معاشرہ اور معاشرتی تبدیلی ۔۔ سلسلہ وار کالم
تحریر : شمس رحمان
میرپور سے جب ہندو اور سکھ ختم ہو گئے۔ کچھ مارے گئے ، کچھ جان بچاکر بھاگ گئے۔ اوپر پوری ریاست سے مہاراجہ نظام بھی ختم ہو گیا۔ تو ان کی جگہ کس نے لی؟
آزاد کشمیر میں عوامی حقوق اور بہتر سماج قائم کرنے کے علم برداروں کے لیے یہ سوال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سوال کو ایمانداری سے سمجھے بغیر یہاں ایک حقیقی عوامی حقوق ، آزادی اور ترقی کی تحریک و سیاست نہیں تعمیر پا سکتی۔
یہاں اس کے صرف چند نمایاں پہلوؤں کی فہرست دی گئی ہے۔ اصل میں اس پر ورکشاپوں کی ضرورت ہے جن میں ضلع میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سنجیدہ اور سینئیر افراد کو مدعو کر کے اس کا ٹھوس ، حقیقی اور ایماندارانہ تجزیہ کر کے اس کی اصلی یعنی سائنسی سمجھ حاصل کی جانی چاہیے۔ میرپور میں مارکسیوں نے سائنسی سیاست، طبقاتی جدوجہد اور غیر طبقاتی سماج کے قیام کے لیے سیاسی میدان میں کام تو بہت کیا ہے۔ زندگیاں وقف کی ہیں۔ لیکن غور کریں تو عملی طور پر ان کا انداز فکر وہی ہے ہیگل والا۔ وہ سر کے بل کھڑے ہیں۔ یعنی سمجھتے ہیں کہ لوگ نظریہ سیکھ جائیں گے تو انقلاب آ جائے گا۔ جبکہ سوال معاشرے کی ٹھوس بنیاد کو سمجھ کر اس کو بدلنے کے لیے ا یسے ٹھوس نظریات، ایسی ٹھوس سیاست اور ایسی ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے جو یہاں موجود حقیقی حالت کی جامع سمجھ سے کشید کی گئی ہو۔ جس میں یہاں کے عوام کو اپنے حقیقی حالات ، مسائل ، امنگوں ،خوابوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے مواقعوں کا عکس نظر آئے۔
نئے حکمران اور احکام
جہاں تک سیاسی اختیارات یعنی اقتدار اعلیٰ کا تعلق ہے ‘آزاد کشمیر’ میں انگریزوں کی جگہ کراچی معائدے کے تحت عملی طور پر اس خطے کا انتظام سنبھال کر پاکستان نے لے لی۔ یہ ایک ایسا معائدہ امرتسر تھا جس میں ‘ آزاد’ کشمیر اور گلگت بلتستان کے نئے ‘حکمرانوں’ کو پچھہتر لاکھ نانک شاہی بھی نہیں دیے گئے ۔ اس معاہدے کے تحت کشمیر مسئلے پر بیانیے، موقف، سفارت کاری اور پالیسیاں ‘ پاکستانی حکمران طبقات’ نے اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
اندرونی راج کرنے کے لیے مہاراجہ کی جگہ سردار ابراہیم خان آ گئے۔ میرپور ( اور ‘آزاد’ کشمیر کے دیگر شہروں میں ) میں ہندو اور سکھ جاگیرداروں اور شہر کے کاروباریوں اور دوکانداروں کی جگہ مسلمان بیٹھ گئے۔ انتظامیہ میں بھی غیر مسلموں کی جگہ آزاد کشمیر ی مسلمان بیٹھ گئے۔
اس مقامی انتظامیہ کو چلانے کے لیے پاکستان سے لینٹ افسر بھیج دیے گئے ۔ انگریز دور میں ایک ریزیڈنٹ ہر شہر میں ہوتا تھا۔ ان کی جگہ ان لینٹ افسروں نے لے لی لیکن زیادہ اختیارات کے ساتھ۔ حکومت کا سیاسی نظام جو سنتالیس سے پہلے ارتقاء پذیر تھا اس کی دو شکلیں تھیں۔ ایک مہاراجہ کا راج جس میں 1930 کی جدید عوامی سیاست کی پیدائش کے بعد اصلاحات کی جا رہی تھیں ۔ دوسری شکل تھی نئی عوامی سیاسی جماعتیں۔ ان میں سے ایک نیشنل کانفرنس تو بھارتی انتظام والے علاقے میں رہ گئی اور دوسری مسلم کانفرنس یہاں کی حکومت سنبھال لی۔ تیسری مزدور کسان کانفرنس سنتالیس کے ہنگاموں میں ٹوٹ بکھر گئی۔
اس حکومت کو چلانے کے لیے اب صرف مسلمان سیاستدان ہی بچے تھے جو صدارت، وزارت عظمیٰ اور وزیروں کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ساہوکارہ نظام سرکاری طور پر تو ختم ہو گیا اگرچہ غریب کی زندگی میں ادھار لینا اور چکا نہ سکنے کی صورت میں اندرو اندر زمینیں یا عزتیں مسلمان زمینداروں اور جاگیرداروں کو بغیر لکھے دینے کے واقعات ہوتے رہے (مختلف شکلوں میں اب بھی ہوتے ہیں )۔
