تجزیہ: شمس رحمان
وضاحت
مجھے معلوم ہے کہ میں کوئی سیاسی لیڈر یا منتظم نہیں ہوں بلکہ 11 فروری 1984 کے تاریخی دن کو حادثاتی طور پر خود مختار کشمیر کے سیاسی کیمپ میں پھینکے جانے کے بعد سے خود مختار کشمیر کے نظریے اور جدوجہد کا ایک طالب علم ہوں۔ اس دوران میں نے مختلف تنظیموں اور تحریکوں میں کنارے کنارے کچھ کام کیا لیکن بنیادی مقصد سمجھ بوجھ ہی رہا ہے۔ یہ مضمون میری ذاتی کیفیت اور اب تک کی سمجھ بوجھ کا نچوڑ ہے۔ اس پر تنقید اور سوالات سر آنکھوں پر۔
موجودہ صورت حال
5 اگست 2019 کو بھارتی جنتا پارٹی کی مذہبی شدت پسند سرکار کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کے اپنے زیر قبضہ “جموں و کشمیر ” ریاست کو یونین ٹیریٹری کا درجہ دےدیے جانے اور مزاحمتی سیاست کے لیے جو کچھ جگہ کئی عشروں سے فروغ پذیر تھی اس کی تمام شکلوں کو مندوم کر دینے اور ریاست کے دوسرے دعویدار پاکستان کی طرف سے بیان اور نعرہ بازی کے سواء کچھ خاص نہ کیے جانے کے بعد ایک تاثر عام ابھر رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اب ختم ہو گیا۔ پاکستان کے سرکاری اور نیم سرکاری حلقوں کے بیانات ، گفت و شنید اور حرکات و سکنات سے لگتا ہے کہ وہ تقسیم پر راضی ہیں۔ بھارت کا موقف جو کانگریس اور دوسری سرکاروں کے زمانے میں کہنے کی حد تک اٹوٹ انگ کا تھا مگر عملی طور پر وہ تقسیم پر راضی تھے اور اندرونی طور پر ‘سرحدوں’ میں تبدیلی کو چھوڑ کر ‘آسمان کی حدود’ تک اندرونی خود مختاری دینے کو تیار تھے، اب یہ ہو گیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے حوالے سے اگر کچھ حل طلب ہے تو وہ ‘پاکستانی مقبوضہ علاقوں ‘آزاد’ کشمیر اور گلگت بلتستان’ پر پاکستان کا قبضہ ہے جس کو ختم کروا کے ان علاقوں کو بھی بھارت میں شامل کرنا باقی ہے۔
دنیا میں بھی کہیں کوئی ٹھوس آواز ریاست کی آزادی کی موجودہ تحریک کے لیے نہیں ابھر رہی۔ بلکہ بھارت و پاکستان کے بیانیوں کو ہی اکثر اپناتے ہوئے انہیں مسئلے کو باہمی طور پر حل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور شاید وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ یہی حل ہے جو بھارت اور پاکستان دونوں کر رہے ہیں یا شاید ان کی اشیرواد اور ہدایات کے تحت ہی کر رہے ہیں؟
مزاحمتی سیاست کے ان گنت رنگوں اور شکلوں کی طرف سے بھارتی و پاکستانی مقبوضہ علاقوں اور بیرون ریاست ممالک میں اس کھلے جبر اور عالمی قوانین اور نوابادیاتی اور نیو نوآبادیاتی قبضوں کے خلاف مزاحمتی اصولوں کی پامالی پر شروع میں مختلف سطح اور نوعیت کے احتجاجی مظاہرے کیے گئے ۔ وادی کشمیر میں نوجوانوں کی طرف سے مسلح کاروائیوں سے لے کر لنڈن و واشنگٹن اور برسلز و مظفر آباد و تیتری نوٹ وغیرہ میں بڑے بڑے عوامی اجتماعات ، مظاہروں اور کانفرنسوں کی شکل میں ۔ تاہم احتجاج کی ان لہروں میں سے کوئی نئی، مستقل اور موثر مہم یا تحریک نہیں تشکیل پا سکی۔ البتہ مزاحمت کی مختلف تنظیموں کی طرف سے شدید جذبات کا اظہار مختلف سطحوں پر اور شکلوں میں سوشل میڈیا پر ظاہر اور مخفی جاری و ساری ہے۔ لیکن عملی میدان میں یعنی یہ کہ اب کیا کیا جائے کے حوالے سے مجموعی طور پرپرانی راہوں کو ہی ٹٹولا جا رہا اور جانے ان جانے میں مایوسی کی ایک لہر بھی ابھر رہی ہے جس کے سامنے مزاحمت کے سب رنگ ماند پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ایسے میں اس سوال کا پیدا ہونا فطری عمل ہے کہ کیا مسئلہ کشمیر ختم ہو گیا؟
