مصنفہ: نورین عامر
تبصرہ نگار: ناہید گُل
پبلشر: پریس فار پیس پبلی کیشنز
چند دن پہلے پریس فار پیس پبلی کیشنز کی جانب سے دو خوب صورت کتب موصول ہوئیں۔ ”سارے دوست ہیں پیارے“ مصنفہ قانتہ رابعہ صاحبہ اور محترم نورین عامر صاحبہ کا ناول ”راستی کا راستہ“۔
جاذبِ نظر سرورق، بہترین خصوصیت کی حامل جلد و اوراق دیکھ کر طبیعت ایک دم ہشاش بشاش ہوگئی۔
میرے خیال میں عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے بعد نورین عامر وہ مصنفہ ہے جن کے ناول کی کہانی کلامِ پاک اور احادیث سے مزین ہیں۔ جب کہ راستی کا راستہ ناول میں حضرت سلطان باھو رحمتہ علیہ کی تعلیمات اور ابیات کو جس خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے اس کی مثال شاید پہلے سے کسی ناول میں موجود نہیں ہے۔
اس لیے مجھے یہ ناول اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد لگا۔ مصنفہ نے روحانیت اور تصوف کے مسائل منفرد انداز میں بیان فرمائے ہیں۔
مجھے اس ناول کا انتساب بھی بہت مختلف لگا۔
باہو شناسی سے متعارف کرواتا ہوا یہ ناول لائقِ تحسین ہے۔
ناول میں کہانی کا آغاز ایک خواب سے ہوتا ہے۔۔۔۔ اس کہانی کی تکمیل بھی خواب میں۔۔۔
زبان و بیان کے حوالے سے بھی یہ ایک بہترین ناول ہے۔ رواں اور جامع جملے۔۔
ناول میں منظر نگاری کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے ۔۔۔ اتنی شاندار منظر نگاری کہ قاری بھی خود کو اسی منظر کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار عفت ہے۔۔۔ جس کو منزل مراد تک پہنچانے کے لیے دیگر کردار اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔۔۔۔
جن میں، عفت کی والدہ، والد کی یادیں، سہیلی ادریسہ، خان صاحب اور ناول کا ہیرو ہارون۔۔۔ یہ کوئی عام رومانوی ناول نہیں ہے۔۔۔ نا ہی اس ناول میں رقیبِ روسیاہ والا کوئی چکر ہے۔۔۔۔
اس ناول میں ایک اور کردار نضال محمد حاتم کا ہے۔۔۔ جسے اپنے وطن فلسطین سے بے دخل کر دیا جاتا ہے ۔۔ اس کی وطن کے مرمٹنے کی خواہش قاری کوبھی اس کی آواز پر لبیک کہنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
ناول میں مختلف کرداروں کا تعلق پاکستان ، فلسطین، مراکش اور انگلینڈ سے دکھایا گیا ہے۔
ناول میں نیکی اور بدی کی طاقتوں کی کشمکش نے کہانی میں تجسس پیدا کر دیا ہے۔۔۔
ایلا، مارتھا اور گرو۔۔۔۔ بدی کا پرچار اخلاق کے لبادے میں پیش کر کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
ایک وقت میں تو مجھے ایسا لگا کہ جو کچھ مارتھا کر رہی ہے۔۔۔۔ وہ مصنفہ نے شائد میرا ہی ماضی لکھ ڈالا۔۔۔ زائچے بنانا، ہاتھوں کی لکیریں پڑھنا، روحوں کو بلانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ استغفرُللہ ۔۔۔
کالج زمانے کی نادانیاں سب کی سب سامنے آنے لگیں۔۔۔۔
خیر ناول کا وہ حصہ حصولِ تحریر ہے۔۔۔جہاں عفت پر معرفتِ الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اسے بصارتِ قلب عطا کر دی جاتی ہے۔ یہ سفر خواب میں مائی راستی رحمۃ علیہ کے دروازے سے شروع ہوتا ہے اور پھر حضرت سیدنا بی بی زینب بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا، خاتونِ جنت، ام الحسنین جناب سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا، خاتونِ اوّل ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت سیدنا بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مبارک دروازوں سے ہوتا پایا تکمیل تک پہنچتا ہے۔
اس تمام سفر کی رود اور منظر کشی ایسی لاجواب ہے کہ پڑھنے والوں پر عقیدت و احترام کی عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
اس ناول کا ایک اور کردار جیسپر کی راہِ حق کی تلاش بھی دلچسپ پہلو ہے۔
کرداروں کی رنگا رنگی کے باوجود ہر کردار اپنی الگ شناخت آخر تک قائم رکھتا ہے۔
میں مصنفہ نورین عامر صاحبہ کو دل کی گہرائیوں سے ایک خوبصورت اور منفرد اسلوب کے حامل ناول کی تخلیق پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.