ہاں اب فصلوں پر ‘ کَہن’ نہیں لگتا تھا۔ گائے کا گوشت بھی اب بغیر کسی خوف و خطر کھا سکتے تھے۔ لیکن صرف وہ ہی جنہوں نی پالی ہوئی تھیں یا جن میں خریدنے کی سکت تھی۔
پہلے اکثریت نے اس تبدیلی کو آزادی کہا۔ انقلاب پکارا۔
عام آدمی بھی سمجھا کہ آزادی ہو گئی ہے۔ انقلاب آ گیا ہے۔ مشکل کے دن گذر گئے ہیں۔ اب ہم سب مسلمان اکٹھے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن جلد ہی یہ حقیقت جس طرح پاکستان میں ظاہر ہو گئی اور فیض احمد فیض نے اس کو اس طرح شعر بند کیا کہ
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
اسی طرح ‘آزاد’ کشمیر میں بھی اجالا داغ داغ ہی رہا ۔ عام آدمی کے لیے اب بھی جاگیرداروں کا راج تھا۔ عام آدمی اب بھی زمین سے محروم تھا اور زمینداروں اور جاگیرداروں کی چاکری کرنے پر مجبور تھا۔ ہاں جاگیردار اب مسلمان تھے۔ ۔ مجموعی طور پر معاشرتی ڈھانچہ بھی قائم رہا اور استحصال بھی جاری و ساری رہا۔
یعنی صدیوں سے چلے آرہے پیداواری تعلقات وہی رہے ۔
اب بھی گاؤں والے لکڑیاں، مرغیاں، انڈے ، بھاریاں ، مانجھے ، گھی، مکھن ، دودھ وغیرہ لے کر صبح میلوں چل کر شہر جاتے تھے۔ ہاں اب وہاں خریدنے والے مسلمان تھے۔ آڑتی، سنیارے، پنساری ، ہوٹلوں والے کپڑوں کی دوکانوں والے ۔۔۔ جو پہلے 75٪ غیر مسلم تھے اب 100٪ مسلمان تھے۔ لیکن ان کا اپنے مسلمان گاہکوں سے تعلق وہی رہا جو غیر مسلم دوکانداروں اور کاروباریوں کا تھا۔ یعنی پیداواری تعلقات گاؤں میں بھی وہی رہے اور شہروں میں بھی۔ جاگیرداری اور قبائلی سماج میں ‘ عزت اور غیرت’ کے تصورات عمل کی تحریک دینے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرپور میں مولوی ڈنڈے والے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شہر میں مسلمان عورتوں کے داخلے کو ڈنڈے کے زور پر اس لیے روکتے تھے کہ کچھ عورتوں کے شہر میں غیر مسلم دوکانداروں کے ساتھ تعلقات کی خبریں اُڑی تھیں۔ اب میرپور شہر میں روز مجبوریوں میں جھکڑی ہوئی کتنی ہی مسلمان عورتیں مسلمان دوکانداروں، مسلمان افسروں ، مسلمان سیاست کاروں کے ساتھ اکثریت مرضی کے خلاف تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوتی ہیں؟ لیکن کسی مولوی ڈنڈے والے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حتیٰ کہ کتنی عزتیں مولویوں کے ہی آستانوں پر لٹ جاتی ہیں؟
یہ آزادی مسلمان دوکانداروں ، تاجروں، سیاستدانوں اور دین و مذہب کے نام پر تنخوائیں اور نذرانے بٹورنے والوں کے لیے واقعی آزادی تھی۔ حقیقی آزادی تھی۔
تاہم عام مزدور کسانوں کے لیے بدلا تو بس یہ بدلا کہ اب استحصال کرنے اور استحصال سہنے والے دونوں مسلمان تھے۔ استحصال کرنے والے مسلمانوں کے لیے تو یہ واقعی آزادی تھی لیکن کیا سہنے والوں کے لیے بھی یہ آزادی تھی؟
یہ عام انسان کے لیے آزادی نہیں تھی۔ کیونکہ اوپرلے طبقے کے چہرے اور مذہب بدلا تھا نظام نہیں بدلا تھا۔ جب کہ مسائل کی جڑیں اور اسباب اس جاگیردارانہ استحصالی نظام میں تھے۔ اس لیے اس نظام کے نئے رکھوالے تو کلمہ گو تھے لیکن ان رکھوالوں کے استحصالی کرتوت ، وطیرہ اور مفادات نہیں بدلے تھے ۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ پیداوار اور تقسیم اور اس پر قائم معاشرتی ڈھانچہ نہیں بدلا تھا۔
نظام کب اور کیسے بدل؟
اگلی قسط میں پڑھیں