تاثرات: نمرہ بشیر
داستان عشق
آج سے میں عشق زاد ہوئی
عشق کے گنجل، عشق کی رمزیں
عاشق جانے،معشوق کی عرضیں
عشق کے دھاگے، عشق کی پرتیں
زخمی کر دیں، وحشت ڈھا دیں
محبت ستائش مانگتی ہے اور عشق مان دیتا ہے۔
شروع اس رب کے نام سے جس نے محبوب کیلیے پوری کائنات تخلیق کردی- گویا محبت کا یہ سلسلہ ازل سے ابد تک ہے-خالق کے عطا کردہ خزینے نے جہاں مخلوق میں اپنی جڑیں مضبوط کیں وہیں کئی ان گنت اسراروں سے پردے بھی اٹھائے۔
نازیہ کامران کاشف کا یہ پہلا ناول جو کافی دیر سے پاس محفوظ رکھا تھا اور فراغت کے لمحوں میں پڑھنے کےلیے رکھا ہوا تھا ،پرسوں شروع کیا۔یہ ایک ایسا سفر تھا جس میں اذیت کے کئی فرعون پہاڑ بن کر کھڑے ہوئے اور میں نے ناول کو پڑھنے کا ارادہ ترک کیا لیکن ستاروں کا سحر اور چنبیلی کی خوشبو کی طلب کرب کے دریائے فرات میں الرحمن کی طرف سے راستہ بن کر سامنے آئی۔مزید سے مزید تر کی خواہش پڑھنے پر مجبور کرتی گئی۔چاہ سے بات بڑھے تو جنون بن جاتی ہے اور جنون تو عشق کی راہ کا وہ تالہ ہے جس کی چابی کہیں دور آسمانوں کی حدود میں گم ہے-جہاں غیلان کی پہنچ نا ممکن ہے، جہاں صرف سلازار اور مثنوی کے عشق کے فُسوں کا راج ہےاور انکے رب کی حکمتوں کے انبار ہیں-
عشق زاد ایک ایسا ناول ہے جو مجھ جیسے ہر چولستانی کے صحرا سے اٹوٹ رشتے کو اور مقرب کر دے ۔ہاں میں اس خطے سے ہوں جہاں کے گرم ریت کے ٹیلوں کو نازیہ آپی نے محبت کی پھوار سے بھگو دیا-واللہ آدم زادی اور جن زاد کی محبت کی خنکی چولستان کے صحرا کو ٹھنڈا کر گئی ہے-
اس سے بھلا کچھ حسین اور تکلیف دہ کچھ ہو گا کہ مثنوی کی سرخ ہتھیلیاں سلازار کی زندگی کی امین ٹہریں-
“سلازار تم پر قابض نہیں ہوا تمہارا غلام ہوا”
اور یہاں میں میرا دل سلازار کی محبت کا گواہ بنا-
“تم ترسو گے اس جنون کیلیے کیونکہ وہ سالازار کی ملکیت تھا”
شاہ میر کو کہے گئے یہ الفاظوں نے پتا نہیں اس پر کیسا اثر ڈالالیکن میرے جسم کا رو رو کانپ گیا-
“قرطاس کے الفاظ کہ اگر یہ عشق ہے تو خدا کرے مجھے کبھی نا ہو”
بے بسی اور تکلیف وحشتوں کے نئے در وا کرتی ہے اور اپنے عزیز کو تکلیف میں دیکھ کر قرطاس کے الفاظ کا چناو کہانی سے انصاف کرتا نظرآیا۔ –
“اس وقت تارے بہت نیچے ہوں گے اور جگنو”
پیا ملن کی ان گھڑیوں کی یاد کا دکھ میں نے مثنوی کے ساتھ سہا-میرا گیلا تکیہ اس بات کا گواہ رہا کہ آدم زاد کی سوچ لا محالہ محدود ہوتی ہے-اپنے مطابق ہر شے کو ڈھالنے کی سوچ ہی اسے پل بھر کیلیے سہی پر وقت کے کٹہرے میں ضرور لا کھڑا کرتی ہے-
“زادیت کی علمبردار کو پہلی بار عشق زادے کا دکھ محسوس ہوا-“
عشق اور مُشک چھپائے نہیں چھپتے انکی خبر ہوا میں بگولوں کی طرح گھومتے ہوئے ہر شے کو لپیٹ میں لے لیتی ہے-شاہ میر کے احساسات کا احساس بھی یہیں کہیں مثنوی کو چھو گیا- کہتے ہیں نا جس تن لگیاں او تن جانے تو بھلا وہ کیسے نا جانتی-
“سلازار کی مثنوی کو مایوس لوٹانے کا حساب اپکو چکانا ہو گا”
…یہ عشق کا دیا ہوا مان تھا-محبت کا پہلا درجہ عزت اور تحفظ کے احساس کا ہوتا ہے اور جب یہی محبت عشق کا روپ اوڑھے تو مان کا گلشئیر بن جاتی ہے- ایسا گلشئیر جس کی زندگی میں نا ٹوٹنے والی برف کا موسم قائم رہتا ہے-
الہام سے شروع ہوئی داستان نے جب سلازار کا روپ ڈھالا تو مانو دل تھیا تھیا کی تاپ پر ناچا-
ایک جگہ جب سلازار نے کہا سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز پتا ہے کیا ہے جب آپکو پتا چلے کہ وہ آپ کا ہی عشق تھا جو دونوں طرف کی کمی پوری کر رہا تھا وہ آپ ہی کا جنون تھا جو آپکے منہ پر مارا گیا۔
لوگ کہتے ہیں محبت حدود کی قائل نہیں ہوتی-یعنی ہھر تو محبت طوفان ہوئی جس پر قابو پانا ناممکن ہے لیکن اس ناچیز کا خیال ہے دراصل عشق ان فصیلوں سے ماورا ہوتا ہوا بھی خود کو محبوب کی خواہشات میں باندھے ہوئے ہے اور سلازار نے یہ سچ کر دکھایا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.