تحریر ۔ عافیہ بزمی
۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارہ مارچ 1932 کو امرتسر میں شیخ عبدالعزیز کے گھر میں پیدا ہونے والے محمد یونس نے علم و ادب میں خالد بزمی کے نام سے شہرت پائی ۔
وہ 13 جولائی 1999 میں 67 سال کی عمر میں لاہور میں وفات پاگئے تھے ۔
ان کی ناگہانی وفات سے ان کا بہت سا ادبی کام شائع ہونے سے رہ گیا تھا ۔خالد بزمی کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ میں ان کا وہ تمام کام شائع کروا سکوں ۔
اسی سلسلے میں 2005 میں ، میں ان کا نعتیہ مجموعہ ” سبز گنبد دیکھ کر ” شائع کروایا اور اب 2023 میں ان کا حمدیہ مجموعہ “جبین نیاز ” کے نام سے منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوئی ہوں ۔ الحمدللہ
أج ان کے 92 ویں یوم ولادت کے موقعہ پر ان کے حمدیہ مجموعہ ” جبین نیاز ” کے بارے میں کچھ الفاظ حوال قلم کر رہی ہوں ۔
ان کے دنیا سے جانے کا دکھ تو ہر لمحہ دل میں موجود رہتا ہے لیکن مجھے یہ خوشی بھی ہوتی ہے کہ اللہ کی ذات نے مجھے ان کے اس کام کو سمیٹنے کا وسیلہ بنایا ،جو شائع ہونے سے رہ گیا تھا ۔
امید کرتی ہوں کہ ان کے مجموعہ “جبین نیاز ” پر لکھے میرے یہ چند الفاظ ان کے شاگردوں اور مداحوں کے لۓ ایک مختصر سا تعارف ضرور ثابت ہوں گے ۔
نعتیہ ،نظمیہ ، غزلیہ مجموعات کے بعد جبین نیاز ” خالد بزمی مرحوم کا پہلا حمدیہ مجموعہ ہے جو نومبر 2023 میں ان کی وفات کے چوبیس سال بعد شائع ہوا ۔
اگرچہ اس مجموعہ میں مرحوم کے حمدیہ کلام کے ساتھ ساتھ کچھ نعتیہ کلام بھی شامل ہے لیکن میں اس کو مرحوم کا حمدیہ مجموعہ ہی کہوں گی کیونکہ ایک تو اس میں شامل زیادہ تر کلام حمدیہ ہے اور دوسرے “جبین نیاز ” کے لفظی معنی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکنے والی پیشانی کے ہیں تو اپنے نام کے حوالے سے یہ حمدیہ مجموعہ ہی ہے ۔
اپنی وفات سے قبل روزنامہ “نواۓ وقت ” میں شائع ہونے والے اپنے آخری انٹرویو میں بھی مرحوم نے اپنے اس مجموعے کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا کہ
” بہت جلد میرا حمدیہ مجموعہ ” جبین نیاز ” کے نام سے پڑھنے کو ملے گا ۔
بیٹی ہونے کی حیثیت سے میری یہ کوشش تو رہی کہ میں ان کا وہ تمام حمدیہ کلام اس مجموعہ میں شامل کر سکوں جو ان کی وفات کی وجہ سے شائع ہونے سے رہ گیا تھا لیکن بہت کوشش کے باوجود میں وہ تمام کلام تو اکٹھا نا کر سکی لیکن اس کے باوجود الحمدللہ میں اس قابل ضرور ہوئی کہ ان کی خواہش کے مطابق ان کا حمدیہ مجموعہ شائع کروا پائی ہوں ۔
اگرچہ اس سے پہلے ان کے جو نعتیہ اور نظمیہ مجموعات شائع ہوۓ ان میں بھی ان کا کچھ حمدیہ کلام شامل تھا لیکن ” جبین نیاز ” میں زیادہ تر وہ حمدیہ کلام شامل ہے جو پہلے شائع نہیں ہوا تھا ۔
خالد بزمی ایک منجھے ہوۓ اور قادرالکلام شاعر تھے ۔ نعت کے حوالے سے کی جانیوالی ان کی کوششیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ ماہانہ نعتیہ مشاعروں کی بنیاد رکھنا ، نعت گو شعراء کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور غزل گو شعراء کو نعت لکھنے کی طرف مائل کرنا ، مرحوم کی وہ خوبیاں ہیں جو ان کو اپنے ہم عصر شعراء میں ممتاز کرتی ہیں ۔
