مصنفہ سے مکالمہ:

مایہ ناز افسانہ نگار، کہانی کار اور آپا قانتہ رابعہ کا انٹرویو

مصنفہ آپا قانتہ رابعہ
مصنفہ آپا قانتہ رابعہ

ہماری آج کی مہمان بہت محترم بہت سینئر اور بہت معروف افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں،ادب اطفال کے لیے بھی آپ کی خدمات بہت اعلی ہیں ۔ حال ہی میں آپ کی بچوں کے لیے ایک کتاب  کو تسنیم جعفری ایوارڈ ملا ہے آئیے ان منفرد نام اور کام والی ہم سب کی پسندیدہ مصنفہ آپا قانتہ رابعہ کے بارے میں مزید جانتے ییں۔

بسمہ تعالٰی

نام ؟

قانتہ رابعہ

تعلیم؟

بی اے

تاریخ پیدائش؟

تیرہ چودہ نومبر کی درمیانی رات

فیملی سٹیٹس 

الحمد للہ پانچ بچے ہیں۔

چاروں بیٹیوں کی دوران تعلیم شادی کردی تھی بیٹا سب سے چھوٹا ہے اور لاہور یو ایم ٹی میں زیر تعلیم ہے۔

۔۔مہارت کا دعوٰی تو نہیں کیا جاسکتا ہاں میرا تعارف قلم ہے جس سے بچوں کے لیے کہانیاں افسانے بلامبالغہ سینکڑوں کتب پر تبصرے کالم بلاگز اور سفرنامے تخلیق ہوئے

اس کے علاوہ میری شناخت میری قرآن فہمی کی کلاسز ہیں۔

۔۔۔۔ادبی سرگرمیاں  اب تو زیادہ تر سوشل میڈیا سے وابستہ ہوچکی ہیں وگرنہ ادب اطفال اور فن افسانہ نگاری پر مختلف اداروں اور یونیورسٹیوں میں لیکچر ہوا کرتے تھے اب آن لائن ہوتے ہیں۔

۔۔ایوارڈ

آپا قانتہ رابعہ کے لیے اعزاز امتیاز
آپا قانتہ رابعہ کے لیے اعزاز امتیاز

میرے لئے سب سے بڑا اعزاز اور ایوارڈ میرے قارئین کی محبت ہے جب مجھے بچے ان کی مائیں یا لڑکیاں میری کہانیوں کے بارے میں اپنی رائے دیتی ہیں میں اس کو لفظوں میں ظاہر نہیں کرسکتی

اکادمی ادبیات اطفال کی طرف سے الحمد للہ کئی سال سے قومی اہل قلم کانفرنس میں ایوارڈ ملے ہیں

تسنیم جعفری ایوارڈ بھی دو تین کتب پر مل چکاہے

اس کے علاوہ پریس فار پیس لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، شیلڈز

ابن آس فن اور شخصیت نگاری پر پی ایف پی ایوارڈ

آل پاکستان رائٹرز ایوارڈ

حریم ادب بیسٹ رائٹرز ایوارڈ

الطاف حسین حالی ایوارڈ

الوکیل ایوارڈ

ایف جے ایوارڈ گولڈ میڈل کے علاوہ بھی درجنوں ایوارڈ شامل ہیں

۔۔لکھنا بہت کم سنی میں شروع کیا اور لطیفے پہیلیاں اقوال زریں کے ذریعے شروعات کیں پھر تیرہ چودہ سال کی عمر میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں اور کلاس نہم میں باقاعدہ افسانے اور انشائیے لکھے۔

محرک کی داستان بہت مرتبہ سنا چکی ہوں میرے نانا برصغیر کے بہت مشہور و معروف حکیم تھے جن کی کتب کی تعداد سو سے زائد اور دنیا کی بیشتر زبانوں میں ان کے تراجم ہوچکے ہیں میرے والد ان کے داماد ہونے کے ساتھ بھانجے بھی تھے جب میرے نانا کا 2، دسمبر 1974ء میں انتقال ہوا تو میرے والد نے چھوٹی بحر میں ان کی یاد میں نظم لکھی اور میرے نام سے نور رسالے میں شائع کروائی جس کے ایک دو شعر مجھے اب بھی یاد ہیں۔

