مصنف ، مترجم و افسانہ نگار ، صدا کار ، ڈرامہ نگار فن کار ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی کراچی میں انتقال کر گئے۔
جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی کے حالات زندگی
پیدائش و بچپن
مطالعے کا شوق انہیں بچپن ہی سے تھا، آٹھویں جماعت میں قلم سنبھالا، پہلی کہانی 1954ءمیں حامد یار خان کے پرچے ‘نونہال’ میں شایع ہوئی، میٹرک تک بچوں کی تین، چار کہانیاں چھپ چکی تھیں، 1960ءکے بعد افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ابتدا میں خوف ہوتا کہ کہیں یہ تحریریں والدین کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔
فرید صدیقی نے یو پی کے شہر الہ آباد میں آنکھ کھولی، سن 1938ءتھا، تین بہنیں اور دو بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں، قرآنی تعلیم کے لیے دِہرہ دون (اترکھنڈ) کے فیضان صوفیا اسکول میں داخلہ ہوا، جب کہ الہ آباد کے سینٹ جوزف اسکول کے طالب علم تھے، کہ بٹوارا ہوگیا، والد مجسٹریٹ آفیسر تھے، انہوں نے جون 1947ءمیں چھے ماہ کے لیے کراچی تبادلے کا اختیار استعمال کیا اور پھر ہجرت کا فیصلہ کیا، یوں وہ اکتوبر 1947ءمیں بمبئی سے بحری راستے اہل خانہ کے ہم راہ کراچی پہنچے، الہ آباد سے کچھ لے کر نہیں آئے، لیکن لُٹے لٹائے بھی نہ تھے۔ بہ خیریت کیماڑی پر اترے اور اونٹ گاڑی میں بیٹھ کر جوبلی سینما کے سامنے ‘ظفرلاج’ کے مکین بنے اور کاسموپولیٹن انگلش اسکول (سعید منزل) میں تیسری جماعت کے طالب علم ہوگئے۔ کراچی، بمبئی کی طرح تجارتی شہر تھا۔ الہ آباد میں ‘برآمدوں’ کا تصور نہ تھا، یہاں عمارتی گھروں کے اس گوشے سے دور تک کا نظارہ بہت بھایا۔ کہتے ہیں ‘وطن مالوف’ کی محبت تو ہر ایک کے اندر جاگزیں ہوتی ہے، اس لیے انہیں بھی گنگا جمنی تہذیب سے رنگی اپنی جنم بھومی بہت یاد آتی ہے۔
سکول میں ہم نصابی سرگرمیاں
کچھ عرصہ بعد والد کو سرکار کی طرف سے مارٹن کوارٹر میں گھر دیا گیا، اتفاق سے وہاں رہائش پذیر کچھ اداکار اپنے اسٹیج ڈراموں کی مشق کرتے تھے، وہ اسکول سے لوٹتے ہوئے وہیں کھڑے ہو جاتے، ایک دن ان کے شوق سے متاثر ہو کر انہیں بھی ایک چھوٹا سا کردار دے دیا، یوں 1952ءمیں منچ پر اداکاری کی شروعات ہوئی، جب ساتویں میں تھے۔ 1950ءمیں اینٹیلی جنس اسکول (پی آئی ڈی سی) کے قریب خیموں میں قائم ہونے والے کراچی ریڈیو اسٹیشن میں بچوں کے پروگرام میں شریک ہوتے رہے، جس میں عبدالماجد، ظفر صدیقی، زیڈ اے بخاری اور نصراللہ خان وغیرہ ہوتے، والد کے تبادلے کے سبب یہ سلسلہ منقطع ہوا، والد کے تبادلوں کے سبب ہی کم سنی میں پاک وہند کے مختلف شہر گھومے، پھر اپنی ملازمتی ذمہ داریوں کے سبب بھی سفر درپیش رہا، یوں انہوں نے ملک کا تقریباً ہر شہر دیکھ لیا۔
ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی کا تعلیمی سفر
فرید صدیقی کے تعلیمی سفر کی یہ بات نہایت دل چسپ ہے کہ انہوں نے ہر کلاس مختلف اسکول میں پڑھی، جس میں الہ آباد، کراچی، حیدرآباد اور ملتان کے اسکول شامل ہیں۔ 1955ءمیں ملت ہائی اسکول سے میٹرک کیا، جہاں اداکار محمد علی ہم جماعت رہے۔ اُن یادوں کو کھنگالتے ہوئے فرید صدیقی کہتے ہیں کہ محمد علی کے بڑے بھائی ریڈیو پاکستان میں تھے، جن کے تبادلے کے سبب ہی علی حیدر آباد آئے۔
فلمی دور
1960ءکے زمانے میں فضل احمد فضلی نے فلم ‘چراغ جلتا رہا’ میں محمد علی کو متعارف کرایا، فضلی، الہ آباد میں فرید صدیقی کے والد کے ہم جماعت رہے، انھوں نے ذکر کیا کہ تمہاری کلاس کا محمد علی فلم میں جا رہا ہے، تم جاﺅ گے؟ ڈراما ڈائریکٹر علی احمد نے کہا فلم نگری تمھارے بس کی نہیں، یوں یہ سلسلہ آگے نہ چلا۔
فرید صدیقی بحثیت مقرر
فرید صدیقی نے اسکول کے زمانے سے خطابت کے جوہر بھی دکھانا شروع کر دیے، ملتان کے مشہور گورنمنٹ ایمرسن کالج سے گریجویشن کیا، پھر 1961ءمیں ایس ایم لا کالج (کراچی) میں داخلہ لیا اور کالج کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کا حصہ بن کر مختلف مباحثوں میں شامل ہوئے، ریڈیو پر انگریزی خبر خواں رضوان واسطی بھی اس دشت کے راہی تھے،
انھیں اپنی منفرد آواز سے ہی مقابل پر سبقت مل جاتی تھی۔ یہ ایس ایم لا کالج میں ذوالفقار بھٹو کی تدریس کے کچھ ہی بعد کا زمانہ تھا، جب فتح یاب علی خان اور معراج محمد خان جیسی متحرک شخصیات یہاں طالب علم تھیں، اُن کی خواہش تھی کہ فرید صدیقی بھی سیاست میں حصہ لیں، لیکن اُن کو والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت درپیش تھی، اس لیے کبھی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنے، تاہم کالج کی دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، ‘این ایس ایف’ میں نہ ہونے کے سبب ‘جماعتی’ سمجھے جاتے، لیکن ایسا نہ تھا۔ سیاسی سرگرمیوں سے بچنے کے لیے ہی ایس ایم لا کالج ایک سال میں چھوڑ دیا، وکیل نہ بن سکنے کو زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا کہتے ہیں۔ اس دوران ‘رائل ایکسچینج انشورنس’ میں ملازم ہوگئے۔ شام میں فرصت ملی، تو اسے ہومیوپیتھک میڈیکل کالج (ناظم آباد) سے نتھی ہو کر کارآمد کیا، جس کے بعد کچھ عرصہ گھر میں بلامعاوضہ مطب بھی کیا، اب یہ سوچتے ہیں کہ توجہ دیتے تو آج یہ ذریعہ آمدن ہو سکتا تھا۔
سٹیج ڈراموں میں کام