اس مضمون میں اس سوال کے تاریخی پس منظر میں جائزے کے بعد حال کے لیے چند تجاویز پیش کی گئی ہیں جو مستقبل کے راستے کی نشاندہی اور اس پر چلنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
پس منظر
پاکستانی و بھارتی سرکاری پروپیگنڈے اور کشمیری آزادی پسندوں کے بلند و بانگ نعروں اور دعوؤں کے ‘کھوپے’ ہٹا کر دیکھیں تو ریاست جموں کشمیر کی تقسیم ایک کامل تقسیم تھی۔ اس تقسیم کا آغاز شیخ عبداللہ کی قیادت میں ‘کشمیر چھوڑ دو’ کی تحریک سے ہو گیا تھا۔ ایسا شعوری طور پر کیا گیا یا صرف ذاتی سیاسی مفادات پیش نظر تھے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس تحریک نے پوری ریاست جموں کشمیر میں جاری عوامی سیاست کا رخ وادی کشمیر کی طرف موڑ دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں عوامی سیاست کی طرف سے مہاراجہ نظام کے خلاف جمہوری تحریک اور ‘ نئے کشمیر’ کی سیاست کا عمل پاش پاش ہو گیا۔ تقسیم سے پہلے کے آخری انتخابات جن میں پرجا سبھا یا لوک اسمبلی کے تمام نمائندے منتخب ہونا تھے نیشنل کانفرنس کے بائیکاٹ کی وجہ سے صرف مسلم کانفرنس نے ہی ان میں حصہ لیا ۔
عوامی سیاست میں تقسیم کا یہ عمل مزید تیز ہو گیا جب 14 اگست کے بعد مسلم کانفرنس کے قائدین چوہدری حمید اللہ اور سردار ابراہیم نے پاکستان سے مدد مانگی اور سردار ابراہیم لاہور میں قائد اعظم سے ملنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد مولوی بشیر اور پھر افتخار الدین اور جنرل اکبر وغیرہ سے مل کر کشمیر ‘آزاد’ کروانے کی کوششوں میں جُت گئے۔ برطانوی نوآبادکار قیادت کی چھتری تلے ایک طرف قبائلی حملے اور دوسری طرف مہاراجہ کی طرف سے بھارت سے الحاق کے بعد ریاست مکمل طور پر ریاست کے اندر عوامی تحریک کی دونوں بڑی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس ایک طرف پاکستانی اور دوسری طرف بھارتی حکمرانوں کی محتاج ہو گئیں ۔ اس کے نتیجے میں جو تقسیم ہوئی اس میں جو خطے ‘آزاد’ ہوئے وہاں مسلم کانفرنس کو اکثریت حاصل تھی اور یہاں کے اکثر ریاستی باشندے جوش و خروش سے پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ دوسری طرف جو خطے بھارت کے پاس گئے وہاں نیشنل کانفرنس کو واضح اکثریت حاصل تھی جس نے بھارت کے ساتھ جانے کا اعلان کر دیا تھا ۔ غیر مسلم کشمیری بھی بھی پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ جانے کو ترجیح دیتے تھے۔ یوں یہ ایک کامل تقسیم تھی۔ ایسے میں اقوام متحدہ کے تحت رائے شماری کا سوال صرف حالات کو موخر کرنے کا ایک ذریعہ ہی ثابت ہوا کیونکہ تقسیم کے آر پار بھارت اور پاکستان کے ‘انتظام’ کو تسلیم کر لیا گیا اور دونوں ممالک کی طرف سے فوجی انخلاء پر رضامندی کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ کرنے پر کوئی کاروائی نہ کی گئی۔ جہاں تک ریاستی عوام کا تعلق ہے ان کی طرف سے نہ تو بھارتی قبضے کے خلاف اس وقت کوئی مزاحمت ہوئی اور نہ ہی پاکستانی قبضے کے خلاف۔ مسئلہ کشمیر درحقیقت اس وقت ختم ہو گیا تھا۔
