تبصرہ نگار : کومل شہزادی
بقول اکبر حیدر ابادی:
مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ
جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو
انسانی زندگی کی ترقی کے لیے سفر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ سفر چاہے دنیاوی ہو یا باطنی۔ جتنی سچ اور اہم بات یہ ہے اتنی ہی سچ اور اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ سفر کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔سفر بھی مختلف نوعیت کے ہیں جن میں مثلاً مذہبی سفر، ادبی سفر، تعلیمی اور علمی سفر، کاروباری یاتجارتی سفر، سیاسی سفر، شاہی سفر، جنگی سفر، مہماتی سفر، خیالی یاتصوراتی سفر، ہجرت اور تفریحی سفر وغیرہ شامل ہیں۔زیر نظر تصنیف میں کافی حد تک ان میں چند اقسام پر سفرنامے موجود ہیں۔ سفرانسانی زندگی کی ناگریز حقیقت ہے۔ سفرنامہ قوموں اور ملکوں کے حالات سے واقفیت کاذریعہ ہوتاہے۔انسان کی زندگی میں سفر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اگر سفر نہ ہو تو زندگی اکتاہٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔سفر فطرت انسانی کے اس جذبہ متحرک کا نام ہے جسے روانی، بے چینی اور تجسّس کہتے ہیں۔مصنف سفرنامہ اپنی تحریر میں جہاں سفرکے مشاہدات ،واقعات اور تجربات کوتحریر کرتاہے وہیں وہ اس میں اپنی قلبی کیفیات واحساسات کوبھی شامل کرتاہے۔سفر نامہ لکھے جانے کا بہت کچھ انحصار مسافر یا سیّاح کی مزاجی کیفیت، قوت مشاہدہ اور انداز تحریر پرہوتا ہے۔
عہد جدید میں دنیا کو دیکھنے کا ذوق بھی بیدار ہوا ہے۔ اور بڑی تعداد میں سفر نامے لکھے جارہے ہیں۔ سفر نامہ نگاروں میں اپنی بات کو کہنے کا شوق بھی بڑھا ہے۔موجودہ دور میں اس صنف کی طرف رجحان کافی بڑھا ہے۔جن میں سفرنامہ نگاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اس صنف میں بہترین طبع آزمائی کرنے والوں میں مستنصر حسین تاڑر کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔بقول شاعر:
دیکھ لے اس چمن دہر کو جی بھر کے نظیر
پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا
زیر تبصرہ سفر نامہ کے مصنف محمد ایاز کیانی ہیں جو علمی وادبی شخصیت ہیں۔تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔سفرنامہ ١۴١ صفحات پر مشتمل ہے جو پریس فارپیس فاونڈیشن یوکے پبلی کیشنز سے شائع ہوا ہے۔سرورق اورکتاب کی تزئین بہت عمدہ انداز میں کی گئی ہے۔اچھی کوالٹی کا کاغذ استعمال کیا گیا ہے جس سے کتاب میں موجود لکھت میں مزید نکھار پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں کے سفرنامے و احوال بہت شاندار انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔سفرنامہ نگار نے محض سفرنامہ ہی نہیں بلکہ ان جگہوں سے محسوس ہونے والی اپنی قلبی کیفیت کا اظہار بھی کیا ہے۔اول سفرنامہ سفرِ آغاز کے عنوان سے لکھا گیا ہے جس میں سفرنامہ نگار اپنے گھر سے نکلنے سے لے کر راولاکوٹ سے روالپنڈی تک کے احوال کو بہت تفصیلا تذکرہ کیا ہے کہ قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بھی یہ سفر کرنے میں مگن ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
“جیسےکلر کہار تک پہنچتے پہنچتے دھند نے مناظر کو کافی حد تک دھند لا دیا تھا مگر ابھی تک کھیتوں کے نظارے مکمل اوجھل نہ ہونے پائے تھے”۔
دوسرا سفر نامہ” شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد” کے عنوان سے ہے۔ مجھے یہ سفر نامہ پڑھتے ہوئے مظہر عباس کا لاہور پر لکھےخوبصورت شعر کا ایک مصرعہ یاد آگیا۔
