غزل
ہمارا دل تمھارا ہو گیا ہے
زمانے سے کنارا ہو گیا ہے
بھلا یہ زندگی آساں کہاں تھی؟
مگر پھر بھی گزارا ہو گیا ہے
کسی صورت جو پورا ہو نہ پائے
ہمارا وہ خسارا ہو گیا ہے
سنا ہے اب وفا کرتا ہے وہ بھی
اسے بھی کوئی پیارا ہو گیا ہے
تمھارے راستوں کی خاک چھانے
مرا دل بھی آوارہ ہو گیا ہے
مری آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں
چلو کچھ تو ہمارا ہو گیا ہے
اسے ماہم محبت ہو گئی ہے
تبھی تو غم کا مارا ہو گیا ہے

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content