حمیراعلیم
خیبرپختوانخوا پشاور سے تعلق رکھنے والی اٹھائیس سالہ صوبیہ خان پہلی ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ، نیوز اینکر، ہوسٹ اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔وہ پشاور کے ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئیں تو والدین نے ان کا نام محمد بلال رکھا۔تین بھائیوں اور دو بہنوں میں ان کا نمبر تیسرا ہے۔انہوں نے پشاور ہائر اسکینڈری اسکول نمبر 1 سے میٹرک کیا۔ایف اے کالج سے کیا۔لیکن ساتھی طالب علموں کے چھیڑنے کی وجہ سے بی اے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کیا اور اب اردو میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔وہ پچھلے پانچ سال سے ایک نجی ڈیجیٹل نیوز چینل ٹرائبل نیوز نیٹ ورک سے وابستہ ہیں۔ان کے اس مقام تک پہنچنے کی کہانی انہی سےجانتے ہیں ۔
سوال: صوبیہ مجھے بتائیے کہ آپ کے اس مقام تک پہنچنے میں آپ کے خاندان کا کتنا ہاتھ ہے؟
جواب:جب تک والدین اپنے بچوں کو سپورٹ نہیں کرتے وہ کچھ نہیں کر سکتے۔
اللہ کا فضل ہے کہ نہ صرف میرے والدین بلکہ بہن بھائیوں نے بھی مجھے بہت سپورٹ کیا۔میں خیبرپختوانخوا کی پہلی ٹرانس جینڈر ہوں جو اپنے خاندان کے ساتھ اپنے گھر میں رہتی ہوں۔
سوال: آپ کی پیدائش پر آپ کے خاندان کے ساتھ معاشرے کا رویہ کیسا تھا؟آپ کے والدین نے رشتے داروں اور دیگر لوگوں کے طنز و طعنے کیسے برداشت کیے اور آپ کو کیسے ان سے بچا کر ایک مثبت شخصیت بنایا؟
جواب: لوگوں نے میرے والدین کو بہت کہا کہ مجھے میری کمیونٹی کے پاس چھوڑ دیا جائے۔یا مجھے لڑکوں کی طرح رہنے پر مجبور کریں۔لیکن میرے والدین نے انہیں یہی کہا کہ جو کچھ ہم اپنی بیٹی میں دیکھ رہے ہیں وہ آپ نہیں دیکھ سکتے ہم اسے اس کی مزل پر پہنچا کرثابت کریں گےکہ ہماری بیٹی کتنی قابل ہے۔الحمد للہ میرے والدین، بہن بھائی دوستوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا کہ آپ نے اپنا جو ٹارگٹ مقرر کیا ہے اسے ضرور حاصل کر کے رہو۔ان کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے آج میں اس مقام تک پہنچی ہوں۔اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنے والدین کی توقعات پر پوری اترتی اور اب اپنی کمیونٹی کو بھی آگے لانے کے لیے کوشاں ہوں۔
سوال: آپ کو یہ جاب کیسے ملی؟
جواب: میں نے پڑھائی کے دوران اس جاب کے لیے انٹرویو دیا اور ٹی این این کا شکریہ کہ انہوں نے نہ صرف مجھے کام کرنے کا موقعہ دیا بلکہ میرے سنیئرز نذیر صاحب، طیب صاحب، افتخار صاحب اور اسٹاف کے وررکز مجھے اپنے بہن بھائیوں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔ نذیر صاحب نے کہا:” آپ میں قابلیت ہے اس لیے میں آپ کو ایک پروگرام دیناچاہتا ہوں ۔” مجھےیہ سن کر بے حد خوشی ہوئی۔کیونکہ مجھے بہت سے لوگوں نےمارننگ شوز اور دیگر پروگرامز میں مدعو تو کیا تھا لیکن کوئی ایسا پلیٹ فارم مہیا نہیں کیا جہاں میں کام کر سکوں۔
میں پچھلے پانچ سال سے ٹی این این پر بطور رپورٹر ، ہوسٹ، انٹریویور اور ڈاکومینٹری فلم میکر کے کام کر رہی ہوں۔ٹی این این کی وجہ سے مجھے پہچان اور شہرت ملی۔اور مجھے کے پی پولیس نے سپورٹ ڈویژن کونسلنگ کی پہلی ٹرانس جینڈر ممبر کے طور پر تعینات کیا ۔جہاں میں اپنی کمیونٹی کے مسائل حل کرتی ہوں۔
سوال: اس کے علاوہ آپ کیا کچھ کرتی ہیں؟
