سلسلسہ وار کالم
شمس رحمان مانچسٹر/ میرپور
تعارف
فلسفیوں نے آج تک دنیا کی تشریح ہی کی ہے۔ مسئلہ اس کو بدلنے کا ہے۔
ہم نے بھی پچھلے ابواب میں تشریح ہی کی ہے کہ میرپوری معاشرہ کیسا تھا اور اب کیسا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس کو بدلا کیسے جائے
بدلنے کے لیے بنیادی سوالات یہ ہوتے ہیں، یا کم از کم ہونے چاہیں ، کہ جو ہے اس میں سے کیا بدلا جائے/ کیوں بدلا جائے/ کیسے بدلا جائے/ کون بدلے گا/ جو کچھ بدلا جائے گا اس کی جگہ کیا لایا جائے گا/ کیوں لایا جائے گا/ کیسے لایا جائے گا/ کون لائے گا/۔ یہ تبدیلی لانے کے علمبردار نظریات اور نظریاتی سیاست کے بنیادی سوالات ہیں۔
یہ ایسے ہی ہے کہ جسمانی بیماریوں کے لیے جب شربت یا گولی کی شکل میں دوائی سے کام ‘اپرتیں’ ہو جائے یعنی آگے بڑھ جائے تو فوری اثر کے لیے ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ اس عمل میں ٹیکہ اگرچہ لازمی ہوتا ہے لیکن علاج ٹیکہ نہیں کرتا بلکہ وہ دوائی کرتی ہے جو ٹیکے کے ذریعے شریان میں داخل کی جاتی ہے۔ ٹیکہ تو کوئی بھی لگا سکتا ہے ۔ لیکن کون سی دوائی کس بیماری کے لیے اور کتنی مقدار میں کب کتنی بار دینے ہے / ان سوالات کے جواب ہر ٹیکہ لگانے والے کو نہیں معلوم ہوتے۔ یہ علم ڈاکٹر کے پاس ہوتا ہے جس نے کم از کم سات سال ( دو سال ایف ایس سی اور پانچ سال ایم بی بی ایس) لگا کر یہ علم حاصل کیا ہوتا ہے۔ یہ جو علم ہوتا ہے کہ کیا ، کیوں، کیسے ہے اور کیا کیوں کیسے بدلا جا سکتا ہے بنیادی طور پر ان سوالوں کے جوابات تجربے اور مشاہدے کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں ۔ یہ نظریے کی بنیادی ترین تعریف ہے۔ نظریات انسانی سوچ و فکر سے مل کر تشکیل پاتے ہیں۔ انسان کی وہ سوچ و فکر جو روزی روٹی حاصل کرنے یا پیدا کرنے کے عمل (پیداواری عمل) کے دوران پیدا ہوتی ہے ۔
میں نے جان بوجھ کر پہلے کے ابواب میں معاشرے کے صرف ان پہلوؤں پر بات کی جن کو تاریخی مادیت کے نظریے میں معاشرے کی جڑ بنیاد کہا جاتا ہے۔ میں نے انسانی سوچ و فکر کے سفر کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بات بہت پیچیدہ ہ جاتی جس کی وجہ سے پڑھنے والوں کے لیے پڑھنا اور بھی مشکل ہو جاتا۔ خاص طور سے ان کے لیے جنہوں نے تاریخی مادیت کا نظریہ نہیں پڑھا ہوا ۔
ورنہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے خالق کی طرف سے اس کو ایسی صلاحتیں سے نوازا ہوا ہے کہ جب وہ بھوک مٹانے کے لیے خوراک ڈھونڈنے کے قابل ہوا تھا تو ہر ایک سرگرمی اس کے دماغ میں بھی سوچیں، خیال، سمجھ بوجھ ( شعور کے بیج) کی سرگرمیاں پیدا کرتی تھی جو اس کے ذہن میں جا کر محفوظ ہو جاتیں۔ یعنی انسانی شعور کا سفر اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے سفر کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ اگرچہ مارکس اور اینگلز نے ‘ جرمن آئیڈیالوجی’ میں یہ دعویٰ کر کے کہ پہلے مادہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس میں سوچ پیدا ہوتی ہے یعنی پہلے مادہ پھر سوچ کے انکشاف نے سماجی علوم اور فلسفے کا رخ بدل کر رکھ دیا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسانی روزمرہ کی اور طویل مدتی سرگرمیوں میں سوچ و فکر کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔ انسان میں یاداشت کی صفت کی وجہ سے وہ جو کچھ کرتا ہے اس کے دماغ میں اس کی یاد ریکارڈ ہو جاتی ہے اور جب چاہے اس کو دوبارہ یاد کر سکتا ہے ۔ یہ انسانی شعور کی بنیاد ہے اور لاکھوں سالوں کے سفر کے دوران سادہ سی ضروریات پوری کرنے کے لیے سادہ سی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی سادہ سی یادیں، سادہ سی سوچیں ، سادہ سے خیالات ، سادہ سا شعور، مادی ضروریات میں پیچیدگی کے ساتھ ساتھ بتدریج پیچیدہ اور انتہائی پیچیدہ ہو تے چلے گئے۔ اس سفر کے دوران انسان نے اپنے اپنے عہد کے حالات کے مطابق اپنے گردوپیش کے حالات و واقعات اور کائنات ( جس مرحلے پر وہ جتنی بھی تھی یعنی زمین کے مختلف خطوں میں بس نے والے انسان اس کو جتنا بھی سمجھتے تھے) کے بارے میں اپنی بساط کے مطابق سوچا اور اس کے بارے میں ‘ نظریے’ پیش کیے۔ اس باب میں اب ہماری ساری توجہ نظریے اور نظریاتی سیاست پر مرکوز رہے گی۔
اس حصے میں نظریاتی سیاست کے مختلف اجزاء اور پہلوں پر بحث کی گئی ہے۔ سب سے پہلے نظریے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں کہ نظریہ کیا ہوتا ہے؟ علمی اور سیاسی نظریے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اس کے بعد یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ریاست جموں کشمیر میں ‘نظریے’ نظریات اور ‘ نظریاتی سیاست’ کہاں سے ، کب اور کیسے آئے اور اب ان کی صورت حال کیا ہے؟ پھر آزاد کشمیر میں نظریاتی سیاست کے جائزے کے بعد پہلے حصے میں بیان کیے گئے مادی حالات کی روشنی میں نظریاتی سیاست کا ایک خاکہ پیش کیا گیا ہے کہ کس قسم کی نظریاتی سیاست یہاں موثر اور ترقی پسندانہ ہو سکتی ہے۔
درحقیقت اس بہت مشکل موضوع پر لکھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بنی کہ حالیہ کچھ برسوں میں نظریاتی سیاست کے بارے میں میری سمجھ بوجھ بدلنے لگی ہے۔ اس میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ کوئی بیس سال ‘ آزادی پسندی’ اور ‘ انقلاب پسندی” کی سیاست کو اندر اور قریب سے دیکھنے کے بعد مجھے یوں لگا کہ نظریہ جتنا بھی خوبصورت ، وسیع ، گہرا ہو، اگر وہ ساکت و جامد ہو جائے تو وہ ہمہ گیر، آفاقی یا کائناتی نہیں ہو سکتا ۔ مطلب ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا اور ہر جگہ لاگو نہیں ہو سکتا۔ اور ایسا مجھے آزاد کشمیر میں موجود نظریاتی سیاست اور اس کے زیر اثر خود اپنے گردوپیش اور اپنے اندر کے ارتقائی سفر بارے سوچ وچار کے ذریعے محسوس ہوا۔
اب جب اس پر لکھنے کے لیے اس کے پس منظر پر یعنی اپنے سیاسی اور نظریاتی شعور کے سفر اور ارتقاء کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو مجھے یاد آیا کہ مارکسی نظریات کے حوالے سے پہلی بار یہ خیال میرے ذہن میں 1994 میں آیا تھا جب میں نے نظریاتی عقیدت سے لبریز لینن کا لکھا ہوا ‘ لینن کا دیہات کے غریبوں سے خطاب’ نامی کتابچہ پڑھا تھا۔ یہ کتابچہ میں نے کہیں 1986-87 میں کراچی کے غالباً سٹینڈرڈ بک سٹال سے لیا تھا لیکن پڑھا 1994 میں جب ‘آزادی پسندوں ” کی سرخیل جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے کنارہ کش ہو جانے کے بعد کشمیری ورکرز ایسوسی ایشن اور جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی میں شمولیت پر غور کر رہا تھا۔ یہ کتابچہ پڑھتے ہوئے میری ذہنی کیفئت کچھ عجیب سی ہوئی۔ بلکہ یوں کہنا درست ہو گا کہ حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کیونکہ اس ‘خطاب’ میں کچھ بھی نظریاتی نہیں تھا ۔
اس میں دیہات کے غریبوں کو مارکس کا نظریہ نہیں پڑھایا گیا تھا۔ بلکہ اس میں اس طرح کی سادہ مگر ٹھوس سی باتیں کی گئی تھیں کہ اس قصبے کی کل آبادی، اورکل زمین کتنی ہے۔ کون کتنی زمین کا مالک ہے ۔ زمین سے کیا پیداوار کتنی ہوتی ہے ( کیونکہ اس وقت دنیا کے اکثر خطوں کی طرح روس میں بھی زراعت اور کاشتکاری پر ہی آبادی کی اکثریت کا انحصار تھا )۔ پیداوار کون کرتا ہے اور کتنی آبادی کے کس حلقے میں تقسیم ہو تی ہے۔ کس کو موجودہ نظام سے فائدہ ہے اور کس کو نقصان۔ کس کے لیے اس نظام کی تبدیلی فائدہ مند رہے گی اور کس کے لیے نقصان دہ۔