“یہ جو لاہور سے محبت ہے”
علاوہ ازیں زیر تبصرہ کتاب کے سفرناموں میں لاہور کی تمام عمارتیں،جامعات،معروف جگہوں کااحوال اس قدر عمدہ تکنیک سے بیان کیا ہے کہ قاری کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ان جگہوں پر موجود ہے۔انارکلی،پنجاب یونیورسٹی،داتا دربار ،بادشاہی مسجد وغیرہ پر سب سفرنامے کو مصنف نے ان جگہوں کا الفاظ سے عمدہ انداز میں نقشہ کھینچا ہے جیسے پڑھنے والا انہیں جگہوں پر موجود ہو۔جیسے سفرنامہ” انارکلی ” کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ وہاں کی صورت حال سے قاری کو کافی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس جگہ پر کیسے معاملات ہوتے ہیں۔جیسے ایک جگہ مصنف لکھتا ہے کہ
” انارکلی سے داتا دربار اور مینار پاکستان کی طرف جانے والی سڑک پر ٹریفک کا اس قدر اژدھام ہےکہ اس سے برا نظام شاید ممکن نہ ہو۔”
اس اقتباس سے وہاں سڑک کے ہجوم کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیسی صورت حال ہے۔قاری اس کو بھانپ جاتا ہے۔
ایسے ایک سفر نامہ” لاہور پیچھے رہ گیا ” جس میں مصنف اپنے لاہور سے ملتان بہاولپور کے لیے جانے کے لیے گاڑی ،ٹریفک اور اس جگہ درپیش مسائل کا تذکرہ کررہا ہے۔”پھولوں کے شہر میں ” اس عنوان سے سفر نامہ پتوکی کے متعلق ہے جیسا کہ عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ پتوکی کو پھولوں کے شہر سے جاننا جاتا ہے۔اس سفرنامہ میں سفرنامہ نگار ایاز کیانی صاحب اپنے کلاس فیلو اور قابلیت پر تعین دوستوں سے کی گئی ناسٹلجیا گفتگو ہے۔”اوکاڑہ ” کے عنوان سے سفرنامے میں یہاں کے مشہور پارک کیپٹن صفدرکا احوال قابل داد ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
” اس پارک میں کئی نایاب اور پرانے درخت موجود ہیں ان میں سے بعض کی عمریں کئی سو سال تک ہیں۔پیدل چلنے والوں کے لیے ایک ٹریک بھی موجود ہے۔یہ پارک اہلیان اوکاڑہ کی تفریح کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔”
سفرنامہ ” ڈیرہ غازی خان” مختصر تاریخ پیش کرنے کے بعد مصنف نے یہاں کی قدیم عمارت کا احوال قدرے مختصر انداز میں کروایا ہے۔
ڈیرہ غازی خان پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے- یہاں کئی قابل دید سیاحتی اور تاریخی مقامات موجود ہیں-ڈیرہ غازی خان کا شمار پاکستان کے سیاحتی مقامات میں سے ہوتا ہے۔فورٹ منرو میں خوبصورت پہاڑ اور چین کی مدد سے بنایا گیا ایک خوبصورت اسٹیل پل سیاحوں کو اپنی طرف مائل کرتا ہے ڈیرہ غازی خان میں شدید گرمی کی وجہ سے کافی لوگ نقل مکانی کرکے فورٹ منرو چلے جاتے ہیں جہاں گرمیوں کا موسم گزارنے کے بعد واپس آجاتے ہیں۔یہ ایک عمدہ سفرنامہ ہے۔جس کے لیے مصنف کو داد بنتی ہے۔
بلوچستان کی طرف سفر اور پختونوں کا تذکرہ یہ سب احوال نہایت رواں انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
” پختون پاکستان کی غالباً وہ واحد قوم ہےجو ملک کے ہر شحر میں پائی جاتی ہے اور ان کی غالب اکثریت کاروبار سے منسلک ہے۔”
“لورالائی” سفرنامہ میں بلوچستان کا مختصر تاریخی احاطہ کیا گیا ہے۔یہاں کی فصل اور تعلیمی اداروں کی معلومات عمدہ انداز میں بیان کردی گئی ہے۔”قلعہ سیف اللہ” کا مختصر تذکرہ بھی نہایت عمدہ انداز میں کیا گیا ہے جو قابل داد ہے۔”ہنہ جھیل” کے عنوان سے سفرنامہ یہ جھیل کوئٹہ کی خوبصورت جھیل ہے جس کو مصنف کچھ یوں بیان کیا ہے۔