کیسے تھے اچھے نانا ،

کیسے تھے پیارے نانا

جنت میں ان کو یارب

اچھا ملے ٹھکانہ

بس اپنا نام کسی رسالے میں شائع ہوا دیکھنا میرے لئے بے حدوحساب خوشی لایا۔

خوشی سنبھالے نہ سنبھلتی تھی بس کبھی کچھ کبھی بھیجنے کا سلسلہ ایسا شروع ہوا جس میں وقفے تو آئے لیکن تادم تحریر جاری ہیں۔

۔اچھا ادیب اچھا شہری ہو اچھے مثبت انداز میں معاشرے کی اصلاح کا علمبردار ہو ہم لوگ نظریاتی ہیں اور

ادب برائے زندگی

زندگی برائے بندگی کے قائل ہیں

میرا ایمان ہے کہ قلم کی اللہ نے قسم کھائی ہے تو ہم قلمکار اس قلم کے لکھے کے امین ہیں۔

میری شعوری اور لاشعوری طور پر ہمیشہ ایسا لکھنے کی کوشش کی جس کے لفظوں یا مفہوم۔ میں ابہام نہیں ہو  فحش کے زمرے میں نہ آئے۔

باقی رہی بات آج کا ادیب اپنے فرائض ادا کر رہا ہے یا نہیں  تو صورت حال کبھی بھی مکمل طور پر نہ بہت بری رہی ہے نہ بہت اچھی جو مقصد حیات سے آگاہ ہیں وہ تکمیل میں مصروف ہیں جن کے نزدیک لکھنا لکھانا محض شوق عیاشی قسم کی چیز ہے یا قواعد و ضوابط کا نہیں علم وہ کیا کر رہے ہیں۔ خود جانتے ہیں۔

۔۔آبائی شہر

جہانیاں منڈی

موجودہ گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ

۔۔پسندیدہ شعر نظم وغیرہ 

پسند تو حالات کے حساب سے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

غم کی فضا میں کوئی بندہ بشر مزاحیہ شعر پڑھنا پسند نہیں کرتا اور خوشی کے عالم میں کوئی سوگ اور تعزیتی نظمیں یاد نہیں کرتا تاہم اقبال کی شاعری پسند ہے اس کے علاوہ اقبال عظیم سلیم احمد نعیم صدیقی مرحوم کی شاعری نیا ولولہ عطا کرتی ہے۔

۔۔پسندیدہ مشغلہ 

دیکھیں شوق اور مشاغل تو ہرکسی کے ہوتے ہیں اور دوسروں سے الگ ہوتے ہیں اچھی کتب کے مطالعہ کو اگر آپ مشغلہ قرار دیتی ہیں تو پورے خاندان میں شاید ہی کتب کے انتخاب اور مطالعہ میں مجھ سے آگے ہو میرے ہر کمرے ڈرائنگ روم لاؤنج میری کپڑوں کی الماریوں میری استری کی میز تک میں کتب رکھی ہوئی ہیں حالانکہ میں کتب برابر تقسیم کرتی رہتی ہوں پھر بھی یہ وہ رزق ہے جس میں دن دوگنا اور رات چوگنا اضافہ ہی ہوا ہے

لیکن کتب سے ہٹ کر دیکھا جائے تو شادی سے قبل مجھے بیرون ممالک کی کرنسی ، ٹکٹیں اور سووینئر جمع کرنے کا بے حد شوق تھا بھائی ائرفورس میں پائلٹ تھے جہاں جاتے وہاں کا سکہ ٹکٹیں اور سووینئر ضرور لاتے تاہم مجھے سردیوں میں اون سلائیوں سے سویٹر بچوں کے اونی سیٹ بنانا بہت پسند ہے میرے خاندان اور عزیز و اقارب میں شاید ہی کوئی بچہ ایسا ہو جس نے میرے ہاتھ سے بنا اونی سیٹ نہ پہنا ہو

شادی سے قبل کڑھائی کا بھی بہت شوق تھا

اب بھی وقت ملے تو بہت سے شوق پالے ہوئے ہیں

درس و تدریس اور قرآن فہمی کی کلاسز کی وجہ سے حلقہ احباب بہت وسیع ہے الحمد للہ گھر میں ان کی آمد اور خاطر تواضع کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے

۔۔پسندیدہ اقوال تو بہت سے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے اکثر مستند نہیں ہوتے احادیث کو جوامع الکلم کیا جاتا ہے ان میں سے بیشتر بہت پسند ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اقوال وغیرہ وغیرہ

