ممتاز شیریں
دوحہ۔قطر
روم کے نیرو کو بھی بڑی فکر تھی کہ تاریخ اسے اچھے الفاظ میں یاد کرے ۔ اس نے اس پر بے تحاشا خرچ کیا ۔
تعمیرات کے مجسمے بنائے۔۔ شاعروں لکھاریوں کی سرپرستی کی۔ خود بھی ان میں حصہ لیتا تھا۔ سرکاری تاریخ نویس ملازم رکھے۔ ان سے اپنے کارنامے لکھوائے۔ سارے جتن کر لیے لیکن عوام آج بھی کسی کی بے حسی جب بیان کرتی ہے تو کہتی ہے
“روم جب جل رہا تھا تب نیرو بانسری بجا رہا تھا.”
نیرو کی ساری سرمایہ کاری اور محنت رائیگاں گئی کیونکہ نیرو عوام کی اجتماعی دانش کے خلاف چل رہا تھا ۔
عوام تاریخ میں یہی وراثت لے کر چلتی ہے۔ اس لئے وقت کا فرعون ہو یا نیرو یہ سارے سرکاری وسائل اور سرکاری تاریخ دان رکھ کر بھی اپنا بیانیہ تاریخ نہ بنا سکے کیونکہ اجتماعی عوامی دانش اسے رد کر دیتی ہے ۔
فرعون کل بھی فرعون تھا آج بھی ہے۔
نیرو آج بھی جلتے روم کا ذمہ دار ہے۔
آج کے فرعون اور نیرو اور ان کے سرکاری تاریخ نویس ، شاعر ، کالم نگار آج بھی بس خود کو ہی تسلی دے رہے ہیں. ورنہ آج کی تاریخ بھی عوام ہی لکھ رہی ہے. ان کی یادداشت لکھ رہی ہے.
لیجیے ۔۔۔ ایک آمر بشار الاسد تاریخ کے حوالے ہوا  اس کے محل میں شامی عوام داخل ہو گئی
اللہ کسی بھی وقت کسی کے بھی زریعے اہل ایمان کی مدد کرسکتا ہے۔
ضروری نہیں ہر وقت فرشتے ہی مدد  کو اتریں کبھی کبھی وہ فرعونوں کی مدد سے موسیٰ کی پرورش بھی کروا لیتا ہے ۔
وَاللّـٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓى اَمْرِهٖ
بشار الاسد کی جیل میں بند قیدی پوچھ رہے تھے کہ آخر انہیں رہا کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا صدام حسین نے حافظ الأسد کا خاتمہ کردیا ہے ؟
پچھلے چار دہائیوں میں دنیا کتنی بدل چکی انہیں کا اس کا اندازہ بھی نہیں۔۔۔آہ۔۔آہ۔۔اس ٹریجڈی کو کون لفظوں میں بیان کر سکے گا؟
صیدنایا کی جیل کا نام سن رکھا تھا ۔ اور یہ بھی کہ ابن تیمیہ کے اس دیس کے جانے کتنے لعل و گہر اس جیل کی کال کوٹھریوں کی نذر ہو گئے ، کتنے جوان تھے کہ گئے اور کبھی واپس نہ آئے ۔ جانے کتنی عفت مآب خواتین پس دیوار زنداں ہیں ۔کبھی سوچنا بھی محال تھا کہ یہاں کے قیدی صبح کا سورج طلوع ہوتا دیکھیں گے۔
دمشق تعود لاهلھا۔
دمشق دمشق والوں کو واپس مل گیا ۔
الحمدللہ رب العالمین ۔
اللہ اہل شام کے دل ٹھنڈے کر دے ۔ ہمارے ان بھائیوں نے پچپن برس سے مسلسل ظلم برداشت کیا ہے ۔
یہ باپ بیٹا ایسے ، ظالم اور فرعون صفت حکمران تھے کہ لوگوں کو قید کرتے تھے اور بھول جاتے تھے ۔بشار الاسد کے باپ حافظ الاسد کے دور کے قیدی اب جیلوں سے نکل رہے ہیں ۔ان دونوں باپ بیٹوں کا دور مجموعی طور پر 54 سال پر مشتمل ہے ۔

