تحریر نسیم سلیمان 

عدیل اپنے والدین کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔وہ چھ بہن بھائی تھے۔چار بھائی اور دوبہنیں۔عدیل بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور لاڈلا تھا۔ لاڈلا ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہت خوب صورت بھی تھا۔کالے گھنے گھنگریالے بالوں اور دودھیا رنگت کے نکھرتے ہوئے سرخ اور سفید چہرے کے ساتھ وہ بہت ہی خوب صورت شہزادہ دکھتا تھا۔

بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ گھر بھر کا لاڈلا تھا۔سب اسے بہت پیار کرتے تھے۔

عدیل کے ابو کی نوکری بہت اچھی تھی۔ اور اس کے بڑے بھائی بھی باہر کے کسی ملک میں بہت اچھی کمپنی میں کسی اچھے عہدے پر  تھے۔

گھر میں خوش حالی  تھی۔روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔پچاس سال پہلے بھی جب لوگ زیادہ امیر نہیں تھے۔ان کے گھر میں دنیاوی آسائشیں اور سہولیات میسر تھیں۔

اس دور میں بھی عدیل  لوگوں کا “بنگلہ” تھا۔جب عام لوگوں کے گھر کچے تھے۔ گویا کہ وہ بچپن سے ہی بہت نازو نعم میں پلا۔جب دنیا کی ہر آسائش آپ کے پاس ہو۔لاڈ پیار بھی وافر مقدار میں ہو تو فطری سی بات ہے کہ ایسا بچہ بے جا لاڈ میں ضدی ہو جاتا ہے۔بگڑ سا جاتا ہے۔

 عدیل کا شمار بھی ان لاڈلے اور ضدی بچوں میں تھا۔اس سب کے باوجود جو ایک بات اس میں بہت اچھی تھی کہ وہ کلاس کا ذہین ترین بچہ تھا۔

ہمیشہ کلاس میں اس کی پہلی پوزیشن ہوتی۔بہت لائق تھا اپنا ہوم ورک پابندی سے کرتا۔ ضدی اور شرارتی ہونے کے باوجود سارے اساتذہ بھی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔تھوڑا بڑا ہوا تو وقت گزرنے کے ساتھ اس میں تھوڑی سنجیدگی آتی گئی۔

پڑھائی میں اچھا ہونے کی وجہ آگے ہی بڑھتا رہا۔سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے کالج کی دنیا میں قدم رکھا۔گھر والوں کے بے جا لاڈ پیار اور کالج کے آزاد ماحول نے اس کی ضد اور لاپرواہی میں مزید  اضافہ  کیا۔

اس کے لیے  اس کے ضد کرنے پر موٹر سائیکل لے کر دیا گیا۔موٹر سائیکل کیا ملا عدیل صاحب تو ہواؤں میں اڑنے لگے۔ 

ایسا کیوں نہ ہوتا گھر بھر کا لاڈلا جو تھا۔بہت  اچھی ڈریسنگ کرتا تھا۔خوب صورتی میں بھی کمال تھا۔کوئی روک ٹوک نہ تھی۔چھٹی کے وقت لڑکیوں کے کالج کے سامنے کھڑا  رہتا۔ پڑھائی میں تو ویسے بھی بہت اچھاتھا۔خوب صورت بھی اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ وہ سب کی نگاہوں کا مرکز تھا۔۔موٹر سائیکل  اتنا تیز چلاتا کہ ایک دفعہ ایکسیڈنٹ میں ٹانگ تڑوا بیٹھا ۔

پورے دو ماہ بستر پر رہا۔لیکن باز پھر بھی نہ آیا ۔اس کے وہی شب و روز  تھے۔

اللہ اللہ کرکے گریجویشن کر لی۔لائق تو وہ تھا ہی پنجاب یونیورسٹی میں میرٹ پر ایڈمیشن ہو گیا۔اب تو وہ اور زیادہ کھلے ماحول اور کھلی فضاؤں میں اڑنے لگا۔

اس سب کے باوجود وہ پڑھائی میں ہمیشہ آگے ہی رہا۔دو سال بعد وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے اکنامکس کی ڈگری لے کر گھر آیا ۔ اب تو اس کی شان ہی اور تھی۔گھر بار، دولت ،لاڈ پیار سب کچھ وافر تھا اس کے پاس۔اس کی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔اس نے کچھ عرصے بعد اپنی پسند سے شادی بھی کرلی۔اللہ پاک نے اس کو جلد ہی اولاد کی نعمت سے بھی نوازا ۔زندگی بہت شاداں و فرحاں گزر رہی تھی۔۔

پھر ایسا ہوا کے نہ جانے کس محفل میں کن لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا۔نشے کی لت پڑھ گئی۔بس پھر اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے لگا۔اپنے بیوی بچوں کی طرف بھی توجہ کم ہو گئی۔

