جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو

قائم رہو حسین کے انکار کی طرح

اس لازوال شعر کے خالق شاعر نسیم لیہ کے نام سے تو بچپن میں ہی واقفیت ہو گئی تھی۔۔۔میری دو پھوپھیاں طاہرہ سلطانہ اور ناصرہ سلطانہ لیہ میں رہتی تھیں ۔۔۔

بڑی پھوپھی طاہرہ سلطانہ شاعرہ تھیں۔۔ان کے استاد شاعر ارمان عثمانی ۔تھے۔۔وہ اس زمانے میں لیہ کے مشاعروں میں حصہ لیتی تھیں۔۔جب لیہ میں کسی بھی خاتون کا گھر سے نکلنا نا صرف معیوب بلکہ ناممکن تھا۔۔۔سب خواتین گھر سے نکلتے ہوئے برقعے میں مستور ہوتیں۔۔۔مگر طاہرہ سلطانہ ساڑھی پہنے ، سیاہ چشمہ لگائےسٹیج پر اپنی شاعری سنا رہی ہوتیں۔۔۔ان کے شوہر یعنی ہمارے پھوپھا امان اللہ خان ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے ساتھ ہوتے۔۔۔

استاد شاعر ارمان عثمانی کو رہائش کے لیے بھی گھر کے اندر ایک کمرہ دے رکھا تھا۔۔۔ان کے طعام و قیام کی ذمہ داری ملازمین کے ذمہ تھی۔۔۔

تاکہ طاہرہ سلطانہ کو جب کوئی نئی آمد ہو اور وہ اصلاح کی ضرورت محسوس کریں ۔۔۔تو استاد کی رہنمائی انھیں میسر ہو۔۔۔

اپنی پھوپھی کی زبانی لیہ کے جن  معروف شعرا کے بارے میں علم ہوا۔۔۔ان میں خیال امروہوہی،  ڈاکٹر قیصر عباس ۔۔۔اور  نسیم لیہ ۔۔۔ زیادہ معروف نام  تھے۔۔۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر مصطفے زیدی بھی لیہ میں کچھ عرصہ ڈپٹی کمشنر تعینات رہے تھے۔۔۔انھوں نے اپنی بیگم ویرا زیدی کے نام پر ایک سٹیڈیم بھی لیہ میں بنوایا۔۔۔جس کا نام۔۔۔ویرا سٹیڈیم۔۔۔ہے۔

گو مصطفے زیدی کی شاعری اور شہرت میں شہناز گل نامی خاتون کا زیادہ ذکر ہے۔

نسیم لیہ۔۔۔بے مثال شاعر ہونے کے باوجود پاکستان کے اردو کے شعرا میں وہ نام یا مقام نا پا سکے جو بڑے شہروں میں رہنے والے ادیب شاعر حاصل کر لیتے ہیں۔۔۔تحریک قیام پاکستان کے وقت انھوں نے انقلابی شاعری بھی کی ۔۔جس کی پاداش میں ان کے ہندو افسر نے انھیں نوکری سے سبکدوش کر دیا۔۔

قیام پاکستان کے بعد انھوں نے۔۔۔لائبریرین  کی حیثیت سے کام کیا۔۔۔بہت سارے مشاعروں میں حصہ لیا۔۔اور ان کا اردو کلام ادبی رسائل میں شائع ہوتا رہا۔

آئینہ مثال ان کی بیٹی جو کمسنی میں ہی والد کی شفقت سے محروم ہو گئی تھیں۔۔نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والد کے نام اور کلام کو ملک پھر میں پھیلانے کے لیے کوشاں ہو گئیں۔۔۔

ان کا نام آئینہ مثال ان کے والد نے بہت سوچ بچار کے بعد رکھا تھا۔۔۔اور یہ منفرد نام ابھی تک صرف۔۔ایک لڑکی یعنی آئینہ مثال کا ہی ہے۔۔جس نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو ایم اے کیا اور اپنے والد۔۔نسیم لیہ پر تھیسس لکھا۔۔

تعلیم۔ حاصل کرنے کے بعد انھوں نے شعبہ صحافت میں قدم رکھا اور روزنامہ خبریں سے بطور میگزین ایڈیٹر عملی زندگی  کا آغاز کیا۔۔۔