۔۔خواب 

خوابوں سے میری بچپن سے شناسائی ہے۔

ابن سیرین کو پڑھا ہوا ہے اس لئے علم الرویآء کے بارے میں علم ہے میرے نانا اور والد معبر تھے یعنی تعبیر بتاتے تھے یہ کسبی علم نہیں ہے بلکہ فوری ذہن میں آنے والا علم یے خوابوں کے بارے میں میرے پاس بتانے کو اتنا کچھ ہے کہ لکھنے بیٹھوں تو کئی نشستوں میں ممکن ہو تاہم حدیث مبارکہ میں ہے کہ خواب ایک پرندہ ہے جب تک کسی سے بیان نہیں کیا جائے اس کی تعبیر واقع نہیں ہوتی اور جب بیان کردیا جائے تو یہ قابو میں اجاتا ہے یعنی تعبیر ہوجاتی ہے۔

بہت سی یادیں اور واقعات ہیں کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔

ایک دو واقعات ضرور گوش گزار کرنا چاہوں گی:

میں نے خواب میں ایک میدانی علاقہ دیکھا جس میں ایک طرف دریا اور دوسری طرف کھیتوں کا وسیع سلسلہ ہے اتنے میں جہاز قلابازیاں کھاتا ہوا نیچے گرتا ہے

میں یہ خواب اپنے والد کو  سنا کر فارغ ہوئی تھی کہ صدر ضیاء الحق کے جہاز کریش ہونے کی اطلاع ملی اور جب ٹی وی فوٹیج دیکھی تو بستی لال کمال کا وہی نقشہ تھا جو خواب میں دیکھا۔

اسی طرح خواب میں ایک لڑکی کو دیکھا جو عرب ہے اور مجھے اپنا نام ،،لئی لا،،(جسے ہم لیلی کہتے ہیں ) بتاتی ہے حقیقت میں بھی ایسا ہی دیکھا مسجد نبوی کی لائبریری میں عرب لڑکی جو شاید لائبریرین تھی میں نے نام پوچھا تو بڑی ادا سے بولی

لئی لا

خیر ایسے تو بے شمار واقعات ہیں۔

۔۔مقصد حیات 

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی

میں اسی لئے مسلمان میں ادیب لئے ہوں غازی

اللہ کرے میرے قلم اور  قرآن فہمی کے لئے کی گئی کوششیں میرے مقصد حیات کی گواہی بن جائیں

۔۔پسندیدہ کتاب

اگر تو کسی انسان کی تصنیف کی ہوئی کتاب مراد ہے تو وقت اور حالات کے ساتھ پسند بدل جاتی ہے۔

کہتے ہیں دل کا موسم اچھا ہو تو سارے موسم اچھے ہیں اسی طرح کتب خواہ سفرنامے ہوں یا آپ بیتیاں ناول ہوں یا طنز ومزاح پر مشتمل یہ پڑھتے ہوئے عمر بیت گئی لیکن اگر آپ الہامی کتاب کو اس درجہ بندی میں شامل کرتی ہیں تو جواب ایک ہی ہے وہ ہے قرآن:

قرآن کو جب تک صرف تلاوت کی کتاب سمجھتے رہیں گے آپ ثواب کے حصول میں کوشاں رہیں گے لیکن جب قرآن کو حالات حاضرہ پر منطبق کرکے پڑھیں گے تدبر اور تفکر کی گہرائیوں میں جائیں گے ۔آپ پر قرآن کے نئے سے نئے مفہوم آشکار ہوں گے مثال کے طور پر کل میں نے آرمی چیف کی پوسٹ والمغیرات صبحا  کی تفسیر میں گھوڑوں سے مراد جنگی میزائل اور جنگی طیارے مراد ہے۔

اور گھوڑے کی ٹاپوں سے مراد جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا اور چنگھاڑتے ہوئے جنگی جہاز مراد ہیں۔۔واللہ پورا قرآن قیامت تک کے لئے کتاب ہدایت ہے اور ہر مرتبہ نیا مفہوم سامنے آتا ہے

۔۔۔پسندیدہ شخصیت

کیا ایک مسلمان کے لیے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بھی آئیڈیل شخصیت ہوسکتی ہے؟

جن لوگوں یا شخصیات سے ہم متاثر ہوتے ہیں وہ زندگی کے ہر شعبے میں ممکن ہی نہیں دو پہلو کسی کے مثالی یوں گے تو دو خفیہ گوشے ایسے بھی بے نقاب ہوں گے کی سارا بت دھڑام سے گڑ جائے گا