جواب: میں پاکستان کے وویمن ایکسچینج پروگرام کے تحت بطور ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں جا چکی ہوں۔اور اپنی کمیونٹی کے لیے اسپورٹس گالا کا انعقاد کیا جس پر مجھے بہت سے ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔ میری کارکردگی کی بنا پر مجھے پولیس ڈیپارٹمنٹ سے بھی کئی ایوارڈز مل چکے ہیں۔ٹی این این کی طرف سے بھی بہترین صحافی، میزبان، بہترین کارکردگی اور کردار کی بناء پر ایوارڈ دیا گیا ہے۔میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میری وجہ سے میری کمیونٹی کی ایک پہچان بن چکی ہے۔جہاں صرف مردو خواتین ہوتے تھیے اب میں بھی وہیں ہوتی ہوں۔جہاں ہمارا ذکر تک نہیں ہوتا تھا وہاں اب میں خود اپنی کمیونٹی کی بات کرتی ہوں۔
سوال:تنگ کرنے والے تو بہت ہوں گے۔لیکن حوصلہ افزائی والے کم ہی رہے ہوں گے۔والدین کے علاوہ کوئی ایسی ہستی جس نے اس سفر میں سب سے زیادہ ساتھ دیا ہو؟
جواب: جی ہاں میرے دوستوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔
سوال:آپ کے نزدیک آپ کی کمیونٹی کو کیا مسائل ہیں اور ان کے حل کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کریں گی؟
جواب:معاشرہ ہمیں ویسے ٹریٹ نہیں کرتا جیسے مردو خواتین کو کرتا ہے۔سب سے پہلے تو والدین ہی ہم سے لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں۔ہمیں گھر میں نہیں رہنے دیتے۔ہر محکمے میں مردو خواتین پائے جاتے ہیں لیکن ہماری جگہ نہیں ہوتی۔جب بھی نوکری کا کوئی اشتہار آتا ہے تو صرف مردو خواتین کا ذکر ہوتا ہے ہمارا نہیں۔ایسے میں ہماری کمیونٹی کے لیے ناچنے گانے یا بھیک مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔جب تک خاندان والے اورحکومت ہمیں سپورٹ نہیں کریں گے ان کے لیے ہر محکمے میں کوٹا مختص نہیں کیا جائے گاتب تک ہم بھیک مانگتے رہیں گے۔
ایجوکیشن کے حوالے سے بھی ہمیں بہت مسائل کا سامنا ہے۔اگر ہم لڑکوں کے اسکولز میں جائیں تو وہ تنگ کرتے ہیں اور لڑکیوں کے اسکولز میں جائیں تو وہ بھی قبول نہیں کرتیں۔
ہمیں صحت کے بھی مسائل ہوتے ہیں۔ہاسپٹلز میں مردو خواتین کے وارڈ تو ہیں لیکن ہمارے نہیں۔جب کوئی ٹرانس جینڈر بیمار ہوتا ہے تو اسے مرد و عورت کے وارڈز میں گھماتے رہتے ہیں۔لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں اور ہم سے سوال کرتے ہیں :” کیا آپ بھی بیمار ہوتے ہیں؟ کیا ہم انسان نہیں ہیں؟ کیا ہم بیمار نہیں ہو سکتے؟
اگر ہم کوئی بزنس کرنا چاہیں دکان کھول لیں تو لوگ ہمیں کام نہیں کرنے دیتے۔
ہمیں ہر جگہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ہم سے غیر فطری تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہمارے تحفظ کے لیے کوئی کچھ نہیں کرتا۔اگر ہم پر حملہ ہو یا ہمیں قتل بھی کر دیا جائے تو کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔
سوال:صوبیہ جیسے کہ آپ نے کہا لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں ٹرانس جینڈر لوگ صرف بھیک مانگ سکتے ہیں یا رقاص بن سکتے ہیں۔ایسا کیوں ہے کہ ہم دنیا بھر کے پیدائشی ٹرانس جینڈرز کے اندر ویسی کوئی خاصیت نہیں پاتے جیسی کہ ہمارے ہاں ان سے خاص کر دی گئی ہےجیسے کہ ٹرانس جینڈر ضرور ہی خواتین والا لباس پہنیں گے، میک اپ کریں گے، تالیاں پیٹیں گے اور ڈانس کریں گے؟
