روشنی کے ساتھ رہئے روشنی بن جائیے
مہر عالم تاب نے اپنے جلوے بکھیرے اور پوری آب وتاب سے چمکنے لگا تو اپنے نصف بہتر کے ہمراہ گھرسے نکلے ۔حسب معمول اپنے سفر کا آغاز دعاؤں اور مناجات سےکرتے ہوے موٹر وے پر آئے تو دل مسرت سے لبریز تھا۔سال بھر کی علالت،چلنے پھرنے سے معذوری،کہیں آنے جانے سے لاچاری تو آج جب میں پشاور جارہی ہوں۔کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں تویہ بات باعث مسرت بھی اورباعث شکربھی ہے ۔شکر اس رب کریم کا جو بیمار کرتاہے تو شفا بھی وہی دیتا ہے۔الحمدللہ الحمدللہ الحمدللہ
موٹر وے کے دونوں طرف سرسبز درخت گویا کھلکھلا کر ہنس رہے تھے ۔اسمان زیادہ نیلااورخوب صورت لگ رہا تھا۔مہر تاباں نے اپنا تسلط یوں جما لیا تھا کہ کائنات روشن تراورخنکی میں اب ہلکی سی گرمی در آئ تھی ۔جواچھی لگ رہی تھی ۔رات اور دن اللہ سبحان و تعالیٰ کی نشانیوں میں سب سے بڑی نشانی اور اس کے واحد لا شریک ہونے کی دلیل ہے ۔
کبھی کبھی زندگی میں بھی رات کی طرح آزمائش وابتلا کے اندھیرے در آتے ہیں ۔ایسےمیں  دعااورامید کے چراغ ہی ہیں جو ان تیرہ و تار راتوں میں امید سحر کو جگانے رکھتے ہیں ۔
الحمدللہ میرادل شکر سے لبریز ہے کہ آج میں ایسے روش دماغ لوگوں سے ملنے جارہی ہوں  جو اجالوں کے نقیب اور روشنی تقسیم کرنے والے ہیں۔وہ مہربان اورخوش خلق دو ہستیاں جنہوں نے میری بیماری میں باقاعدگی سے دعا کے پھول بھیجے۔”اپ کے لئے دعائیں اور دل سے دعائیں” یہ پیغام مجھےخوش کردیتا۔”میڈم آپ ہماری دعاؤں میں ہیں “یہ سندیسے سر شار کردیتے ۔
شکر گزاری ،مسرت اورایسے ہی خیالوں میں غلطاں و پیچاں اس عظیم درسگاہ پہنچ گئے۔علم واگہی تقسیم کرنے والی اساطیری وتاریخی عمارت کے اندر داخل  ہوئے۔ ۔تشنگان علم کی ٹولیاں جابجا محو خرام تھیں۔
تہذیب ،ثقافت اور پھولوں کی زبان اُردو
تو جی ہم پشاور کی عظیم الشان یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سامنے جا  رکے، اپناواکر نکالا اتنے میں شعبہ اردوکے چئیر مین ، منکسرالمزاج ڈاکٹر سلمان علی نے باہر آکر پرجوش سواگت کیا۔ان کے ساتھ کچھ اور پروفیسر صاحبان بھی تھے ۔میرا تعارف کروایا ۔میں آہستہ چلتی ہوئی ان کے دفتر داخل ہوئی انہوں نے لپک کر اپنی اونچی کرسی کھینچ کر مجھے بیٹھنے کو کہا ۔شعبہ اردو کے چیئرمین کی اونچی کرسی پر بیٹھنے میں کچھ تامل ہوا۔ڈاکٹر سلمان نے کرسی آگے کی میڈم بیٹھیں ۔بیٹھ کر دل تشکر سے بھر گیا۔ اتنے میں نسیم بھی آگئے ۔ڈاکٹر فرہانہ قاضی  میرے قریب آکر بیٹھ گئیں۔بات چیت کرتے ہوے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوے کہنے لگیں آپ نے کتنا پیارا رنگ پہنا ہے ۔میں نے کہا یہ آپ کا حسن نظر ہے۔اس پر انہیں یاد آگیا کہ گزشتہ سال بے نظیربھٹو وومن یونیورسٹی میں لٹریچر فیسٹول میں بھی آپ نے جو رنگ پہنا تھا ۔وہ بہت خوب صورت لگ رہا تھا۔اتنے میں ہنستی مسکراتی خوش اداخوش جمال روبینہ شاہین بھی تشریف لے آئیں ۔بہت تپاک اور گرم جوشی سے گلے لگایا۔انہیں ڈین بننے کی مبارکباد دی ۔محبت کے بھی کتنے رنگ اور روپ ہیں ۔اوراپنے من پسند دل کے قریب لوگوں سے مل کر جو روحانی خوشی ہوتی ہے ۔وہ بیان نہیں کی جاسکتی ۔

تحقیقی مقالہ
تحقیقی مقالہ