مائیکل ایچ ہارٹ کی دی ہنڈرڈ جس نے پڑھی ہوگی  وہ میری اس بات سے ضرور متفق ہوگا

۔۔بچپن عام بچوں سے اچھا ہی تھا میرے نانی کی وفات ہوئی تو نانا نے دوسری شادی کی ان کا بھی انتقال ہوا تو دو اور کیں یوں بچپن میں کھیلنے کے لئے ہمیں اپنی عمر کے ماموں خالائیں  چچا زاد بہنیں پھوپھو زاد ماموں زاد وغیرہ وافر مقدار میں میسر تھے۔

ہم نے بچپن میں ہر وہ کھیل کھیلا جس کا آج بچوں کو نام بھی نہیں معلوم۔۔۔ہم نے تعلیمی تاش کھیلے بہت چھوٹے بچوں کے لئے دو حرف پھر سہہ حرفی چہار حرفی حروف بنانا نئے سے نئے لفظوں کی تشکیل لغات پھرولنا۔۔۔گرمیوں کی چھٹیوں میں نانا  ابو کے اوپر والے مکان میں سکول سکول کھیلنا

خالائیں اور بازیاں ٹیچرز ہوتیں جبکہ ہم شاگرد

آپ یہاں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میری کلاس فیلوز میں میری ماموں زاد پھوپھی زاد بہن کے علاوہ امی اور ابو کی تین فرسٹ کزنز شامل تھیں ذہن اللہ نے سب کو اچھا دیا گھروں کے ماحول میں پڑھنا پڑھانا لازمی تھا تو ممکن نہیں تھا کہ کلاس میں کوئی اور بھی پوزیشن لے سکتا ہے۔

۔۔۔۔ادب اطفال کے لئے بہت منظم اور مزید بہتر کام کی گنجائش ہمیشہ موجود رہی ہے۔

بچوں کے لئے سینکڑوں ادیب لکھتے ہیں لیکن بچوں کو پڑھنے کی طرف کیسے مائل کیا جائے کیسے موبائل فون کی بجائے ان کے ہاتھوں میں کتاب پکڑائی جائےوہ کون سی دلچسپ ایکٹیویٹیز ہوں کہ بچہ نہ صرف رسالوں اور کتابوں کا انتظار کرے بلکہ پڑھنے کے بعد دوسروں کو بھی حاصل مطالعہ میں شریک کرے۔

میں اپنے بچپن سے پی چونکہ مطالعہ کی عادی ہوں مہینے کی پہلی تاریخ بعد میں آتی تھی اور رسالے اس سے بھی پہلے شروع ہو جاتے تھے تووجہ یہی ہے کہ میرے والدین اور بڑوں کو مطالعہ کا شوق تھا۔

دوسرا اچھی تحریر پڑھنے کے بعد سب اس پر تبصرہ کرتے آج اگر بچوں میں مطالعہ کا رجحان کم ہورہا ہے تو گھر کے بڑے افراد اپنا جائزہ لیں۔

ایک یہ کہ مدیران ان بچوں کو جو لطیفے پہیلیاں وغیرہ بھیج کر رسالے میں حاضر ہوتے ہیں کو کم اہم نہ سمجھیں ان سے کام لیں۔

اگلا مرحلہ پہلی تحریر کے عنوان سے ہر رسالے میں ہونا چاہئیے ان بچوں کو جو  پہلی تحریر بھیجتے ہوئے جھجھکتے ہیں ، انھیں ایک پلیٹ فارم میسر ہو۔

اچھے لکھاری کے لئے ہی ایوارڈ نہ ہو اچھے قارئین کے لئے بھی انعامات رکھیں۔

۔۔ادیب نگر متفرق ادبی سرگرمیوں کے لئے فعال گروپ ہے میں اس کے تمام ایڈمنز کو مبارکباد پیش کرتی ہوں اور اس کے شرکاء اور منتظمین کے لئے دعاگو ہوں

بہت شکریہ پیاری تسنیم آپ واقعی خلوص دل سے ادب اور ادیبوں کے لئے کوشاں ہیں جزاک اللہ۔

یہ انٹرویو  ادیب نگر گروپ  کے شکریے کے ساتھ  اس ویب سائیٹ پر شائع کیا جارہا  ہے۔

پریس فار پیس کی شائع کردہ آپا قانتہ رابعہ کی کتب
پریس فار پیس کی شائع کردہ آپا قانتہ رابعہ کی کتب

 


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content