بوڑھے والدین بھی یکے بعد دیگرے اس دنیا سے چلے گئے۔

کچھ عرصہ تو بڑے بھائی نے ساتھ دیا۔علاج وغیرہ بھی کروایا۔لیکن وہ سب کا راج دلارا ایسے نشے میں گم ہو گیا تھا کہ اسے کوئی خبر نہ تھی۔ علاج کروانے کے بعد کچھ عرصہ تھوڑا بہتر رہا۔ جانے پھر کیا ہوا  بھائیوں کے درمیان بھی اختلافات  ہو گئے۔

 گھریلو  زندگی الجھ سی گئی۔پرشان رہنے لگا۔  وہ اس زندگی سے ،زندگی سے جڑے لوگوں سے بیزار ہو گیا۔وہ اپنوں کی بے وفائی کو سہہ نہیں پایا اور ملک ہی چھوڑ دیا۔

دور دیس جا کر آباد ہو گیا۔ وہاں  نئے سرے سے زندگی کی شروعات کی ۔  نئی شریک سفر   نےشاید اس کے حالات کو سمجھتے ہوئے اس کا ساتھ دیا۔  اور اپنی حد تک اس سے وفا نبھاتی رہی۔

وہ کس حال میں  ہے کیسا ہے؟کہاں ہےکیسی نے کوئی پرواہ نہ کی  ۔۔

اس نے بھی شاید اپنوں کے بغیر جینا سیکھ لیا تھا۔

دوسرے ملک میں رہتے ہوئے اپنے سے جڑے اپنے پیاروں کے بغیر زندگی گزارنا  کتنا مشکل ہے۔کٹھن ہے یہ اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔سالہاسال سے دور رہتے ہوئے بھی اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو اسے یاد رہتی ہے۔ اپنے  سے جڑے سب لوگوں کو یاد کرتا ہے۔اپنے گاؤں کے لوگوں کی بھی اسے یاد آتی ہے۔   نہ صرف لوگوں کی بلکہ ان راستوں کو بھی یاد کرتا ہے۔جن راستوں پر  دوڑتے بھاگتے وہ خوب صورت بچپن سے البیلی جوانی میں داخل ہوا تھا۔

 اپنے کھوئے ہوئے بچپن کو ،اپنی جوانی کی بہاروں کو ، یاد کرتا ہے۔اپنے خون کے رشتوں کو چھوڑ کر شاید اس کی زندگی میں پچھتاوا بھی ہو۔ 

تنہائی میں اپنے وطن کی یاد  اپنے سے جڑے خونی رشتے یاد تو بہت آتے ہیں اسے۔سب کو وہ ملنا چاہتا ہو گا۔گلے لگانا چاہتا ہو گا ۔اپنی جنت اپنے وطن میں واپس آنا چاہتا ہوگا۔اپنی دھرتی کی مٹی کی سوندھی خوشبو کو سونگھنا چاہتا ہو گا۔لیکن اب جب وہ بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہونے والا ہےآج بھی اس کی انا اس کی ضد،اس کو اپنوں سے دور کیے ہوئے ہے۔

کیوں لوگ ایسے ہو جاتے ہیں!اپنوں سے دور ،اپنے وطن کی ٹھنڈی میٹھی ہواؤں سےدور۔ اپنی  انا اور ضد کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اور یہ زندگی جو رب کی طرف سے ایک ہی بار ملتی ہے۔اپنے ہی ہاتھوں اس زندگی  کو اجڑتے ہوئے ،ختم ہوتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔انا اور ضد تو جیت جاتی ہے ۔لیکن زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اجڑ جاتی ہے۔ اپنوں سے بچھڑنے کا غم کبھی ختم نہیں ہوتا۔ان سے ملنے کو ان کے ساتھ وقت گزارنے کا دل تو بہت کرتا ہے۔لیکن یہ بد بخت انا  اور ضد آڑے آ جاتی ہے۔۔

میری ان سب احباب سے یہ گزارش جو ضد ، ہٹ دھرمی اور انا کے خول میں لپٹے ہیں خدا راہ اس جھوٹے خول کو توڑ کے باہر نکلیں۔ساری رنجشیں ختم کریں۔اپنے سے جڑے  رشتوں کی قدر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ پچھتاوا آپ کا مقدر ہو جائے۔زندگی ایک ہی بار ملتی ہے۔اس کو ایسے نہ ضائع کریں۔۔

لکھاری کا تعارف

محترمہ نسیم سلیمان راولاکوٹ سے تعلق رکھتی ہیں۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور سوشل میڈیا پر ماضی کی یادوں اور تعلیمی و سماجی تبدیلیوں کا احوال لکھتی ہیں۔حال ہی میں ان کی پہلی تصنیف “یادوں کی الماری” منظر عام پر آئی ہے جسے علمی اور ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content