” ہنہ جھیل کے اطراف میں پہاڑ لباس سے یکسر محروم اور ننگ دھڑنگ تھے۔سبزہ نامی کسی بھی شے سے تہی دست تھے۔”
ہنہ جھیل شہر کے قریب یہ ان گنے چنے چند مقامات میں سے ہے جہاں کوئٹہ اور دیگر شہروں سے لوگ سیر وتفریح کے لیے آتے ہیں۔
“اڑک آبشار” جو کوئٹہ میں واقع ہے۔اس کا تعارفی نقشہ خوب تر کیا گیا ہے۔مصنف کا اپنے دوستوں کے ہمراہ رات گزارنا ،یہاں کے قہوے کو نوش فرمانا اور بلوچی عوام پر گفتگو وغیرہ اس سفر نامہ میں قلمبند کی گئی ہے۔بلوچیوں پر حمزہ صاحب اور مصنف کی گفتگو ملاحظہ کیجیے جس سے بلوچی افراد کا نقوش کچھ اس طرح سامنے آتے ہیں۔
” بلوچ پختونوں کی نسبت زیادہ بہادر ہیں چونکہ یہ مالی لحاظ سے پختونوں سے کمزور ہیں لہذا انہیں کچھ کھونے کا ڈر نہیں ہوتا۔”
روشنیوں کے شہر پر سفر نامے کراچی،مزار قائد ،کراچی کی قدیم ترین مارکیٹ میں، کراچی تاریخ کے آئینے میں ،کراچی کی قدیم عمارت،جدید کراچی،ملیز مارکیٹ، مسجد قبا،جامعہ کراچی وغیرہ میں تمام کراچی کی معروف جگہوں کا احوال ہے اور ان سے مصنف قارئین کو بھی سیاحت کرواتے محسوس ہوتے ہیں۔ہر شہر کے حوالے سے شعراء کے اشعار کا چناو بھی بہترین کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ شجاع آباد،مدینتہ الاولیاء،جامعہ زکریا ۔۔۔میری مادرعلمی،اوکاڑہ،اڑک آبشار وغیرہ کے عنوانات سے سفرنامے بھی موجود ہیں۔مختصر مضمون میں ان سب کا احاطہ کرنا قدرے مشکل ہے۔لیکن ان سب کے عنوان سے قارئین یہ جان سکتے ہیں کہ ان سب جگہوں کی عکاسی بہت دلنشین انداز میں ہے۔آپ خود کو ان جگہوں میں ہوتا محسوس کریں گے۔اس سفرنامے کو پڑھنے کے بعد آپ ایسا ہی محسوس کریں گے کہ آپ اسی جگہ پر موجود ہیں یہ لکھنے والے کہ قلم میں فنکاری ہوتی ہے کہ وہ سفرنامے کو کس انداز میں پیش کررہا ہے۔اگر جن افراد نے پاکستان کے خوبصورت شہروں کی سیاحت نہیں کی یا اُن کے پاس وقت نہیں تو وہ یہ سفرنامہ پڑھ لیں تو اُمید ہے آپ تمام نظارے آنکھوں کے سامنے محسوس کریں گے۔
اچھے سفرنامے کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ تمام فنی لوازم پر مبنی ہو۔اور قارئین پڑھتے ہوئے ایسے محسوس کریں جیسے وہ بھی یہ سفر کررہے ہیں یا سفر میں ہیں۔اس سفر نامے میں تقریباً تمام فنی لوازم کو بروئے کار لایا گیا ہے۔اسلوب بہت سادہ ہے۔اور مشکل الفاظ کی بھرمار بھی نہیں جس کو پڑھتے ہوئے قاری کراہٹ محسوس کرے۔شاندار اور سادہ انداز میں الفاظ کا چناو کیا گیا ہے جس سے قارئین بھرپور لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔اس سفرنامے کی خاصیت یہ ہے کہ قاری کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی اور وہ اس میں دلچسپی لیتے ہوئے ایک دو نشست میں اسے آخر تک پڑھے گا اس کی بالخصوص وجہ مصنف کے لکھنے کا انداز ہے کہ وہ قاری کو بوریت محسوس کروائے تمام شہروں کا احوال بہترین انداز میں کرواتا ہے۔المختصر،سفرنامہ نگار کے لیے داد کہ اس سفرنامے کو بہتر انداز میں پیش کرنے کا بھرپور جتن کیا اور یہ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔اس سفرنامے میں نفاست اور پاکیزگی ہے۔زبان عام فہم ہے کہ عام قاری بھی اس کو باآسانی پڑھ کر لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں علمی ،ادبی اور معلوماتی لحاظ سے بھی جاننے کو بہت کچھ تذکرہ کیا گیا ہے جس کے لیے سفرنامہ نگار کو داد بنتی ہے۔
“ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں”
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.