ سناتے تھے اور کہانی میں جگہ جگہ شعر بھی ہوتے تھے جن کو گا گا کر پڑھا جاتا تھا مگر اب یہ سب کچھ ختم ہو چکا۔

دوسری جانب شاعری میں بھی پھولاوئی نے کچھ نام پیدا کئے ہیں۔ اگرچہ علاقہ محدود ہونے اور دیگر علاقوں سے رابطوں کی کمی اور اہل علم کی اس جانب بے توجہی کی وجہ سے شاعری کا کوئی خاص ذخیرہ تو موجود نہیں لیکن بحث وتحقیق سے بہت سے شاعروں کا کچھ  کچھ کلام مہیا کیا جا سکتا ہے۔

اس سرزمین میں کئی شعراء پیدا ہوئے لیکن افسوس کہ ان کا کلام ہمارے سامنے موجود نہیں۔ یہاں کے شعراء میں چار شعراء کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ان میں پہلا نمبر حسین خان مرحوم کا ہے۔ آپ شینااور اردو کے قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کا اکثر کلام عارفانہ ہے جس میں دنیا سے بے رغبتی، فکر آخرت اور حسن خلق کی دعوت دی گئی ہے۔ ان کے کلام کے کچھ نمونے کیسٹ اور تحریر کی شکل میں موجود ہیں۔ میں نے بچپن میں ان سے براہ راست بھی ان کا کلام سنا تھا مگر ٹھیک سے کوئی بات یاد نہیں رہی۔ مرحوم حسین خان چہرے مہرے سے بھی ایک وجیہ اور دراز قد انسان تھے۔ وہ خاص مجالس میں آفریدی کلاہ پہن کر شریک ہوتے تھے اور اپنا کلام لہک لہک کر سناتے تھے جس سے ایک سماں بندھ جاتا تھا۔

دوسرے شاعر روشن خان مرحوم تھے۔ ان کی شاعری فی البدیہ اور مزاحیہ ہوتی تھی۔ وہ کسی بھی واقعے کو دیکھ کر فوراً اس پر شاعرانہ تبصرہ کیا کرتے تھے۔ آج بھی لوگوں کو ان کا کچھ کچھ کلام یاد ہے لیکن افسوس کہ ان کی شاعری ضائع ہو گئی۔ روشن خان مرحوم اپنی شاعری کی طرح عام زندگی میں بھی ایک ہنس مکھ اور بذلہ سنج آدمی ہونے کی وجہ سے مشہور تھے۔ وہ جس محفل میں بیٹھ جاتے، محفل لوٹ لیتے اور لوگ ان کے سامنے اس لئے احتیاط سے بولتے تھے کہ مبادا کوئی بات غلط نکل جائے اور روشن خان اس کا شعر میں مذاق اڑائے۔

تیسرے شاعر حضرت مولانا قاضی منیب اللہ دام ظلہ ہیں جو شینا کے علاوہ اردو، ہندکو، پشتو اور فارسی میں بھی شعر کہتے ہیں۔ ان کی شاعری کو دعوتی اور عارفانہ شاعری کہا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے عقائد، اعمال اور اخلاق کو سنوارنے کی دعوت دی ہے۔ اسی طرح بعض شخصیات کی وفات پر مرثئے بھی لکھے ہیں۔ ان کی شاعری کا معتد بہ حصہ تحریر کی شکل میں موجود تو ہے لیکن تا حال اس کو مرتب نہیں کیا گیا۔

پھولاوئی کے چوتھے شاعر محمد معروف ہیں۔ وہ فوج میں ملازمت کر کے سبکدوش ہوئے ہیں۔ یہ جدید شاعر ہیں اور ان کے اکثر شعر غزل اور عشق ومحبت کے مضامین پر مشتمل ہیں۔ جدید وسائل کی دستیابی کی وجہ سے ان کی شاعری کو شمالی علاقہ جات میں کافی شہرت ملی اور ان کے کیسٹ بڑے شو ق سے سنے جاتے تھے۔

