بسمہ تعالی
کتاب۔۔۔فرہاد کی واپسی
مصنف ۔۔۔دانش تسلیم
تاثرات: قانتہ رابعہ
ناشر۔۔پریس فار پیس پبلیکیشنز
قیمت۔۔600روپے
روٹی پیٹ کا رزق ہے اور کتابیں دل و دماغ کا رزق ہیں۔
جس طرح فائدہ مند خوراک وہی ہے جو مقوی اور زود ہضم ہو اسی طرح بہترین تحریر کے لئے بھی کچھ چیزیں درکار ہوتی ہیں ان میں سے کچھ ادبی حوالے سے تکنیکی اعتبار سے اہم ہوتی ہیں اور کچھ دین اسلام سے تعلق کی وجہ سے لازمی جزو ہونا چاہئیں۔
ادب صرف لفاظی کا نام نہیں بلکہ بامقصد ہونا بھی ضروری ہے۔
اپنے اندر کی صلاحیتوں کو جانچ پرکھ کر انہیں پروان چڑھانے کا کام ہرکس و ناکس کے بس میں نہیں ، ہاں جس کے اندر اپنی صلاحیتوں کو آگے لے جانےکا شوق جنوں کی شکل اختیار کر جائے وہ اپنے میدان میں ماہر ہوتا ہے ۔دانش تسلیم انہی میں سے ایک ہے جس کی بیرون ملک پیدائش اور تعلیم نے بھی اردو سے لاتعلق نہیں کیا بلکہ سچ کہیں تو میں نے ایسا سچا اور پکا شوق بہت ہی کم کم سنا اور دیکھا ہے لکھتے ہیں۔
“میں سفید رنگ کی الماری میں پیلے رنگ کے تھیلے میں کہانیاں لکھ لکھ کر جمع کرتا رہتا تھا اور کہانیاں بہت تعداد میں موجود تھیں جنہیں کتاب کی صورت میں شائع کروانا میرا خواب تھا زندہ یا مردہ میں ہر حال میں صاحب کتاب بننا چاہتا تھا اور بیرون ملک سے فضائی سفر کی وجہ سے یہ بھی علم تھا کہ جہاز گرنے کا وقت کبھی بھی مقرر ہے ۔موت آنے کی صورت میں کتاب کیسے شائع ہوسکتی ہے تو میں نے الماری کے اندر مختصر سی وصیت لکھ کر چپکا دی تھی”۔
مصنف لکھتے ہیں:
میرے مرنے کے بعد میری جمع شدہ پونجی سے میری کہانیوں کے مجموعے شائع کئیے جائیں اور پیسے کم پڑنے کی صورت میں سوگواراپنی جیبوں سے رقم کی ادائیگی کریں”۔ ”
(بلا تبصرہ)
بہرحال ” فرہاد کی واپسی بچوں کا ناول ہے جس میں ایک مملکت کے بادشاہ مسرور کے بیٹے فرہاد کی کہانی یے بادشاہوں کی کہانیوں کے زیادہ تر لوازمات ناول میں موجود ہیں۔
حاسد وزیر، دشمنوں کا حملہ ، جادوگرنی کے قصے جنگیں لڑائیاں الغرض ناول میں بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کے لئے بھی اخلاقی اسباق موجود ہیں۔
ایک عوام دوست بادشاہ کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں ۔اس کے تدبر اور دانشمندانہ حکمت عملی بھی دکھائی دیتی ہے تاہم ہر کمالے را زوالے کے مصداق فرہاد بھی اخلاقی پستی میں گرتا ہے ۔زلزلے کا جھٹکا اس کی اصلاح کا موجب بنتا ہے اور یوں کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے۔
تاہم دانش تسلیم نے ناول کے ہر باب کا آغاز خوبصورت برجستہ اور بر محل شعر سے کیا ہے۔
دانش کا اسلوب پختہ اور رواں ہے بات سے بات نکالنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔تحریر میں سیرت النبی اور صحابہ کرام کا تذکرہ بھی موجود ہے تاہم میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ دانش کا وسیع مطالعہ اور عمدہ اسلوب تقاضا کرتا ہے کہ وہ لکھنے کے لئے افسانے کا انتخاب کریں کیونکہ ادب کی دونوں اصناف یعنی نظم اور نثر میں ان کا اسلوب عمدہ جاندار اور مشاہدہ گہرا ہے جو بہترین کہانی کار بننے کے لیے مطلوب ہے۔
میری دعا ہے کہ ان کی اگلی کتب بڑوں کے لئے ہوں میں انہیں صاحب کتاب بننے پر مبارکباد پیش کرتی ہوں اوردرخواست گزار ہوں کہ اگلے ایڈیشن میں وہ وصیت نامہ کی نقل ضرور شامل کریں۔
میں جناب پروفیسر ظفر اقبال صاحب اور پریس فار پیس پبلی کیشنز کے تمام اراکین کو کتاب کی اشاعت پر تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ کتاب کی اشاعت اگر مصنف کے لئے خوشی لاتی ہے تو پبلشر بھی کی خوشی کا پیمانہ بھی نہیں ناپا جاسکتا ۔اللہ مصنفین اور پی ایف پی کی تمام کاوشوں کو قبول فرمائے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.