صائمہ عالیہ کی امی کو سمجھاتے ہوئے :”آنٹی اس کو پڑھائیں، قابل بنائیں، اپنے پیروں پر کھڑا کریں نہیں تو آگے چل کر مسائل کھڑے ہوں گے”
عالیہ کی امی:”آڑے نہیں بائی ہم نہیں پڑھتے وڑھتے” عالیہ کی امی نے سارہ کو منہ نہیں لگایا
سارہ نے اپنے دل میں سوچا “ان کا کچھ نہیں ہو سکتا”
عالیہ جو دور کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی اپنی امی کی بات پر اس کا دل اش اش کر اٹھا
عالیہ بڑبڑاتے ہوئے” ہںہ آئی بڑھی میری امی کو سمجھانے والی خود جیسے پڑھ کر بڑا تیر
مارے گی”
عالیہ:”ٹھیک ہے سارہ میں چلی سونے “
سارہ نے نفی میں سر ہلایا اور اپنے گھر چلی گئی
6 سال بعد
سارہ پڑھ لکھ کر کامیاب ڈاکٹر بن گئی اور عالیہ وہی کی وہی
ایک دن عالیہ باہر گئ کپڑے لیے تو اس کو حساب کرنا نہیں آرہا تھا جیسے تیسے کرکے اس نے حساب کیا وہ واپس جانے لگی ہی تھی کہ راستے میں دو لڑکے جن کی نظر عالیہ پر تھی ایک دوسرے کو بولے ” لگتا ہے لڑکی جاہل ہے اس کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں “
انھوں نے عالیہ کو روکا اور بولے
“باجی یہ دوائی لے لو بہت اچھی ہے اسکو کھانے سے بہت طاقت آئے گی “
انھوں نے دوائیوں کے بہت فائدے بتائے
عالیہ:”اچھا یہ بتاؤ اس کو بوڑھے لوگ بھی کھا سکتے ہیں”
لڑکے:”جی جی باجی بچہ ،بوڑھا ،جوان سب اس کو استعمال کر سکتے ہیں “
عالیہ نے ان سے دوائ لی اور گھر چلی گئی۔
کچھ دنوں بعد
عالیہ کی امی:”ہائے اللہ گھٹنوں میں درد جا کیوں نہیں رہا سارا کو کال کروں “
عالیہ: آڑے چھوڑیں سارا کو آپ یہ دوائی کھائیں بہت فائدے والی ہے “
عالیہ نے اپنی امی کو عہ دوائی دی اور اپنے کمرے میں چلی گئی
تھوڑی دیر بعد عالیہ کی امی کو اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا اور وہ بیہوش ہو کر گر گئی
عالیہ جو پانی پینے کی غرض سے کمرے سے باہر آئی تھی اپنی امی کو دیکھ کر اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی
عالیہ نے روتے ہوئے سارہ کو کال کی
عالیہ: “سسس ااارہ کہاں ہو جلدی میرے گھر آؤ ااااممی بیہوش ہو گئی ہیں” عالیہ سے بولا نہیں جا رہا تھا
سارہ نے جلدی سے اپنا بیگ اٹھایا اور عالیہ کے گھر گئ
کچھ دیر بعد سارا وہاں پہنچی اور عالیہ کی امی کا چیک اپ کیا انجیکشن لگائی تھوڑی دیر بعد ان کو ہوش آیا
سارا نے عالیہ سے پوچھا:”یہ بتاؤ آنٹی نے کیا کھایا تھا “
عالیہ نے سارا کو دوائی دکھائی جو اس نے اپنی امی کو کھلائی تھی
اس دوائی کو دکھتے ہی سارا کے اوسان خطا ہو گئے “یہ دوائی تو ایکسپائر ہے کہاں سے لی “
عالیہ سر جھکاتے ہوئے ساری بات بتائی
عالیہ اور اس کی امی کے دماغ میں سارہ کے کچھ سال پہلے کہے گئے جملے گونج رہے تھے
سارہ : کتنا سمجھایا تھا پڑھ لو پڑھ لو مگر نہیں”
عالیہ کا سر مزید جھک گیا
سارہ نے اپنی بات کو مزید جاری رکھا
“اگر پڑھ لیتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا وہ تو شکر ہے اللہ کا کہ میں گھر میں تھی اگر نہ ہوتی تو خدا نخواستہ پتا نہیں کیا ہو جاتا”
عالیہ کی امی:بیٹا صحیح کہتی تھی تم”
عالیہ اور اس کی امی دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.