لیکن پھر کیوں اور کیسے یہ مسئلہ زندہ رہا؟
جدوجہد
ریاست کی تقسیم کے بعد کشمیر مسئلے کو زندہ رکھنے میں مرکزی کردار ‘آزاد’ کشمیر اور وادی کشمیر میں تقسیم کے بعد پیدا ہونے والی مزاحمتی سیاست نے ادا کیا۔ اس مزاحمتی سیاست کے فروغ میں تین سیاسی قوتوں نے اہم کردار کیا۔ ایک نے شعوری طور پر اور دوسروں نے شاید اپنے سیاسی مفادات اور سیاسی بقاء کے لیے۔ پہلی قوت تھی پاکستان کے زیر استعمال علاقے میں خود مختار کشمیر کے لیے وہ سرگرمیاں جن کی ابتداء عبدالخالق انصاری کی قیادت میں مسلم کانفرنس کے کچھ نالاں رہنماؤں اور انصاری صاحب کے اردر گرد خود مختار کشمیر کے حامیوں کی طرف سے 1950 میں ہوئی۔ اس کا اظہار جموں کشمیر عوامی کانفرنس کی شکل میں ہوا۔ یہ لہر جو اس وقت بہت معمولی سی تھی بتدریج فروغ پاتی گئی۔ یاد رہے کہ اس ہی لہر سے بعد میں جموں کشمیر محاز رائے شماری ، جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پیدا ہوئے۔ اس لہر میں سے ‘آزاد’ جموں کشمیر میں طلباء کی مقبول اور موثر آواز جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کو بھی اہم مددوحمایت میسر رہی۔ بعد ازاں این ایس ایف نے بھی مذکورہ لہر پر عتاب کے مختلف ادوار میں اپنا موثر کردار ادا کیا۔
دوسری قوت تھی جموں کشمیر نیشنل کانفرنس جس کے سربراہ شیخ عبداللہ کو جب 1953 میں وزیراعظم کے عہدے سے معزول کر کے گرفتار کر لیا گیا تو وہاں رائے شماری کے مطالبے نے پھر سے جنم لیا اور 1956 میں محاذ رائے شماری قائم کی گئی۔ بعد ازاں وادی کشمیر میں الحاق پاکستان ، اسلامی نظام اور آزادی پسند بھی رائے شماری کے مطالبے کو لے کر متحرک و منظم ہوتے گئے اور نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ کی طرف سے اس مطالبے کو خیر آباد کہہ دینے کے باوجود وادی میں مزاحمتی سیاست ارتقاء پذیر رہی اور 1987 میں ایک بڑی وقت بن کر سامنے آئی جس کو اسمبلی میں پہنچنے سے روکنے کے لیے جموں کشمیر نیشنل کانفرنس اور انڈین کانگرس کی طرف سے مقامی انتظامیہ ( اور شاید بھارتی سرکار) کی طرف سے جو دھاندلی کی گئی اس کے بعد وہاں ایک بہت بڑی عوامی تحریک پھٹ پڑی۔
تیسری قوت تھی جموں کشمیر مسلم کانفرنس ۔ وہ یوں کہ جب اس کے قائد سردار ابراہیم خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے معزول کیا گیا تو وادی کشمیر کی طرح پونچھ میں بھی خوب احتجاج ہوا ۔ بعد ازاں یہاں باقاعدہ بغاوت پھوٹ پڑی جس کو کچلنے کے لیے پنجاب کانسٹبلری تعینات کی گئی۔ اس مضمون کے حوالے سے اس تحریک کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ الحاق پاکستان کو جو جوش جذبہ اس خطے میں پایا جاتا تھا وہ مانند پڑ گیا اور بتدریج یہاں خود مختار کشمیر کے نظریے کی حمایت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس وقت ‘آزاد’ کشمیر میں خود مختار کشمیر کی سب سے زیادہ سرگرم و فعال حمایت پونچھ اور مظفر آباد ڈویژنوں میں ہی پائی جاتی ہے۔ چاہے وہ ریاست کے اندر ہوں یا باہر مقیم تارکین وطن ۔