انہوں نے نعت کے فروغ کے لئے جو عملی اقدامات اٹھاۓ اور اپنی نعت کو جس طرح تبلیغ اسلام کا ذریعہ بنایا وہ قابل داد و تحسین ہے ۔
وہ پختہ گو اور علم العروض کے ماہر کے طور پر بھی منفرد پہچان رکھتے تھے ۔ جس طرح ان کی نعت قاری میں عشق محمدی کے جذبات کو اور پختہ کرتی ہے اسی طرح ” جبین نیاز ” میں شامل حمدیہ کلام بھی ان کی بہت خوبصورت کاوش ہے ۔
عشق الہی میں ڈوبی ان کی حمد ، اللہ کی وحدانیت کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ قاری پر سحر بھی طاری کر دیتی ہے اور دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے اللہ ہو اکبر
خوبصورت الفاظ کا چناؤ ہمیشہ ہی مرحوم کے جذبات کے عکاس اور عمدہ انداز بیاں کی پہچان رہا ہے ۔
خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی تصاویر سے سجا ” جبین نیاز ” کا سرورق انتہائی خوبصورت اور پرکشش ہے جسے دیکھتے ہی ہر مسلمان کے دل میں اپنے ان مقدس مقامات کو دیکھنے کی تڑپ میں شدت أتی ہے اور دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ
” اے میرے رب ! مجھے جلد از جلد اپنے گھر کی زیارت نصیب فرما” اور جو لوگ حرمین شریفین کی زیارت کی سعادت حاصل کر چکے ہوۓ ہیں ان کے لبوں پر بھی دل سے نکلی یہی دعا أتی ہے کہ اللہ ہمیں دوبارہ اپنے گھر بلا ۔
پروفیسر خالد بزمی کے اس حمدیہ مجموعہ کو “پریس فار پیس پبلیکیشنز ” نے انتہائی عقیدت و احترام سے اشاعت کے مراحل سے گذارا ہے ۔اس میں شامل کلام کو باکمال ہونے کے ساتھ بڑے خوبصورت اور دلکش انداز میں کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔
“جبین نیاز ” میں شامل کلام کی نوک پلک شاعر نے بہت مہارت سے سنواری ہے جس سے ان کی سچی لگن اور جذبات کی اتھاہ گہرائی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
اس میں شامل کلام میں شاعر نے حمد اور نعت میں الفاظ اس خوبصورتی سے پرو کر کمال کے جوہر دکھاۓ ہیں اور وہ اپنے لازوال حمدیہ کلام کی بدولت ایک چمکتے ستارے کی مانند دکھائی دیتے ہیں ۔
” جبین نیاز ” میں شامل حمد و نعت کو شاعر نے اپنی ضیاء پاشیوں سے منور کیا وہ ویسے بھی ادب میں حمد و نعت کے حوالے سے وہ روشن چراغ تھے جس نے اپنی لو سے کئی اور چراغ جلاۓ اور اس حوالے سے وہ ایک زریں عہد کی مثال چھوڑ کرگئے ۔
پانچ عشروں سے زائد عرصہ تک حمد و نعت کے پھول کھلانے والے خالد بزمی کی ادبی خدمات تاریخ میں أب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔
اللہ اور اس کے محبوب کے ساتھ شاعر کی بے لوث محبت کے جذبات ، ان کے عشق الہی کی صداقت اور خلوص کی گواہی دیتے نظر أتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنے اس حمدیہ مجموعہ میں بھی وہ ادب میں درخشاں روایات کا علم بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
حمد و نعت کہنے کو ، شاعری کا نگینہ کہا جاتا ہے ۔ یہ کوئی أسان کام نہیں ہوتا ۔ اس فن میں کمال اسی کو حاصل ہوتا ہے جو دل میں اس حوالے سے سچے جذبات رکھتا ہے ۔