ڈاکٹر سلمان علی نے شیلف سے اپنی زیر نگرانی مریم اعوان کا لکھا ہوا مقالہ نکالا۔ڈاکٹرسلمان شعبہ اردو کے چیئرمین ہیں اوران کی پی ایچ ڈی کا مقالہ” اردو کی منتخب خودنوشت سوانح عمریوں میں خرق  عادات واقعات کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ”  پر ہے ۔انہوں نے 75 آپ بیتیوں میں سے 50 آپ بیتیاں منتخب کرکے ان پر تحقیقی وتنقیدی مقالہ تحریر کیا ۔آپ بیتی کو پرکھنے کاوہ ایک کڑا معیار رکھتے ہیں۔ان کامیری آپ بیتی کو منتخب کرنا اور اپنی زیر نگرانی گولڈ میڈلسٹ طالبہ سے اس پر کام کروانا میرے لئے فخر وانبساط اور اللہ کی بہت بہت شکر گزاری کا باعث ہے ۔ڈاکٹر سلمان جن کے بارے میں  روبینہ کہتی ہیں ۔یہ پکا پکا درویش بندہ ہے ۔ڈاکڑ سلمان ادبی محافل ،تام جھام نمود و نمائش سے قطعی گریزاں ہیں ۔سادگی اورمنکسرالمزاجی کا پیکر
ایسے درویش صفت  انسان کےہاتھ سے مقالہ وصول کرنا بھی باعث اعزاز ہے۔ روبینہ نے اپنے موبائل کے کیمرے میں ان لمحات کو محفوظ کیا۔ہم نے اپنا سفر نامہ “کھلی آنکھوں کاخواب “پیش کیا۔پھر روبینہ کو اپنا سفر نامہ دیا تو ڈاکٹر سلمان نے تصویریں لیں ۔ان پر مسرت لمحات کے بعد میز پر چاے لگادی گئ۔ ہمارے منع کرنے کے باوجود پر تکلف چائے کا انتظام کر لیا گیا ۔چائے پر ڈاکٹر فرحانہ قاضی ،ڈاکٹر سہیل بھی موجودتھے۔چائے چاء سے پلائی گئی اوربہت عمدہ علمی وادبی گفتگو نے چائے اورسموسوں کے لطف کو دوبالا کیا۔چائے پر آپ بیتیاں،شاعروں کی تعلیاں ، نجی یونیورسٹییوں کا کردار،اور ادیبوں کی خودستائی بہت مزے کی گفتگو رہی ۔روبینہ کی یہ بات بہت بھلی لگی کہ بڑا آدمی وہ ہے جس کی محفل میں بیٹھے لوگ  خود کو کمتر محسوس نہ کریں۔آپ بیتیوں میں خارق عادات باتوں اور بلند بانگ دعوؤں  کے بارے میں بات ہوئی تو ڈاکٹر سلمان نے کہا صوفی کو تو خود پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس مقام پر ہے ۔میں نے کہا ہاں اخفاء تو عشق حقیقی کی لازمی شرط ہے وہ جودرد نے کہا ہے کہ
سرتاقدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم پر یہ کہاں مجال کہ کچھ گفتگو کریں
پھرروبینہ میری طرف جھک کر کہنے لگیں ۔یہ پکا صوفی ہے ۔اس پر ڈاکٹر سلمان نے چونک کر بڑی سادگی اور معصومیت سے کہا کون میں ؟ہاں میں تو بہت پہنچا ہوا آدمی ہوں نا
حیہ اور ایسی ہی علمی ادبی پرلطف گفتگو رہی کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ہمارے نصف بہتر بھی شریک گفتگو رہےاور اپنی دیرینہ عادت کے مطابق جلدی نہیں مچائی دل تونہیں چاہ رہا تھا مگر دوبج گئے تھے اجازت لی ۔روبینہ اورڈاکڑسلمان باہر گاڑی تک چھوڑنے آئے۔
روبینہ مجھے واکر کے ساتھ چلتے دیکھ کر اداس ہوئیں اوریہ بات بار بار کہتی رہییں ۔آپ بہت بہادر ہیں ۔گاڑی کے قریب اسلامیہ کالج کے پروفیسر سے ملاقات ہوئی ۔انہوں نےدعوت دی کہ اسلامیہ کالج آئیں ۔روبینہ نےکہا ہاں آپ آئیں تو چلیں گے ۔ان کی لائبریری بہت شاندار ہے۔
گاڑی میں بیٹھ کر شکر کے سجدے کئے ۔دل نے کہا میں کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں۔۔    یہ  سب تیرا فضل اور عطاہی عطاہےکہ دو لفظ لکھنے کی صلاحیت دی ۔اس لکھے کو پذیرائی دی۔
تعریف وتوصیف کاحقدار ٹہرایا ۔2021 کا اباسین ایوارڈ برائے نثر  ملا ۔اور اب اسی خود نوشت پر دوبہت پیاری قدیم  اساطیری معیاری یونیورسٹیوں سے تحقیقی مقالوں کا لکھا جانا اللہ کاکرم نہیں تو اور کیا ہے ۔
انہی خیالات اور شکر کے گہرے احساس سے مملو موٹر  وےپر پہنچے تو صاف آسمان پر پورن ماشی کے چاند کی ٹھنڈی اور میٹھی روشنی میں پوری کائنات نہائ ہوئ تھی ۔زندگی کے آسمان پر بھی کچھ لوگ ٹھنڈی میٹھی سی روشنی لئے ہوتے ہیں ۔ روشنی کا استعارہ!جن سے مل کر ،بات کرکے دل ودماغ روشن ہوجاتے ہیں۔
ایک شعرنے دردل پر دستک دی
اک پتنگے نے یہ اپنے رقص آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہئیے، روشنی بن جائیے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content