یوں کشمیر مسئلے کو زندہ رکھنے میں ان تینوں قوتوں نے اپنے اپنے تناظر میں اپنے اپنے مفادات کے تحت اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اس سے بھی اہم کردار درحقیقت بھارت اور پاکستان کے حکمرانی ڈھانچے میں لوک مخالف اور آزای دشمن ذہنیت اور پالیسیوں نے ادا کیا۔ یہ وہی ذہنیت تھی جس نے اپنے بلا تنخواہ حامیوں شیخ عبداللہ اور سردار ابراہیم کو معزول کیا اور ہر دو جانب الحاق کے قلعوں پر کاری ضربیں لگائیں ۔ یہ ذہنیت صرف جموں کشمیر کے عوام اور ان کی آزادی کے بارے میں نہیں پائی جاتی بلکہ اس کا سلوک خود اپنے ان عوام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے جنہوں نے اس ذہنیت کے تصور حکمرانی اور تصور ریاست اور تصور قوم سے ہٹ کر حقوق اور آزادیوں کی مانگ کی۔
اس تناظر میں جب مقبول بٹ اور امان اللہ خان نے جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ قائم کیا اور اعلان کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے منشور میں محکوم اقوام کے تسلیم کردہ تمام ذرائع بشمول مسلح جدوجہد کا استعمال کریں گے تو کھلے عام اور اندر ہی اندر اس کا استقبال کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد دونوں طرف موجود تھی ۔ خاص طور سے اس نسل میں جو تقسیم کے بعد پروان چڑھی تھی۔ درحقیقت این ایل ایف اور خاص طور سے مقبول بٹ کے اقدامات اور افکار نے مسئلہ کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں سے چھین کر عوام کو تھما دیا اور دنیا بھر میں موجود آزادی ، انقلاب اور عوامی جمہوری حلقوں میں اس کی بازگشت سنائی دی۔ ان اقدامات نے تقسیم کے آر پار نوجوانوں میں ایک نئی امید بھی پیدا کر دی جو دنیا میں ہونے والے مختلف عوامی اور انقلابی سیاست کے واقعات کے زیر اثر فروغ پذیر رہی۔
بند گلی؟
یہ سچ ہے کہ اس مسئلے کو دوبارہ دنیا کے سیاسی منظر نامے پر لانے کا سہرا وادی میں برپا ہونے والی 1987 کے بعد کی تحریک کے سر پر ہی جاتا ہے لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ 1984 میں مقبول بٹ کو جب دہلی کی تہار جیل میں پھانسی دی گئی تو وادی کشمیر میں چند چھوٹے چھوٹے احتجاجی مظاہرے ہی ہوئے تھے لیکن پورا “آزاد ” جموں کشمیر اور یہاں سے گئے ہوئے تارکین وطن سراپا احتجاج بن گئے تھے اور وہ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پاکستان سے بھی آزادی کے نعرے لگا رہے تھے ۔ اور پھر مقبول بٹ کے یہی سیاسی پیروکار اور ساتھی تھے جنہوں نے 1987 کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تحریک بھی زیادہ عرصہ آزاد نہ رہ سکی۔
اکثر تجزیہ نگار 1947 اور 1987 میں پاکستانی حکمرانی ڈھانچے کی طرف سے تحریکوں کو ہائی جیک کرنے کی بجا طور پر بات کرتے ہیں لیکن وہ اس میں کشمیری قیادت کی طرف سے سب کچھ طشتری میں رکھ کر پاکستان کے ارباب اختیار کے سامنے پیش کرنے کے پہلوکو نظر انداز کر جاتے ہیں۔
