افسانہ نگار : اسما حمزہ
شہر بارونق کی معروف شاہرہ پر واقع اس بیش قیمت کیفے کی روف ٹاپ پر ہم دوستوں کے اجتماع کا اہتمام تھا. وبا کے باوجود وسیم کی شاندار پروموشن قرار پائی تھی اسی خوشی میں اس کے ہزاروں روپے دوستوں میں ‘ٹریٹ’ کے نام پر لٹانا تو بنتا تھا.
میں بھی وقت پر اہتمام کے ساتھ قریبی ‘جے ڈاٹ’ سے ‘مسک’ پیک کروا کر زینے چڑھنے لگا.
بفے کے بارے میں کوئی بات اچھی ہو نہ ہو یہ تو ماننا پڑے گا کہ اچھے خاصے ‘پاکستانی’ بندے کو بھی وقت کی پابندی کروا دیتا ہے.
شام کا پرفسوں وقت ہے، دوست یاروں سے علیک سلیک کے بعد میں نے نشست سنبھال لی. بوفےکے آغاز میں کچھ وقت باقی ہے. چنانچہ اپنی ازلی عادت سے مجبور میں نے اس دلفریب کیفے کے پرتعیش آرکیٹیکچر سے نظریں ہٹا کر قدرت کے رنگوں سے آنکھیں سینکنے کو ترجیح دی ہے.
گلابی و نارنجی رنگوں کے امتزاج سے مزین آسمان بڑی الفت سے بانہیں پھیلائے تمام مخلوقات پر مہربان ہے. مغرب کی جانب سست روی سے رواں آفتاب گو کہ وہ قوت نہیں رکھتا جو کچھ گھنٹوں قبل اس کو ناقابل تسخیر بناتے تھے البتہ اب بھی اس کی مثال اس حسینہ عالم جیسی ہے جو ڈھلتی جوانی میں بھی پر شباب رہے. یہ سارے پرندوں کا اڑان بھرنا تو محض بہانہ ہے، دراصل قدرت کی صناعی کا طواف مقصود ہے.
اسی منظر سے محظوظ ہوتے دھیرے دھیرے میں پیراپٹ وال یعنی چھت کی دیوار تک پہنچ گیا ہوں.
الفاظ متضاد بچپن میں پڑھے ہیں آپ نے؟ زندگی کے متضاد کا عملی نمونہ میں نے اس شام دیکھا.
پرتعیش کیفے کی چھت پر کھڑا میں روڈ کے اس پار بنے ظلمت زمان کی چغلی کھاتا، اداسی میں ڈوبا مکان دیکھ رہا ہوں جس کے برآمدے میں کھڑی ہی وہ.
یہاں دیواریں ‘میٹ انیمل’ کے ساتھ خوشنما قمقموں کا لباس اوڑھے ناز سے مسکرا رہی، وہاں پیلے، اکھڑتے پلستر کو سنبھال سنبھال کر پہناوا بچانے کی تھکان سے ہلکان اداس درودیوار کھڑی ہیں.
الگنی پر ٹنگے اکیس کپڑے نہ صرف اس مکان میں بسنے والے مکینوں کی زبوں حالی کا پتہ دیتے ہیں بلکہ ان کی تعداد بھی بتلائے دیتے.
اتفاق سے جھاڑو کے شڑاب شڑاب سے خود ہی لطف اندوز ہوتی اس لڑکی کی نگاہ مجھ پر پڑتی ہے. عین اسی لمحے وسیم کا بآواز اعلان ‘آجا یار بفے تیرے انصاف کے انتظار میں ہے’ مجھے حال میں واپس لاتا ہے.
نیم دلی سے چلتے ہوئے قدم پھیر کر میں اشتہا انگیز خوشبوؤں کی جانب بڑھتا ہوں. انواع و اقسام کے خوان سے اپنی پلیٹ مزین کر کے میرے قدم آرام دہ صوفے کے بجائے وہیں بڑھنے لگتے ہیں.
جامنی کرتے اور نارنجی شلوار کے ساتھ سر پر ملگجا سا کتھئ دوپٹہ باندھے وہ لڑکی اور وہ اکیس کپڑے اب موجود نہیں.
قریب ہے کہ مایوس ہو کر پلٹ جاؤں. اطمینان سے ‘شیشہ’ کے سٹہ لگاتے یاروں کے بیچ الفریدو پاستہ شان بے نیازی سے منہ کے حوالے کر کے بے ہنگم سا قہقہہ لگاؤں. اتنے میں روڈ کے پار اٹھتے زندگی سے بھرپور قہقہوں کا دھیما سا شور مجھ تک پہنچتا ہے. اسی برآمدے میں چھ چھوٹے بڑے بچے اکیس کپڑوں کا بوجھ بانٹے، بوسیدہ لباس مگر کھلکھاتے چہروں کے ساتھ بھاگ رہے ہیں .
شاید کسی سے بچ رہے ہیں. اتنے میں وہی لڑکی جھاڑو کو ہنٹر بنائے ہانپتی کانپتی بچوں کے پیچھے آتی ہے. انداز سے لگتا ہے اس شرارت کا زبردست بدلہ لینے والی ہے.
بچے بھی سہم کر ایک کونا پکڑ چکے ہیں.
لڑکی ان کے سر پر پہنچ جاتی ہے اور اسی جھاڑو کی نوک سے یہ یکایک ایک کو گدگداتی ہے. ہنسی کا ایک طوفان ہے جو برآمدے کی حدوں کو توڑ کر اس پر فسوں ماحول تک پہنچ رہا ہے.
اب لڑکی دوپٹے کا پلو کھولتی ہے. غالباً تافتان کے کچھ باسی ٹکڑے پلوں کی آغوش میں پنہاں ہیں. اس نے ان ٹکڑوں کو مزید حصوں میں تقسیم کیا ہے اور چھ بچوں کے ہاتھوں میں تھما دیا ہے.
تافتان کا ٹکڑا پا کر وہ بچے جس طرح اچھلے اور لپک کر لڑکی کے گلے لگ گئے وہیں میرا کیسیڈیا Quesadilla تک جاتا ہاتھ رک گیا ہے. اچانک زور کی کھانسی آتی ہے. شاید حلق میں مچھلی کا کانٹا پھنس گیا ہے.
تکلیف سے آنکھوں میں پانی بھر آیا ہے لیکن اس دھند کے پار بھی میں اس لڑکی کی آنکھوں کے کنارے جمے پانی کی بوندوں کو دیکھ سکتا ہوں جو بے تحاشہ ہنسنے کے باعث ٹھہر گئے ہیں.
مجھے پانی کی ضرورت ہے. میں پلٹ جاتا ہوں.
ویٹر نے میری تکلیف بھانپ لی ہے. میرے ٹیبل تک پہنچنے سے قبل ہی ‘پیچ مارگریٹا’ کا خوبصورت جام محو انتظار ہے.
پیچھے سے کھلکھلاہٹوں کی آوازیں اب بھی آ رہی ہے.
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Ek khoobsorat tehreer, jo ikhtetam tak parhne wala ki dilchaspi barqarar rakhe
What a great writing skill you have; i have became your big fan. More power to you!