ان معروف شعراء کے علاوہ میرے خیال میں خواتین میں بھی ایک بڑی تعداد ایسی شاعرات کی رہی ہے جو خوشی غمی کے موقعوں پر اپنے جذبات کا اظہار ’’گائی‘‘ میں کرتی تھیں۔ ’’گائی‘‘ شینا زبان میں شعر کہنے کا ایک خاص انداز ہے جس میں دو مصرعے ہوتے ہیں اور ہر مصرعہ طول میں دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن اس میں قافیہ اور ردیف ضرور ہوتا ہے جس سے کلام میں وزن پیدا ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں جب چرواہے دن کو کسی پہاڑ کی چوٹی یا کسی جنگل اور میدان میں بھیڑ بکریوں کو چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیتے تھے تو ان کے پاس کسی چٹان پر بیٹھ کر کانوں پر ہاتھ رکھ رکھ گانے اور بانسری بجانے کے سوا کوئی کام نہ ہوتا تھا۔ اسی طرح شادی کے موقع پر بھی گانا بجانا ہوتا تھا اور کسی کے مرنے پر بھی شاعر اپنے جذبات کا اظہار ’’گائی‘‘ میں کرتے تھے۔

پھولاوئی کی زبان کو خطرہ:
جس طرح پوری دنیا میں مختلف جانوروں کی طرح چھوٹی زبانیں بھی معدومیت کے خطرے سے دو چار ہیں، اسی طرح پھولاوئی کی شینا زبان کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
• ذرائع ابلاغ کی فراوانی: فی زمانہ ذرائع ابلاغ میں مسلسل بڑی زبانیں بولنے اور لکھنے کی وجہ سے چھوٹی اور محدود زبانوں پر ان کا اثر ایک قدرتی امر ہے اور اس اثر سے حفاظت کے لئے چھوٹی زبانوں کی ترویج لازم ہے۔
• دیگر علاقوں سے اختلاط: ذرائع مواصلات میں آسانیاں پیدا ہونے سے لوگوں کا دیگر علاقوں سے اختلاط بہت بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سےوہ غیر ارادی طور پر بھی دوسری زبانوں کا اثر قبول کر لیتے ہیں اور اپنی زبان بولتے ہوئے بلا تکلف دوسری زبانوں کے الفاظ بھی بولتے چلے جاتے ہیں۔
• گاؤں سے ہجرت: مختلف اسباب کی وجہ سے گاؤں سے ہجرت اور دوسری زبانوں کے علاقے میں رہائش کی وجہ سے نئی نسل ماحول کی وجہ سے وہی نئی زبان سیکھ رہی ہے۔ اگرچہ گھروں میں اپنی زبان بولنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن نئی نسل ماحول نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زبان بھول رہی ہے۔
• زبان کی اہمیت سے ناواقفیت: بہت سے لوگوں کے ہاں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ ان کی مادری زبان معدوم ہو رہی ہے۔ اس لئے وہ اس کی قطعاً پروا نہیں کرتے کہ ان کے بچے کونسی زبان بول رہے ہیں۔

حرف آخر:
اس تحریر میں وادیء نیلم آزاد کشمیر کے ایک گاؤں ’’پھولاوئی‘‘ میں شینازبان کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کی گئی ہیں۔ اس کا مقصد محققین کے سامنے یہ بات رکھنا ہے کہ اگر وہ شنیا کے حوالے سے اس علاقے پر کوئی تحقیق کرنا چاہیں تو ان کے لئے میدان کھلا ہے اور وہ اس جولانگاہ میں اسپ تحقیق دوڑا کر گوئے سبقت لے جا سکتے ہیں۔
***************************************
نوٹ: یہ تحریر ’‘نوویں کے پی کے لینگویجز اینڈ کلچرز کانفرنس پشاور‘‘  منعقدہ 20-21 فروری 2021ء میں پڑھی گئی۔

 

 


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.