بہرحال جو ہوا سب کے سامنے ہے ۔ اس کو یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اس سوال پر بحث کرنے کی ہے کہ اب جب کہ بھارت و پاکستان اس بات پر راضی نظر آتے ہیں کہ جو حصہ جس کے پاس ہے وہ اس کا ہے اور وادی کے اندر مزاحمتی سیاست کے لیے جگہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور ‘آزاد’ کشمیر اور تارکین وطن آزادی پسندوں کے علاوہ کہیں کوئی پوری ریاست کی آزادی کی بات بھی نہیں کرتا، اور ‘آزاد’ کشمیر کے آزادی پسند بھی ایک بند گلی میں چیختے چلاتے نظر آتے ہیں ۔ سچے جذبوں اور پورے خلوص کے ساتھ۔ ایسے میں آزادی پسندوں کی طرف سے ہی ایسے دعوے سامنے آرہے ہیں کہ مشئلہ کشمیر ختم شد۔ یا پھر علی عدالت کے الفاظ میں جو سنجیدہ ترین صورت حال کو بھی مزاحیہ انداز میں بیان کرنے کا فن جانتا ہے ۔۔۔ کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا ۔ کشمیری پاکستان کےاور کشمیر انڈیا کا ۔
تاہم کیا واقعی ایسا ہے؟
جیسا کہ اوپر مختصر پس منظر میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسئلہ تو پیدائش کے وقت ہی ختم شد تھا لیکن یہ بھارت و پاکستان کے حکمرانوں کی عوامی آزادی دشمن ذہنیت اور پالیسیاں تھیں جنہوں نے ریاست میں مزاحمت کی سیاست کو جنم اور فروغ دیا اور یہ ریاست کے اندر مزاحمتی سیاست تھی جس نے اس کو دوبارہ زندہ کیا۔ لیکن یہاں اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ جب یہ لگنے لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا اور یاسیت چھا جاتی ہے تو صرف ایک صورت ہوتی ہے اس کیفیت سے نکلنے کی کہ
صورت نظر آجائے کوئی نکلنے کی۔
یعنی جب سب راستے بند نظر آئیں تو مایوسی چھانے لگتی ہے لیکن جب کوئی راستہ کھلا نظر آ جائے یا کوئی جگہ نظر آ جائے جہاں سے راستہ بنایا جا سکتا ہے تو پھر مایوسی کی جگہ امید اور جدوجہد لے لیتی ہے ۔ اس نظر سے ماضی پر نظر ڈالیں تو نظر آئے گا کہ مہاراجہ نظام کے خلاف تحریک ابھرنے سے پہلے عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایسا ممکن ہے۔ لیکن جب جمہوری اور انقلابی نظریات کی شکل میں راستہ نظر آیا تو بتدریج ناممکن ممکن ہو گیا۔
تقسیم کے وقت عوام نے آر پار ( نئے حاکموں اور قابضوں کے خلاف) کوئی مزاحمت نہ کی کیونکہ اب انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ ادھر بھارتی بن گئے تھے اور ادھر پاکستانی۔ تیسرا راستہ اکثریت کے لیے اب موجود نہیں رہا تھا۔ ساٹھ کے عشرے تک یہ صورت حال رہی لیکن پھر رائے شماری کے مطالبے میں ایک راہ نظر آئی تو حالات بدلتے گئے۔
پھر اقوام متحدہ سے مایوسی کا زمانہ آیا تو ایک آواز نے گرج کر پوچھا ‘ اقوام متحدہ چیز کیاہے ۔ ہم آزادی لڑ کر لیں گے۔ مر کر لیں گے۔’ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک شخصمر کر کیسے ہزاروں لاکھوں بن گیا اور شاید وہ واحد شخص ہے اس ریاست جموں کشمیر میں جس کے نظریات ، جدوجہد اور سیاست کو مٹانے کے لیے دو بڑے ممالک کی پوری ریاستی مشینری لگی رہتی ہے لیکن ہر سال اس کی برسی غیر سرکاری طور پر دنیا بھر میں منائی جاتی ہے۔
لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ لڑ ، مر کر آزادی کی جدوجہد بھی بند گلی میں آگئی ہے۔اور پھر سے یہ لگنے لگا ہے کہ مسئلہ کشمیر دفن ہو گیا ہے۔ اب سب سے بڑا چیلنج جو ریاست میں آزادی پسندوں کو درپیش ہے وہ اس بند گلی سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے کا ہے۔ میرے خیال میں ایک راستہ ابھی باقی ہے جس کی وضاحت اس کالم کا نچوڑ ہے۔