ادب کے کچھ ناقدین تو اس کو ادب کی مشکل ترین صنف سخن قرار دیتے ہیں کیونکہ یہاں پر بات پیدا کرنے والے رب اور اس کے محبوب کی ہوتی ہے جس کو خود رب نے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ہے اور دوسری طرف زبان ، الفاظ اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہوتے ہیں ۔
اس لئے حمد و نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو جذبہ عشق الہی اور عشق رسول سے سرشار بھی ہو اور فن کی باریکیوں سے بھی واقف ہو ۔
“جبین نیاز ” میں خالد بزمی ان تمام معیاروں پر پورا اترتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کے لۓ جذبات بھی سچے ہیں اور وہ شاعری کے فن کی باریکیوں سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔
حمد و نعت کہنے میں کمال وہی شاعر کر سکتا ہے جو اسلام کی روح ، دور رسالت کے واقعات اور قرآن و حدیث سے واقف ہو کیونکہ حمد و نعت کا رشتہ بہت نازک اور عقیدت و احترام والا ہوتا ہے اور یہ واقفیت ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ ذرا سی لغزش سے نیکی برباد اور گناہ لازم ہو جاتا ہے ۔
خالد بزمی چونکہ قرآن و حدیث سے واقفیت بھی رکھتے ہیں اور اس علم کے ماہر بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے علم کی مہارت سے “جبین نیاز ” میں شامل کلام کی خوشبو سے قاری کی زندگی اور ذہن کو مہکاتے نظر آتے ہیں ۔
حمد و نعت کے خوبصورت کلام سے سجے “جبین نیاز ” میں قرأن اور نماز پر بھی بہت پیارے اشعار شامل ہیں ۔
حضرت بلال نے اسلام قبول کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی جو تکلیفیں برداشت کیں ان سب مشکلات کو بھی شاعر نے بہت جذباتی انداز میں اشعار میں ڈھالا ہے ۔
خلافت کا دور ہم مسلمانوں کے لئے تاریخ کا وہ سب سے بہترین دور حکومت تھا جس کی مثالیں رہتی دنیا تک دی جاتی رہیں گی ۔ اس دور حکومت کے مثبت پہلوؤں اور اہمیت کو بھی شاعر نے بہت خوبصورت انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے اور انہوں نے آج بھی اس نظام کو اپنی زندگیوں میں لاگو کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔
“جبین نیاز ” مرحوم شاعر خالد بزمی کی تصنیفات میں نا صرف خوبصورت اضافہ ہے بلکہ یہ ادب کے چاہنے والوں اور خاص طور پر ان کے شاگردوں اور مداحوں کے لئےبہت پیاری تصنیف ہے ۔
ہم مرحوم کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئےدعاگو ہیں کہ ان کے جانے کے برسوں بعد بھی ہمیں ان کا خوبصورت کلام پڑھنے کو ملا اور وہ داد و تحسین کے حقدار بھی ٹھہرے ۔ بیشک خالد بزمی اپنے کلام ، علم ، شخصیت اور ادبی خدمات کی بدولت ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے ہیں اور رہیں گے ۔ان شاء اللہ
آخر میں “جبین نیاز ” میں شامل ان کے کچھ حمدیہ اشعار
اگرچہ وہ کسی کو پھی نظر آتا نہیں بزمی!
میں اسے شہ رگ سے بھی نزدیک تر محسوس کرتا ہوں
جو خالد بزمی سے ، لغزش کار کو بھی بخش دے
وہ صاحب صد مغفرت ، میرے خدا کی ذات ہے
پھولوں میں تیری خوشبو ، تاروں میں نور تیرا
ہر شے میں جلوہ گر ہے یا رب ظہور تیرا
گو آنکھ سے چھپا ہے لیکن تو ہر جگہ ہے
مخلوق کے دلوں سے گھر کب ہے دور تیرا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.