آرسی رؤف
ہم خوابوں کے مسافر ہیں
ہر روز نیا خواب بنتے
اس کی تعبیر میں سرگرداں
یہ بھول جاتے ہیں
کاتب تقدیر نے جو لکھ دیا ہے
وہی ملے گا
پھول جس کے پودے کا تخم
رب نے بویا ہے
بس وہی کھلے گا
لیکن خواہشیں تو
ابلق بے لگام کی صورت
سر پٹ دوڑتی من میں آ سمائیں
اور تار عنکبوت بن کر
دل کے وسط میں
جال بچھائیں
پھر جو من الجھا رہے
بے لگام ہو کر
اس میں تو
خواہشوں، آرزوؤں کی یہ مکڑی
اپنے تانے بانے میں پھنسا کر ماردیتی ہے
ہاں مگر
جب سیکھ جائیں ہم
ان کو درست سمت دےدینا
یہی تو پار لگاتی ہیں
ریشمی خیالوں کی ڈور
نرم لہجے کی بنت
دھیرے دھیرے اس چنگل سے بچا کر
راہ زیست کو ریشمی کرتی
مخملیں بناتی ہے
بے سکونی کے بادل چھٹا کر
گردا گرد سکوں کے ہالے سجاتی ہے.
ہمیں اک نئی دنیا میں جا بساتی ہے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.