متحدہ ریاست جموں کشمیر میں مہاراجہ راج کے خلاف جو عوامی تحریک کشمیر اور جموں کے علاقوں سے شروع ہوئی تھی وہ اگرچہ پوری ریاست کے لیے تھی لیکن لداخ اور گلگت بلتستان کے چند لوگوں تک ہی پہنچ سکی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ اسمبلی کے تینوں انتخابات میں نیشنل کانفرنس کا مسلم کانفرنس کا ان علاقوں میں کوئی امیدوار نہیں ہوتا تھا ۔ البتہ مہاراجہ کی طرف سے یہاں سے نمائندے پرجا سبھا یعنی لوک اسمبلی میں نامزد کیے جاتے تھے۔ تقسیم کے بعد بھی آزادی کی تحریک کا مرکز و محور وادی کشمیر ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں اس کے لیے کوئی حمایت نہ پیدا ہو سکی اورنہ ہی کشمیری تشخص کو ریاست کے سیاسی تشخص کے طور پر اپنایا گیا۔ بلکہ اب تو ‘آزاد’ کشمیر جہاں آزادی پسندوں کے ایک بڑے حلقے کی توجہ کا مرکز وادی کشمیر رہی اور وادی کی ہی قیادت میں آزادی کی صف بندی اور حکمت عملی کا فیصلہ ہوتا رہا اور کشمیری تشخص کو بھی اپنے سیاسی تشخص کے طور پر اپنایا گیا وہاں بھی اب ردعمل کے طور پر اب وادی کے مقابلے میں نہ صرف جموں شناخت کو رکھا جارہا ہے بلکہ عوامی تحریک کو فرقہ پرستی قرار دے کر اس کے مقابلے میں مہاراجہ راج کے گن گائے جاتے ہیں جس کو مخالفین مہاراجہ پرستی کا نام دے رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کیا راستہ باقی بچتا ہے ریاست کے تمام خطوں میں ان باشندوں کے لیے جو پاکستان اور بھارت کے زیر سایہ میسر ‘آزادی’ کو کافی نہیں سمجھتے ؟
اب کیا کیا جائے؟
تمام آزادی پسندوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ کسی ایک خطے میں مسلح جدوجہد کے ذریعے پوری ریاست کو آزاد کروانے کی تحریک ناکام ہو چکی ہے ۔ لیکن آزادی کی امنگ اور جدوجہد کا راستہ باقی ہے۔ یہ راستہ ہے جمہوریت کا راستہ۔ اس پر فوری سوال یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ کون سی جمہوریت جو بھارت اور پاکستان میں ہے یا جو بھارتی و پاکستانی مقبوضہ علاقوں میں ایستادہ حکومتوں میں ہے؟ بلکہ اس تنقید کو انقلابی عینک سے دیکھ کر پوری دنیا میں موجود جمہوریتوں پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوال اور تنقید جائز ہے ۔ دنیا میں کہیں بھی جمہوریت تمام کے تمام ووٹروں اور ان کے خاندانوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات اور حقوق دینے میں ناکام رہی ہے۔تاہم جمہوریت نوازوں کی طرف سے یہ جوابی سوال کیا جا سکتا ہے کہ ان معاشروں میں انقلابی کیا دے سکے ہیں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ انقلابیوں کی وجہ سے ان معاشروں میں سرمایہ داروں نے انقلاب کو روکنے کے لیے فلاحی نظام کو قبول کیا ۔ اب پوری دنیا میں فلاحی جمہوریت کی ناکامی کے ردعمل میں انقلابی نہیں بلکہ مقبولیت پسند جمہوریت ہی پیدا ہو رہی ہے اور شاید اس میں سے انقلابی جمہوریت کا کوئی راستہ نکلے لیکن یاد رہے کہ ہم جس خطے کی بات کر رہے ہیں وہاں درحقیقت فلاحی عوامی جمہوریت بھی عوام کے لیے ایک انقلابی عمل ہی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا یہاں آزادی پسند موجود کنٹرولڈ اور قبضے کو دوام بخشنے والی جمہوریت کے متبادل عوامی جمہوریت قائم کرنے کے قابل ہیں یا نہیں۔ کیونکہ جمہوریت ہو یا کوئی اور نظام اس کو قائم کرنے کے لیے شدید خواہشات اور پرخلوص جذبات کافی نہیں ہوتے بلکہ ان کو موجود معاشی و معاشرتی اور سیاسی تناظر میں تعمیر کرنا ہوتا ہے۔ اور تعمیر کا یہ عمل اس سیاسی جماعت سے شروع ہوتا ہے جو ایسی جمہوریت کے قیام کا منشور لے کر عوام کے پاس جاتی ہے۔ ایک حقیقی جمہوری جماعت ہی ملک میں جمہوریت قائم کر سکتی ہے۔ اس کے بغیر خواہشات تو ہو سکتی ہیں لیکن عملی طور پر اور کوئی راستہ نہیں ہے آگے بڑھنے کا۔ مقبول بٹ سے بھی جب کم کم چڈا نے تہار جیل میں شہادت سے پہلے آخری انٹرویو میں پوچھا تھا کہآپ کا سیاسی ایمان کیا ہے تو جواب میں مقبول بٹ نے کہا تھا :
” تمام انسانوں کے لیے سوچ و فکر ، اظہار ، عمل اور وابستگی کی آزادی کے حق کا حصول میرے سیاسی ایمان کی بنیادیں ہیں۔ میرے خیال میں آزادی کے اس تصور کو حاصل کرنے کی بہترین ضمانت ایک جمہوری معاشرے میں ہی دی جا سکتی ہے۔ آج کل سیاسی نظریے کی اصطلاح بائیں یا دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کے معنی میں استعمال ہونے لگی ہے۔ تاہم میرے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ میرے سیاسی نظریے کی بنیاد یہ ایمان ہے کہ تمام عوام کو اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں اپنی خواہشات اور امنگوں کے مطابق آزادی سے قائم کیے گئے اداروں کے ذریعے بغیر کسی بیرونی دباو، دھونس یا مداخلت کے فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے ۔“
آزادی پسندوں کے لیے ریاست جموں کشمیر میں اس طرح کے معاشرے کے لیے جدوجہد کرنے کے آغاز کا مرحلہ اس وقت سے منتظر ہے جب وادی میں مسلح جدوجہد کے تازہ ترین تجربے کے دوران یہ آشکار ہو گیا تھا کہ آزادی کی تحریک آزاد نہیں ہے۔ تب وقت تھا کہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی قیادت جس نے مسلح جدوجہد سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا وہ فرنٹ کو ایک باقاعدہ سیاسی جماعت کی شکل دیتے اور ریاست کے ہر خطے میں جہاں ان کو جتنی بھی حمایت حاصل تھی مکمل آزادی کو اپنی منزل قرار دے کر متبادل جمہوری منشور کے ساتھ عوام کے پاس جاتے۔ یہاں جمہوری منشور سے مراد صرف انتخابات کا عمل ہی نہیں بلکہ مکمل معاشی و سیاسی اور معاشرتی منشور ہے ۔ بہرحال وہ نہیں ہوا اور اب جب کہ سب راستے بند نظر آرہے ہیں، جمہوریت کا راستہ کھلا ہے ۔اگر مسلح جدوجہد کے لیے وادی موزوں ترین تھی تو جمہوری راستے پر سفر کے آغاز کے لیے ‘آزاد’ کشمیر بہترین ہے ۔ یہاں سے آغاز کر کے عملی طور پر دیگر خطوں کو دکھایا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اس راستے پر چل کر موجود سے بہتر صورت حال اور حالات پیدا کر سکتے ہیں۔ ‘آزاد’ کشمیر میں یہ ثابت کرنے کے امکانات مقابلتاً زیادہ ہیں کہ موجودہ کٹھ پتلی نظام اور اس میں قابضوں کے سائے میں راج کرنے والی سیاسی جماعتیں ناقابل شکست نہیں ہیں۔ اس جدوجہد میں سب سے بڑا ہتھیار عوام ہیں اور اس لڑائی میں سب سے بڑا اور اولین تقاضا عوام کو سمجھنا ہے۔ موجودہ روش کہ عوام جاہل، بے حس، خود غرض اور قومی شعور سے عاری ہیں اس لیے وہ ‘آزادی پسندوں’ کی بجائے برادریوں یا چند ٹکوں ، نوکریوں یا ٹوٹی نلکے کے نام پر ووٹ دیتے ہیں بدلنا اس نئی سیاست کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس کی جگہ ان تاریخی اور مادی وجوہات کو سمجھنے کی روش کو لینا ہو گی جو عوام کے موجود نظام اور جماعتوں کو ووٹ دینے کی تہہ میں کارفرما ہیں۔
