ازقلم :ضحی شبیر
فلسطین سے محبت نہیں عشق تھا عشق ہے عشق رہے گا۔
جب جب فلسطين کا نام آتا ہے تب تب آنکھوں کے سامنے بیت المقدس آ جاتا ہے ۔
اس کے گرد اک جملہ رقص کرتا ہے.
”سلامٌ على القُدس التي سكَنت حنايا الروح ، فكانت وطنًا لا ينتهي حُبه …..
سلام ہو القدس پر جو میںری روح کے گوشوں میں رہتی ہے،
اور وہ وطن جس کی محبت کبھی ختم نہیں ہو سکتی …
صباح النور من انحاء القدس ..(منقول)
جب جب بیت المقدس نظر آتا ہے تب دل میں قبلہ اول کی محبت نئے سرے سے جنم لیتی ہے. اس جنم لیتی محبت کی شدت ایسی ہوتی ہے جیسے پہلی بار ہو رہی ہو اور ایسے ہو رہی ہو کہ دل بس اسی کو دیکھنے، وہیں جانے، اس کے پاس
رہنے کے لیے بے قرار ہو..
اس کا غم کا پیمانہ وہ خود نہیں جانتی ہے القدس کا غم بہت گہرا ہے.
“فَكأنهُ بالحُسنِ صورَةُ يوسف
و كَأنني بالحُزنِ مِثل أبيةِ
گویا کے اسکا حسن یوسف کی طرح یے
اور میرا غم اس کے لئے یوسف کے والد کی طرح ہے۔(منقول)”
جب جب القدس میں نمازیوں کو دیکھتی تو دور ہونے کی بے قراری میں بس لگاتار چند اشعار دہراتی ۔
“نماز اقصی میں جب پڑھائی
تو انبیاء اور رسول یہ بولے
نماز ہو تو نماز ایسی
امام ہو تو امام ایسا”
پڑھتے پڑھتے اس کو یوں لگتا جیسا محمد صلی کا ہی دور چل رہا ہو.
اسے لگتا وہاں جانے والا ہر شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو اور وجود کو بہت قریب سے محسوس کرتا ہے جو وہ نہیں کر پا رہی ہے.
قبلہ اول کے نمازیوں پر جب ظلم ہوتا. القدس لہولہان ہو جاتا اور القدس پر یہودی حملہ کرتے. حرمت اور تقدس پامال ہوتا. محبت کے عالم میں وہ بیگانہ ہو جاتی ۔
کبھی کبھی وہ چاہتی اس کو ایسی طاقت مل جائے کہ ستاون ممالک کے مسلمانوں حکمرانوں کو اک جگہ پر اکٹھا کرے اک اک کا گریبان جھنجھوڑے اور پوچھے
“کیا القدس سے تمہیں عشق نہیں..؟”
“کیا تم اس خوشبو اور وجود کو محسوس کرنے کی تڑپ نہیں رکھتے..؟”
“کیا قبلہ اول سے تمہیں محبت نہیں…”؟
اگر اس کو ان کی طرف سے محبت کا اقرار ملے تو اک اک طمانچہ رسید کرے اور کہے
“کیسی کمزور اور کم تر محبت رکھتے ہو اختیار کے باوجود محبوب پر ظلم برداشت کرتے ہو…… آخر محبت بھرے دلوں میں کس چیز کی سختی بھری ہے….کیسے ظلم برداشت کرتے ہو..؟
کس سے ڈرتے ہو….؟
کس کا خوف تمہیں لڑنے سے روکتا ہے….,؟
جب جواب میں سامنے سے خاموشی ملے تو وہ چاہتی ہے بآواز بلند ان ستاون ممالک کے حکمرانوں کے کانوں میں چلا چلا کر اعلان کرے
“تم سب ڈرپوک ہو تمہاری خاموشی اظہار کرتی ہے تم مٹھی بھر یہودیوں سے اتنے ڈرتے ہو کہ اس ڈر میں تمہاری غیرت کی موت ہوئی. جب تمہاری غیرتوں کے جنازے اٹھے تو القدس میں یہودی اپنے خوف سے کروائی گئی غیرتوں کی موت کا جشن نمازیوں پر حملہ کر کے مناتے ہیں تم جاگتے ہوئے اندھے، بہرے اور گونگے ہو۔”
لیکن وہ جانتی ہے وہ یہ نہیں کر سکتی ہے اس کے پاس تو وہ طاقت ہی موجود نہیں ہے.
کبھی وہ چاہتی ہے وہ کوئی ابن قاسم تیار کر لے. کسی مجسمہ کو لے کر ابن قاسم کو تراش لے. راہ چلتے کسی بھکاری بچوں کے ہاتھ میں پیالوں کے عوض اپنے ہاتھ تھمائے اس کو ساتھ لے جائے رقم کی جگہ اس کو جرأت، دلیری اور شجاعت سے لڑنا اور فتح کرنا سکھائے.