آئینہ مثال نے کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری بھی شروع کی۔۔انھوں نے میری کتاب ۔۔تیز ہوا کا شہر۔۔۔پر بھی ایک کالم لکھا۔جس کا عنوان تھا۔۔” تیز ہوا کا شہر۔۔شہر دل میں ” ۔جو روزنامہ ۔۔حریف۔۔میں شائع ہوا۔۔

ان کی خواہش تھی کہ ان کا ایک افسانہ ڈرامائی تشکیل کے بعد ہم ٹی وی سے نشر ہو۔

جس کا اظہار آئینہ مثال نے ڈاکٹر ایوب ندیم کے ٹی وی شو میں انٹرویو کے دوران کیا۔

آئینہ مثال کی زندگی کا مقصد اپنے والد کی شاعری کو پروموٹ کرنا ،  انھیں حکومتی سطح پر ایوارڈز دلانا اور ان کو وہ منصب دلانا تھا جس کے وہ حقدار تھے۔

وہ ہر جگہ ، ہر پلیٹ فارم پر اس کا ذکر کرتیں۔

7 اکتوبر 2024 کو انھوں نے مجھے ۔اپنا آخری کالم بھیجا۔۔۔جو ان کے والد کے بارے میں تھا۔۔کالم کا عنوان تھا۔۔۔”تحریک پاکستان میں قلم کا ہتھیار تھامے نسیم لیہ”

وہ “جہان آئینہ” کے عنوان سے کالم لکھتی تھیں۔۔۔

اس کالم میں اپنے والد نسیم لیہ کا تعارف اس طرح سے کرواتی ہیں۔

” کچھ لوگ مثل چاند ہوتے ہیں ۔کہ ان کی تابناکی آسماں کی بلندیوں سے پورے جہاں میں روشنی بکھیری ہے۔اور پوری کائنات انکی روشنی اور تابناکی سے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل کرتی ہے۔۔جنوبی پنجاب کے دور افتادہ شہر لیہ میں جنم لینے والی شخصیت عبدالسمیع جن کے نصیب کی بلندی نے دینی اور عالم گھرانے میں پیدا ہونے والی اس ہستی کو وہ شہرت بخشی کہ اپنے دور افتادہ شہر لیہ کی پہچان ہی وہ بن گئے، شاعر شباب نسیم لیہ جنہوں نے یہاں کی سرخ زندگیوں میں اپنی آفاقی و انقلابی شاعری کے چراغ جلائے۔ عالم گھرانے میں پیدا ہونے والے عبدالسمیع فن شاعری میں اپنے تخلص نسیم لیہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئے اور چاند کی صورت جگمگائے “

افسوس کہ یہ کالم آئینہ مثال کی زندگی کا آخری کالم تھا جو انھوں نے مجھے بھیجا۔

۔۔24 اکتوبر 2024 کو یہ افسوسناک خبر ملی کہ آئینہ مثال لاہور میں حرکت قلب بند ہونے سے خالق حقیقی سے جا ملی ہیں۔

دل کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ ایک زندگی سے بھرپور پرعزم نوجوان لڑکی ایک دم دنیا چھوڑ کر کیسے جاسکتی ہے۔۔۔اس نے زندگی بھر اپنے والد سے والہانہ عشق کیا۔۔ان کی ہر بات ان کے والد کے حوالے سے شروع ہو کر ان پر ختم ہوتی تھی۔۔۔مگر زندگی نے ان سے وفا نہیں کی۔۔اور وہ کمسنی میں ہی اس دنیا کو چھوڑ گئی۔۔۔۔کچھ عرصہ پہلے اس کی والدہ کا انتقال ہوا تھا۔۔شاید اس  دنیا میں اس کی ڈھال اور استقامت والدہ کے دم سے تھی۔۔۔ان کی جدائی کا صدمہ برداشت نا کرسکی۔۔۔صحافت اور ادب کی دنیا کا ایک ابھرتا ہوا ستارہ موت کی وادیوں میں ڈوب گیا۔۔۔

اللہ اس کی اگلی منزلیں  آسان کرے۔۔۔۔حکومت وقت سے درخواست ہے کہ نسیم لیہ کو حکومتی اعزاز دیا جائے تاکہ آئینہ مثال کی روح کو سکون مل سکے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content