ڈاکٹر تنزیل الرحمن
سنا تھا “لیپہ” سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی “حسین و جمیل” ہیں۔ لہذا اب کے موسم گرما کی تعطیلات میں بغرض تصدیق کشمیر کی اس “چند مہتاب” ویلی کا قصد کیا۔ کشمیری ثقافت کی امین اور لہلاتے سرسبز و شاداب کھیتوں کی سرزمین “وادی لیپہ” کے سفر کے ہم راہی واجد شمیم، عامر عباسی اور منصور تھے جبکہ لیپہ میں میزبان و مہربان کامران بھٹی اور ملک مبشر تھے۔ اس سفر کے مالی امور کے ناظم عامر عباسی صاحب مقرر ہوئے۔ واجد صاحب کی “آرام دہ گاڑی” اور “مناسب روڈ” کے موجب نیالی پل سے داؤ کھن تک یک دم پرپیچ عمودی اور بعد ازاں موجی تک خم دار ڈھلوانی اترائی کا “سفر” داؤ کھن اور ریشیاں کے چھوٹے موٹے پڑاؤ کو چھوڑ کر تقریباً ساڑھے چار گھنٹوں میں مکمل ہوا۔ پورا راستہ ہم راہیوں نے گاڑی کو کشت زعفران بنائے رکھا اور زیادہ تر “موضوع گفتگو” بہرحال واجد صاحب کے “دوستیالی” کی بے وفائی، بے اعتنائی و پیٹھ دکھانا رہا۔
جہلم ویلی کی تحصیل اور کرناہ کی خوبصورت وادی “لیپہ” تین یونین کونسلوں (نوکوٹ، لیپہ، بنہ مولہ) پر مشتمل ہے یہاں کی آبادی کم و بیش چالیس ہزار ہے۔ یہ وادی چاروں جانب سے بلند و بالا پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ ایک جانب گیارہ ہزار فٹ بلند داؤکھن ہے تو دوسری طرف مشہور و معروف بارہ ہزاری اور شمس بری پہاڑ پوری آب و تاب کے ساتھ زمین پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ لیپہ کو جغرافیائی طور پر دو واضح حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا۔ لیپہ کے وسطی مقام ٹنل چوک کی ایک طرف ترے راٹھ (غائی پورہ اور ملحقہ گاؤں) اور دوسری طرف محراج گنڈ (ملک پورہ، منڈل اور ملحقہ گاؤں) کے علاقے ہیں۔ لیپہ کے قابل ذکر گاؤں غائی پورہ، لب گراں، بٹلیاں، بجہل دار، سیدپورہ، سودپورہ، تلواڑی، لیپہ، ملک پورہ، کپہ گلی، کیسرکوٹ، نکوٹ، چننیاں، منڈہ کلی، موجی، انٹلیاں، گھاسلا، اور منڈل ہیں۔ متذکرہ گاؤں نالہ قاضی ناگ اور آٹھ نو کلومیٹر طویل روڈ کے گرد و پیش میں آباد ہیں۔ لیپہ چوھدری، مغل، اعوان، عباسی، ملک، بخاری سادات، بھٹی،ترک، بمبہ، میر، خواجگان، لون، شیخ، جنجوعہ، بدھن، قریشی، واڑ برداری کا خوبصورت گلدستہ ہے اور جملہ برادریاں یہاں باہم شیر و شکر ہیں۔
تعلیمی اداروں کی بات کریں تو لیپہ میں پانچ بوائز ہائی سکول، دو گرلز ہائی سکول، ایک ہائیر سیکنڈری سکول، ایک بوائز اور گرلز ڈگری کالج ہیں۔ یہاں نالہ قاضی ناگ پر دو فعال (بنہ مولہ اور منڈل) اور ایک غیر فعال پن بجلی گھر موجود ہیں جو تحصیل لیپہ کی برقی ضروریات کو کماحقہ پورا کرتے ہیں اور یہاں لوڈ شیڈنگ کا کوئی سین نہیں۔ لیپہ چونکہ تین اطراف سے بھارتی افواج کے نرغے میں ہے اس لیے یہاں عسکری یونٹ و چیک پوسٹیں جابجا ہیں۔ پاک فوج کے زیر انتظام ہسپتال یہاں کی طبی ضروریات کو پورا کرتا۔
لیپہ کے لوگ پرخلوص، مہمان نواز، دیندار، وضع دار، خوبصورت، اور فطرتاً سادہ طبیعت ہیں۔ ذریعہ معاش کاشت کاری، تجارت، سرکاری ملازمت ہے۔ کچھ لوگ لوکل ووڈ انڈسٹری سے بھی منسلک ہیں۔”سیاحتی قباحتیں” فلحال لیپہ میں اپنی جگہ نہیں بنا سکی ہیں اور کمرشل ازم کی عفریت بھی ابھی یہاں مکمل طور پر ظہور پذیر نہیں ہوئی۔ البتہ اس ضمن میں مستقبل بعید از قیاس ہے۔ طرز زندگی سادہ اور فطرت کے قریب تر ہے۔ یہاں نکوٹ میں خالصتاً لکڑ کے بنے گھر انتہائی دل کش اور قدیم کشمیری روایتوں کے امین ہیں۔ یہاں آئیں تو نکوٹ میں پانچ منزلہ اور 82 سالہ قدیم خالصتاً دیودار کی لکڑ کا تعمیر شدہ بنگلہ ضرور دیکھیں۔
لیپہ کی اصل خوبصورتی یہاں کے سر سبز و شاداب، تا حد نگاہ لہلاتے وسیع و عریض، قدم بہ قدم کھیت ہیں۔ آزاد کشمیر میں غالباً اس درجہ کے دل کش اور وسیع و عریض کھیت شاید ہی کسی اور جگہ ہیں۔ ان کھیتوں میں دھان اور مکئی کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ ان کھیتوں کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ہر سیزن میں مختلف رنگ و روپ میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ نالہ قاضی ناگ ان کھیتوں کی آب یاری کرتا ہے۔ چنیناں کے پاس نالہ قاضی ناگ کا سرد پانی لیپہ کی نسبتاً گرم دوپہر کے اثر کو زائل کرنے کیلئے بہترین مقام ہے۔ لیپہ جائیں اور منڈہ کلی کا بیلہ نہ دیکھیں تو یہاں کی تفریح مکمل نہیں ہوتی، البتہ یہ روڈ ارباب اختیار کی توجہ کی شدید متقاضی ہے۔
وادی کشمیر کی تہذیب، تمدن، ثقافت اور طرز بود و باش کو کم وقت و سفر میں دیکھنے اور سمجھنے کیلئے “لیپہ ویلی” بہترین انتخاب ہے جہاں یہ سب عناصر موجی سے چنیاں آٹھ کلومیٹر روڈ کے گرد ونواح کمال نفاست سے سموئے ہوئے ہیں۔
ہم راہیوں کی محبت، خلوص، مزاح و احترام اور کامران بھٹی صاحب و ملک مبشر صاحب کی مہمان نوازی اور قیمتی وقت سے گندھا وادی لیپہ کا یہ دو روزہ دورہ کئی خوش گوار یادوں کے ساتھ گزشتہ رات گیارہ بجے پایہ تکمیل کو پہنچا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.