اس نئی فکر کے ساتھ ‘آزاد’ کشمیر کے تمام آزادی پسند قائدین کو اکٹھے ہو کر تمام موجود اتحادوں اور جماعتوں کو ختم کر کے ایک نئی اور باقاعدہ سیاسی جماعت تشکیل کرنا ہو گی۔ ظاہر ہے کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ قائدین یہ تسلیم نہ کریں کہ یہی راستہ باقی بچا ہے اور یہ وہ راستہ ہے جس پر چلنے سے انہیں روکنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کے جاتے اور رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ اگر تمام آزادی پسند ایک سیاسی جماعت کی ضرورت اور تشکیل پر متفق ہو جاتے ہیں تو پھر اگلا مرحلہ اس کی تشکیل کا آتا ہے جس میں کھلی بحث اور وسیع ترین مشاورت کے ساتھ حقیقی اور ٹھوس معاشی، سیاسی ،سماجی و ثقافتی حالات کے عکاس جامع منشور کی تیاری بھی شامل ہے۔
اس جماعت کے منشور میں یہ شامل ہونا چاہیے کہ اس جماعت کی حتمی منزل ایک متحدہ جمہوریائے جموں کشمیر کا قیام ہی ہے لیکن اس کے لیے تصادم کی بجائے جمہوریت کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ اگر الحاق والی شق کو تسلیم نہیں کرنا تو منشور میں واضح ہونا چاہیے کہ ہم اس کے خاتمے تک اس سکے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے اور عوام اور دنیا بھر کو آگاہ کریں گے کہ نام نہاد آزاد کشمیر میں جمہوریت کے نام پر کیا ہو رہا ہے۔ اگر شق کو تسلیم کر کے انتخابات میں جانا ہے تو منشور میں واضح ہونا چاہیے کہ جب اسمبلی میں پہونچیں گے تو اس غیر جمہوری شق پر آواز اٹھائیں گے اور جب ہماری اکثریت ہو گئی تو پورے عبوری آئین کو ختم کر کے ایک جامع جمہوری آئین لائیں گے۔
جماعت میں عہدے کھلی ووٹنگ کے ذریعے منتخب کیے جانے ہوں گے۔ یوں یہیں سے جماعت کے اندر جمہوریت پید اکرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس جماعت کے انتخابات اور عوام کے پاس جانے اور عملی سیاست کی حکمت عملیاں تخلیق کرنا ہوں گی۔ جس کی تفصیلات ضروری ہیں لیکن یہاں نہیں۔ یہ وہ عملی راستہ جو نہ صرف آزادی پسندوں کو بڑھتی ہوئی مایوسیوں سے نکال کر کے یک جہتی کے رستے پر ڈال کر ایک نیا ولولہ دے سکتا ہے بلکہ نام نہاد ‘آزاد’ جموں کشمیر میں موجود عوامی استحصال اور استعمال کی سیاست کو بھی ایک نیا رخ دے سکتا ہے۔ درحقیقت یہ قومی آزادی کی جدوجہد کو ایک نئے مرحلے میں داخل کرنے کا راستہ ہے۔ اور ریاست کی وحدت اور آزادی تب ہی ممکن ہو گی اگر منقسم ریاست کے تمام خطے خود مختاری سے اپنے اپنے حالات و تناظر میں اس راستے کو آپنائیں اور ہر سطح پر بیرونی طور پر ایستادہ جماعتوں اور حکومتوں کو متبادل جمہوری ہتھیاروں سے چیلنج کریں۔ یہ طویل راستہ ہے اور مشکل بھی لیکن اس کے بغیر کوئی اور قابل عمل راستہ کم از کم مجھے نظر نہیں آتا۔
ختم شد
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.