حافظ الاسد کی فوج میں ایک شخص پائلٹ تھا اس کو حکم ہوا کہ فلاں علاقے پر بمباری کرنی ہے اس نے نہتے عوام پر بمباری کرنے سے انکار کر دیا اس کے اس جرم پر اس کو قید کیا گیا جو کل 42 برس بعد رہا ہوا ۔ اس کا رہا ہونے پر بولا گیا جملہ کل پوری دنیا میں وائرل ہوا کہ ۔۔۔
“کیا صدام حسین نے حملہ کر کے حافظ الاسد کو مار دیا ہے جو میں رہا ہو گیا ہوں ۔”
اسے کیا معلوم کہ اس کی زندگی کی نصف صدی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیت گئی ۔حافظ الاسد کو جہنم واصل ہوئے 24 برس بیت گئے ۔ خود صدام حسین کو دنیا سے رخصت ہوئے کئی برس ہوئے ۔
صیدانا جیل اتنی بڑی تھی کہ اس میں ہزارہا قیدی نکلے ہیں اور ابھی بھی اس کے تمام تر خفیہ کمرے اور سیل تلاش کیے جا رہے ہیں
شام کی جیلوں سے ایسے قیدی بھی رہائی پا رہے ہیں کہ جن کی عمر ہی سلاخوں کے پیچھے بیت گئی ۔ ایک معزز خاتون جب رہا ہوئی تو زندان میں اس کا بیٹا پیدا ہوا ، پلا بڑھا ۔۔۔۔ لیکن اس بچے کو یہ نہیں معلوم تھا کہ
” درخت اور پرندے کیا ہوتے ہیں ”
پچپن سالہ جبر آخر کار انجام کو پہنچا۔
زندانوں کی دیواریں گر گئیں۔
در و بام  لرز گئے۔
دروازے ٹوٹ گئے جو جابر تھے  ٹھکانہ ڈھونڈنے پر بھی ٹھکانہ نہ پا سکے جنھوں نے نصف صدی لوگوں کو نامعلوم رکھا آج خود نا معلوم ہیں۔
انَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَُ
( بے شک عقلمندوں کے لئے نشانیا ں ہیں)
جو آج جابر ہیں سوچ لیں کہ ان کے دن تھوڑے ہیں جبر جبر ہے ۔
ظلم کی رات جتنی بھی طویل ہو سحر ضرور طلوع ہوکر رہتی ہے۔
اللہ کی جنتری اپنا حساب پورا پورا رکھتی ہے۔
‏جب  خدا کہانی کا اختتام لکھتا  ہے .
‏سازشیں تو رہتی ہیں ، ہمتیں نہیں رہتیں۔۔!!
بلاد شام
نصف صدی کی کہانی ہے
یہ پل دوپل کی بات نہیں۔
امت کا تصور  کبھی معدوم نہیں ہوگا ان شاءاللہ۔۔
فتح اسلام کا مقدر ہے شام سے آنے والے باد صبا کے جھونکے اہل ایمان کے لیے نوید سحر ہیں۔۔
رات کہتی ہے عرب شاہوں سے
کٹ گئیں شام کی زنجیریں بھی
رات بے گورو کفن پھرتی ہے
حیرتیں خالی کمانیں لے کر
رزمئیے گاتی ہیں سرحد سرحد
راکھ اڑتی ہے محلات کی شہ دریوں میں
بیرکیں سونی ہیں بوسیدہ ہیں
اسلحہ زنگ زدہ
کند ہیں شمشیریں بھی
مسلمانوں کے گلی کوچوں میں
دن نکلنے ہی نکلنے والا ہے
رات کہتی ہے۔۔
مجھے دفن کرو ۔۔۔ مجھے دفن کرو۔۔!!


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content