ہر بچے کے دماغ میں اک ہی بات بھر دے
کبھی تمہیں القدس سے کسی غمزدہ ماں کی آہ سنائی دے اس ماں نے قبلہ اول میں اپنے لاڈلے، چہیتے، دل کے ٹکڑے کو لہولہان پایا ہو.
“تم اپنے وقت کے حجاج بن یوسف بھی خود بن جانا اور خود ہی محمد بن قاسم بھی ہونا.”
ماں کی فریاد پر، فلسطین میں بلند آہ و فغان پر جوش غصب سے بے تاب ہونا.
خود میں پائے جانے والے محمد بن قاسم کو حکم صادر کرنا.
“مجھے القدس کی فتح چاہیے۔”
پھر تم لڑنا، جہاد کرنا، ایسے لڑتے چلے جانا کہ تم فاتح بن کے لوٹ آنا.
بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازاں کہ من نمانم بہ چہ کار خواہی آمد
(حضرت امیر خسرو رحمۃ اللّٰہ علیہ)
میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آ کہ میں زندہ رہوں، جب میں نہیں ہونگا تو اسکے بعد تیرا آنا کس کام کا۔
جب جب فلسطين کی اٹھتی کوئی آہ سنتی ہے. کسی ماں کی نم آنکھیں دیکھتی ہے ۔القدس کی خاک رنگین دیکھتی ہے.
سوچتی ہے وقت کو بھی پیچھے لے جایا جا سکتا ۔
اس کا دل چاہتا ہے تو دورِ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی طرح لوٹ آتا۔
حضرت عمر بن العاص کے سپرد مہم فلسطین ہو۔ بیت المقدس کے دروازے پر دستک فتح ہو. حضرت عمر بن العاص محاصرہ القدس کریں ۔عیسائیوں کی طرح یہودی قلعہ بند ہو کر مقابلہ کرنے پر مجبور ہوں. دوران محاصرہ ابوعبیدہ بھی پہنچیں ۔یہودیوں کی مدافعت دم توڑے لیکن اب کی بار صلح نہیں بس انجام فقط یہودیوں کی ہلاکت ہو.
وہ روتے روتے اس فاتح لشکر کے ساتھ بیت المقدس میں داخل ہو…
وہ جانتی ہے یہ سب تخیل ہے وقت نہیں لوٹے گا. صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کیسے دوبارہ آ سکتے ہیں مگر وہ اس تخیلاتی دنیا میں القدس کو چھڑاتی ہے. اس کے تخیلاتی مناظر اس کے بس اور قابو میں نہیں رہ پاتے.
“وہ لکھتی ہے!
بہت بے ساختہ لِکھتی ہے
پھر لِکھ کر مٹاتی ہے
مِٹا کر یہ سمجھتی ہے,
کہ اُس نے دِل کی حالت کو
عیاں ہونے سے روکا ہے ..!”
(انتخاب)
جب القدس کی گہری تاریکی آنکھیں بند کرتے اسے چھبتی ہے
وہ چاہتی ہے
وہ ابابیل بن جائے
کیوں کہ جب جب وہ خود کو ابابیل محسوس کرتی ہے۔اس کو یہودی ابرہہہ کا لشکر لگتے ہیں ۔
وہ چاہتی ہے ابابیل بنتے ہی وہ ابابیلوں کو ڈھونڈ لائے گی ابابیلوں کا وہ جھنڈ یہودیوں کے لشکر کو بھسم کر دے گا.
اس کے کانوں میں بس سورت الفیل کی آیات گونجتی ہیں.
اس کو یقین ہے اس کی امید مکمل ہو گی القدس میں فتح کی دستک ہو گی. فلسطين میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا. یہودیوں کی حکمرانی کا سورج غروب ہو گا. ایسے ان کو شکست ہو گی کہ وہ ذلالت سے تاب نہ لاتے ہوئے تڑپ تڑپ کر جہنم واصل ہوں گے
ہاں القدس آزاد ہو گا
القدس فتح ہو گا
میری آنکھوں سے اشک رواں دواں ہیں
یہودی اجاڑے اقصی، غم دل میں رہتا ہے
ہائے غیرت مسلم آخر کب ہو گی بے دار
فلسطین چیخ چیخ کر اک سوال کہتا ہے
انبیاء کا مسکن، تیرا قبلہ اول تیری شان
بارود کی بو پھیلے، اکثر یہاں لہو بہتا ہے
مٹھی بھر یہودی تیری غیرت کو للکاریں
مسلم جھکنا تیری غیرت کو زیب دیتا ہے
اب تیرے مسلمان ہونے پر بھی افسوس
القدس بھی ہر لمحہ ظلم، نفرت سہتا ہے
ہائے نیست و نابود کرے یہودیوں کو خدا
مگر خدا کے ہوتے مسلم کہیں توجھکتا ہے
(ضحی شبیر)
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.