فرید صدیقی نے اسٹیج ڈراموں کے ڈائریکٹر علی احمد کے کئی ڈراموں میں کلاکاری کی۔ اُن کے والد حافظ قرآن تھے، لیکن انہوں نے کبھی فرید صدیقی کی سرگرمیوں پر قدغن نہیں لگائی۔ 1962ءمیں ڈرامے ‘بڑا صاحب’ سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ 1965ءمیں ایک تمثیل ‘آدھی روٹی، ایک لنگوٹی’ کیا، جسے محاذ جنگ پر پیش کرنا تھا، لیکن اجازت نہ ملی، تو کراچی کے مختلف مقامات پر پیش کیا، جس میں اداکار شکیل اور زینت یاسمین بھی تھیں، فرید صدیقی نے اس میں طنزیہ طور پر ننکو (بھارتی وزیراعظم شاستری) کا کردار ادا کیا اور ‘پوربی بولی’ بولی، جب کہ شکیل نے نان سینس (اس وقت کے امریکی صدر جانسن) کا روپ نبھایا۔ منچ پر ڈھائی گھنٹے کا ایک اور ڈراما ‘شیشے کے آدمی’ میں لطیف کپاڈیہ بھی ساتھ تھے، یہ ڈراما 1969ءمیں پی ٹی وی پر نشر ہوا، دیگر اسٹیج ڈراموں میں خالی بوتل، راکھ اور انگارے، چودہویں منزل اور قصہ سوتے جاگتے کا شامل ہیں۔ ایک دفعہ اسٹیج ڈراموں کے لیے لاہور گئے، ایک بنگلے میں ٹی وی اینٹینا دیکھ کر رہا نہ گیا، وہاں جا کر تعارف کرایا اور پہلی بار ٹی وی دیکھا۔
فرید صدیقی ٹی وی میں کام
وہ پہلی بار 1968
میں ٹی وی پر جلوہ گر ہوئے اور ‘جنگل میں منگل’ میں اداکاری کی، پھر خدا کی بستی، زیر زبر پیش، بارش، بوفے، مانوس اجنبی، کلرک کی موت، آپ کا مخلص’ میں کام کیا۔ ریڈیو کے لیے لکھے جانے والے ڈراموں میں خوش نگر، درد مشترک، کانچ کے سپنے، دوستی، صبح امید، مکافات عمل، امانت کی دولت، حسین رشتے وغیرہ شامل ہیں جو ‘ہوا کے دوش پر’ کے نام سے منصہ شہود پر آئے۔
فرید صدیقی کی کالم نگاری
دو ہزار پانچ ءسے ہفت روزہ ‘اخبار جہاں’ کے لیے لکھنے کا سلسلہ رہا۔
ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی کی تصانیف



دو ہزار آٹھ میں پہلی کتاب ‘ماہ کامل، اَن جانے راستے’ منصہ ¿ شہود پر آئی، جو دو ناولٹ ہیں، دوسری اشاعت میں اس کا عنوان ‘دشت حیرت سے چاند نگر تک’ ہوا۔ ‘ماہ کامل’ فلکیات سے دل چسپی رکھنے والے ایک طالب علم ‘ہلال’ کے گرد گھومتا ہے، جسے ناسا کے لیے چنا جاتا ہے اور پھر وہ چاند کی طرف عازم سفر ہوتا ہے، جب کہ اَن جانے راستے چولستان کے سفر کے پس منظر میں لکھا گیا۔
اخبارجہاں’ میں لکھے ہوئے ناولٹ ‘امرت’ کے عنوان سے شایع ہوئے۔
البرٹ کیمس کے ناول
A Happy Death
کا ترجمہ ‘موت کی خوشی’ کے عنوان سے کیا۔
برازیلین مصنف پولو کوئیلو
دی الکیمسٹ (The Alchemist) کے
پولو کوئیلو کی کتاب کا ترجمہ کیا
اِلف (Aleph) ۔
نئے دور کے نمائندہ افسانے ( منتخب افسانہ) شامل ہے ۔
ادبی جرائد میں افسانے شائع ہوئے۔
صدا کاری و براڈ کاسٹ جرنلزم
2000ءمیں بزرگ شہریوں کے پروگرام کے ذریعے ریڈیو پاکستان پر پروگرام کیے،
ریڈیو کے لیے ڈرامے بھی لکھے،
2014ءتا 2016ءسندھ پولیس کے ریڈیو (ایف ایم 88.6) پر انٹرویو کے پروگرام کیے
2013ءسے ‘اپنا کراچی ایف ایم 107’ پر ہر اتوار کی صبح ایک پروگرام کرتے رہے
۔۔۔۔۔
حوالہ
انٹرویو روزنامہ ایکسپریس
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.