جواب:والدین کو بچے کی پیدائش کے وقت ہی علم ہو جاتا ہے کہ بچہ ٹرانس جینڈر ہے ۔جوں جوں وہ بڑا ہوتا ہے والدین جان جاتے ہیں کہ یہ کیا چاہتا ہے کیسے رہنا چاہتا ہے، کپڑے پہننا چاہتا ہے۔تو میرے والدین کو بھی علم ہو گیا لیکن بجائے مجھے میری کمیونٹی کے ڈیرے پر چھوڑنے کے انہوں نے مجھے قبول کیا۔میں جو چاہتی ہوں ویسا کرتی ہوں۔گھر اور آفس میں لڑکیوں کی طرح رہتی ہوں لڑکیوں والا لباس پہنتی ہوں۔ ہماری روح عورتوں کی طرح رہنا چاہتی ہے تو ہم ویسے ہی رہتے ہیں۔
سوال:اس بات سے مجھے ٹرانس جینڈر لاء یاد آگیا۔چونکہ آپ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور اس لاء سے واقف ہیں تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ یہ لاء آپ کی کمیونٹی کے حق میں ہے یا ان لوگوں کو سپورٹ کرتا ہے جو مرد و عورت ہو کر جینڈر تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟
جواب: اس لاء میں بہت سی باتیں ہمارے حق میں ہیں جیسے کہ جائیداد میں حق، نادرا سے کارڈ، سرکاری محکموں میں جاب وغیرہ۔مجھے خوشی ہے کہ پیدائشی ٹرانس جینڈرز کو یہ حقوق مل رہے ہیں۔لیکن میں اس کے حق میں نہیں کہ مرد عورت بنے یا عورت مرد بنے۔اور اس کے لیے سرجری کروائے اور جنس تبدیل کروائے
سوال: کیا کبھی آپ کے والدین نے یا آپ نے سوچا کہ سرجری کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کر لیں؟
جواب: جی نہیں۔ نہ تو میرے والدین نے کبھی مجھے ایسا کچھ کہا نہ ہی کبھی میں نے سرجری کا سوچا۔میرے خیال میں جسے اللہ تعالٰی نے جیسا پیدا کیا ہے اسے ویسا ہی رہنا چاہیے۔
سوال: کوئی ایسا تکلیف دہ واقعہ بتانا چاہیں گی جو آپ کو آج تک نہ بھولا ہو؟
جواب:ایک رات جب میں گھر واپس جا رہی تھی تو راستے میں چند لوگوں نے مجھے روکا اور ہراساں کیا ۔میرے چیخنے چلانے پر مجھے مارا، کپڑے پھاڑ دئیے اور بال کاٹ دئیے۔میرے والدین کو میری حالت دیکھ کر اتنا صدمہ ہوا کہ میری والدہ ڈپریشن کے باعث چار دن ہاسپٹلائزڈ رہیں۔والد نے حملہ آوروں کے خاندان سے بات کی تو انہوں نے کہا:” آپ کا بیٹا تو ہیجڑا ہے۔جب یہ اس طرح گھومے گا تو اس کے ساتھ لوگ ایسا ہی سلوک کریں گے۔ہمیں باتیں کرنے کی بجائے اپنے بیٹے کو سمجھاو۔”اس بات سے مجھے بہت دکھ ہوا۔یہ واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔حالانکہ اب جب بھی میں اس علاقے میں جاتی ہوں تو لوگ میری بہت عزت کرتے ہیں لیکن اس واقعے کو یاد کر کے میں کانپ جاتی ہوں۔میرے ایک دوست نے اس وقت میرا بہت ساتھ دیا اور مجھے سمجھایا کہ ان لوگوں کا مقصد ہی یہی ہے کہ تم اپنے خاندان اور ایجوکیشن کو چھوڑ کر اپنی کمیونٹی کے ڈیرے پر چلی جاو۔ایسے لوگوں کا مقابلہ کرو۔آپ کی زندگی میں ایسی باتیں ہوتی رہیں گی انہیں نظر انداز کرو اور اپنی ایجوکیشن پر توجہ مرکوز کرو۔
سوال: آپ لوگوں خصوصا اپنی کمیونٹی کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: میری کمیونٹی میں اب ڈاکٹر، وکیل، اینکر اور سرکاری افسر بھی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ سب کمیونٹی کے ڈیروں پر رہتے ہیں اپنے خاندان کے ساتھ اپنے گھروں میں نہیں۔انہیں باعزت مقام اس وقت ملے گا جب یہ اپنے گھروں میں ہوں گے۔ورنہ لوگ انہیں برے القابات سے ہی پکاریں گے۔
میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے ٹرانس جینڈر بچوں کو قبول کریں اور سپورٹ کریں ۔جب آپ انہیں قبول کریں گے تو وہ کسی مقام ہر پہنچ پائیں گے اور معاشرہ بھی انہیں قبول کرے گا۔ جب والدین انہیں نظر انداز کرتے ہیں تو معاشرہ بھی انہیں فٹ بال کی طرح ٹریٹ کرتا ہے۔
میں صدر، وزیر اعظم اور اپنے علاقے کے منسٹرز سے درخواست کرتی ہوں کہ میری کمیونٹی کو بھی مواقع دئیے جائیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں اور تمام محکموں میں ہمیں بھی کوٹا دے۔ہاسپٹلز میں ہمارے لیے بھی وارڈز بنائے جائیں۔ڈاکٹرز ہمیں ٹرانس جینڈر نہیں بلکہ انسان سمجھ کر ٹریٹ کریں۔
اساتذہ اگر بچوں کو آگاہی دیں گے کہ مردوعورت کے علاوہ ایک تیسری جنس بھی ہے اور ان کے ساتھ نارمل سلوک کرنا چاہیے تو بچوں میں شعور پیدا ہو گا اور ان کی سوچ بدلے گی۔ان کی نظروں میں ہمارے لیے جو تضحیک ہوتی ہے وہ نہیں ہو گی۔
اور اپنی کمیونٹی کو میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر میں کسی مقام پر پہنچ سکتی ہوں تو آپ کیوں نہیں۔آپ میں بھی صلاحیتیں ہیں آپ بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔لوگوں کا کیا ہے وہ تو مرد اور عورت کو بھی باتیں سناتے ہیں۔ان کی باتوں کو نظر انداز کریں تبھی آپ کچھ کر سکیں گے۔اپنی تعلیم پر توجہ دیں اور کسی مقام پر پہنچیں۔جیسے میں نے اپنی کمیونٹی کے لیے لوگوں کا نظریہ تبدیل کیا ہے آپ بھی ایسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کریں۔
سوال: کیا آپ اپنے کام سے مطمئن ہیں؟
جواب: جی ہاں۔ جب مجھے بیرون ملک مدعو کیا جاتا ہے اور یہ کہہ کر اسٹیج پر بلایا جاتا ہے’ پاکستانی ٹرانس جینڈر صوبیہ خان’ تو مجھے فخر ہوتا ہے کہ میں اپنے ملک کی نمائندگی کر رہی ہوں اپنے ملک کا نام روشن کر رہی ہوں۔لیکن تھوڑی مایوسی بھی ہوتی ہے۔کہ جیسے مجھے مواقع ملے اور میں اس مقام تک پہنچی ہوں اگر میری کمیونٹی کے دوسرے لوگوں کو بھی یہ مواقع ملیں تو وہ بھی ضرور اپنے ملک کے لیے کام کریں گے۔
سوال: آپ فارغ وقت میں کیا کرتی ہیں؟
جواب: میری کمیونٹی کے لوگ میک اپ میں بہت دلچسپی لیتے ہیں تو مجھے بھی میک اپ کا شوق ہے۔اور میں اتنا اچھا میک اپ کرتی ہوں کہ میری کزن اور محلے کی خواتین شادی یا کسی اور تقریب پر میری والدہ سے کہتی ہیں کہ صوبیہ سے کہیں ہمارا میک اپ کر دے۔میرے خیال میں اگر میری کمیونٹی کے لوگوں کو میک اپ کی ٹریننگ دی جائے تو وہ بہترین میک اپ آڑٹسٹ بن سکتے ہیں اور باعزت روزگار بھی کما سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ میں سوشل ورک بھی کرتی ہوں۔جیسے کہ اس رمضان میں بھی میں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کئی لوگوں کو راشن مہیا کیا ہے۔
سوال: آپ کی کوئی خواہش ہے جسے آپ پورا کرنا چاہتی ہیں؟
جواب: میں چاہتی ہوں کہ میں ماسٹرز کروں اور اگر مجھے سرکاری نوکری مل جائے تو میں خوش ہوں گی۔کیونکہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے اچھی جاب ملے۔تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اچھی نوکری مل جائے اور اگر مجھے یہ نوکری نہ ملی تو میری کمیونٹی کے لوگوں کے حوصلے پست ہوں گے اور وہ یہ سوچیں گے کہ صوبیہ نے اتنی محنت کی اسے صلہ نہیں ملا تو ہمیں کیا ملے گا۔اس لیے میری خواہش ہے کہ مجھے سرکاری نوکری مل جائے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.