افغانہ حبیب
اس دنیا میں ہر کام کا آسان ہونا بہت دشوار ہے ہر کام آسان نہیں ہوا کرتا۔ کسی بھی کام کو مکمل کرنے کے لیے بہت محنت و مشقت کرنے پڑتی ہے۔ اسی طرح ہر آدمی میں حقیقی صفات انسانی نہیں ہوا کرتیں گویا انسان کو مکمل انسان بننا نہایت مشکل ہے۔
انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اکیلا نہیں رہ سکتا ہے۔ یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ رہے۔ انسان کے اندر انسانی خصائص اور خصلتیں سماج کے اندر رہ کر ہی پیدا ہوتی ہیں۔ پیدائشی طور پر انسان کے اندر خصلتیں نہیں پائی جاتی۔ وہ معاشرے میں رہ کر ہی سب کچھ سیکھتا ہے چائیے وہ ایک اچھی عادت ہو یا بری۔ انسان اور معاشرے کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہے۔ انسان کو اللّٰہ تعالی نے ایک دوسرے کے ساتھ دکھ درد بانٹنے کے لیے پیدا کیا ہے۔انسان ایک دوسرے کا غم خوار ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ غم اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ اسی غم اور خوشی میں شرکت کی وجہ سے انسان کے اندر جذبہ، پیار ،محبت اور قربانی پیدا ہوتی ہے وہ معاشرہ ایک مستحکم معاشرہ بن جاتا ہے۔
قاسم علی شاہ لکھتے ہیں۔
“کہ اس معاشرے میں شکریہ بڑھا دیں اس معاشرے میں بے قدروپن بہت ہے کوئی قدردانی نہیں کر رہا لوگ اپنے بزرگوں کی قدردان نہیں ہیں، اپنے اساتذہ کرام کے قدردان نہیں ہیں، اپنے دوستوں کے قدردان نہیں ہیں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کے قدردان نہیں ہیں اس معاشرے میں اگر شکریہ بڑھ جائے کہ اس جیسا ملک اور معاشرہ نہیں ہو سکتا۔”
جب کسی معاشرے میں محبت، پیار اور قربانی نہ ہو تو اس معاشرے میں آہستہ آہستہ انسانیت ختم ہونے لگتی ہے وہ معاشرہ انسان نما بھیڑیوں کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے تو معاشرے سے امن و سکون ختم ہو جاتا ہے۔
تہذیب یافتہ قومیں میں یہ سمجھتی رہی کہ جتنا آدمی تعلیم یافتہ ہو جائے گا اس کے اندر انسانیت پیدا ہوتی ہے مگر نتیجہ بالکل برعکس نکلا ۔ دور حاضر میں ہر کام مشینوں سے کیا جاتا ہے پہلے جتنا کام لوگ خود کرتے تھے اتنی انسانیت تھی لیکن آج کل جتنی آسانی سے کام کرتے ہیں پھر بھی انسان خوش نہیں ہے آج کل کا انسان تنہا رہنا پسند کرتا ہے کیونکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے ۔ عصر حاضر میں سوشل میڈیا کا استعمال کرتا رہتا ہے ۔ایک انسان کو دوسرے انسان کے لیے سوشل میڈیا سے فرصت نہیں ملتی کہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار لے پھر اس کو پتہ نہیں ہوتا کہ معاشرے میں کیا غلط ہو رہا ہے کیا صحیح۔ مثال کے طور پر دو لوگوں کے آپس میں اگر لڑائی ہو رہی ہو تو تیسرا ویڈیو بناتا ہے اور آپس میں ان کا صلح نہیں کراتا ۔
جب انسان کے اندر انسانیت ختم ہو جاتی ہے تو اس کے اندر جانوروں جیسی صفت پیدا ہوتی ہے اس کے اندر صحیح اور غلط کا شعور ختم ہو جاتا ہے وہ حق اور باطل کے درمیان فرق نہیں کر سکتا ۔
تنہائی اور علیحدگی میں رہنے شخص نارمل انسان نہیں ہوتا “کا سپر ہاؤسر” ایک جرمن بچہ تھا اسے بچپن میں ہی نوریمبرگ جنگل میں رکھ دیا گیا جب وہ سترہ سال کا ہو گیا تو اس سے 1928 میں انسانوں کے درمیان لایا گیا اس وقت وہ نہ ٹھیک سے بول رہا تھا نہ صحیح سے چل رہا تھا۔اس کے اندر زندہ اور مردہ چیز کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت بھی نہیں تھی اس کے مرنے کے بعد جب اس کے دماغ کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو نتیجہ نکل کر سامنے آیا کہ اس کے دماغی بالیدگی میں کمی رہ گئی تھی اور یہ کمی اسے مناسب تعلیم دینے پر بھی دور نہیں ہو سکتی تھی۔
انسان معاشرے کے بغیر نا مکمل ہے اس کی شخصیت کی تعمیر لوگوں کے درمیان رہ کر ہی ہوتی ہے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت معاشرے میں رہ کر پیدا ہوتی ہے.
انسان بننے کے لیے پیدائش سے لے کر آخری سانس تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کو آہستہ آہستہ بولنا سکھایا جاتا ہے پھر اچھے اور برے میں تمیز، بڑوں کا احترام ،محبت ،پیار، جذبہ اور قربانی سب کچھ سکھایا جاتا ہے تو یہ ایک اچھے معاشرے میں اچھے عادات سیکھتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں آج کل رہن سہن، غذائی عادات ، لباس، رسوم و رواج وغیرہ میں تنوع پایا جاتا ہے بلکہ زبانوں کے معاملے میں یہ بات اور بھی اہمیت اختیار کر جاتی ہے ۔ہمارے بچے کہتے ہیں کہ فلاں بچے کو میں نے دیکھا تو وہ اچھی انگریزی بول رہا تھا میں نے بھی سیکھنی ہے میں بہت پیچھے ہوں لوگ آگے جا رہے ہیں اور میں پیچھے ہوں حالانکہ بچے کو قومی زبان آتی بھی نہیں ہے آج کل زیادہ تر لوگ انگریزی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں قومی زبان کو ترجیح نہیں دیتے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس نے انگریزی سیکھی اس نے دنیا فتح کر لیا حالانکہ تہذیب یافتہ قومیں اپنی زبان میں ترقی کرتے ہیں قومی زبان کے بغیر ترقی ناممکن ہے ۔اگر معاشرے میں تعصب بڑھ جائے تو معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا ۔تعصب ایک بری عادت ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔
سر سید احمد خان تعصب کے بارے میں لکھتے ہیں۔
” کہ انسان کی خصلتوں میں تعصب ایک بدترین خصلت ہے یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت و برباد کرتی ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.