مجھے احساس ہوا کہ سات آٹھ سالوں سے مارکسزم پڑھتے ہوئے ہو گئے مگر کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ اصل زندگی میں اس کا مطلب کیا ہے۔ سب کچھ دماغ میں ہی چلتا رہتا تھا۔ والد صاحب کے ذریعے پڑھے ہوئے تھوڑے بہت جماعت اسلامی کے لٹریچر سے حاصل کی گئی معاشرے کی سمجھ اور مارکسی سمجھ کی کشمکش دماغ میں جاری رہتی تھی جو اکثر نظریاتی ہوتی یعنی اخلاقیات، ثقافتی اقدار اور سیاست سے متعلقہ معاملات پر۔ لیکن معیشت کا اس میں کوئی خاص مقام نہیں تھا۔ اس لیے میں چونک گیا کہ اس طرح سے تو کبھی سوچا ہی نہیں کہ اصل اور بنیادی سوال تو معیشت یعنی روزی روٹی کا ہے ۔
تاہم یہ خیال اس وقت نہیں آیا کہ مجھے اس بارے میں کچھ لکھنا چاہیے۔ کیونکہ اس وقت معاشرے کی میری سمجھ کراچی میں سوشیالوجی کا مضمون پڑھنے کے باعث بس صرف امتحان پاس کرنے والی تھی۔ ہاں مارکسزم و سوشلزم پڑھ کر کچھ کچھ سمجھ میں آ رہا تھا کہ معاشرہ اصل میں ہوتا کیا ہے اور چلتا کیسے ہے یعنی معاشرے اور معاشرتی نظاموں کی کچھ کچھ کتابی سمجھ تھی ۔ لیکن وہ بھی اتنی نہیں تھی کہ اس موضوع پر کچھ بامعنی اور بامقصد لکھ بھی سکتا۔ اس وقت میں کشمیری قوم پرستی اور آزادی و خود مختاری کے نظریے کے زیادہ اثر میں تھا۔ یعنی قوم پرستی کے مرحلے پر تھا۔ 1994 میں ہی پاکستان کے معروف کالم نگار جناب ارشاد احمد حقانی مرحوم و مغفور کو ایک خط لکھا تھا جو انہوں نے روزنامہ جنگ میں تین چار قسطوں میں چھاپا تھا۔ اور اس ہی عرصے میں ‘کشمیر کا قومی سوال: خیالات کی پرچھائیاں’ لکھی تھی ۔ خود مختار کشمیر کے موضوع پر کچھ کتابچے لکھے۔
تاہم پھر مجھے نئے استاد مل گئے۔ ایک ایسے سفر پر نکل گیا جہاں ہر روز جیسے شعور کا کوئی نیا درواز کھلتا تھا۔ سمجھ بوجھ کسی نئے جہان میں جا نکلتی تھی۔
1994 میں ہی میرپور آیا تو بیرسٹر قربان صاحب سے ملنے ان کے گھر گیا۔ یہاں بیرسٹر صاحب سے تعارف کا تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا مناسب لگتا ہے۔ بیرسٹر صاحب سے میرا پہلا تعارف کراچی میں ان کے چھوٹے بھائی افتخار احمد کے ذریعے ہوا تھا۔ یعنی افتخار کا تعارف مجھے سے یہ کہہ کر کروایا گیا تھا کہ یہ بیرسٹر قربان صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اس وقت میں بیرسٹر قربان صاحب کو نہیں جانتا تھا اور نہ ہی مارکسزم یا بائیں بازو کے بارے میں کچھ علم تھا۔ تاہم افتخار کو میرپور کالج میں بھی دیکھ رکھا تھا۔ اس کی ایک مخصوص انداز کی حسِ مزاح اور سیاسی پس منظر کی وجہ سے اس کا کراچی میں معروف کشمیری طلبا میں شمار ہوتا تھا۔ وہ کبھی کبھی رات گئے کچھ دیگر دوستوں کے ساتھ اقبال ہاسٹل میں میرے کمرے میں چاہئے پینے بھی آیا کرتا تھا۔ تاہم 11 فروری 1984 سے پہلے اگر سیاست کی بات شروع ہوتی جو اکثر الحاق و خود مختاری یا مسلم کانفرنس و این ایس ایف یا مذہب وغیرہ کے موضوعات پر ہوتی تھی تو میں کہہ دیتا تھا کہ یار ادھر ان موضوعات پر بحث نہ کرو۔ تاہم گیارہ فروری 1984 کو مقبول بٹ کی پھانسی والے دن جب میں حادثاتی طور پر کشمیریوں کے مظاہرے میں گیا اور وہاں پولیس کی زبردست مار پیٹ، گالیاں اور تضحیک سہنا پڑی تو ان گنت سوالوں کا پیچھا کرتے کرتے مجھے بھی سیاست میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ شروع میں تو مقبول بٹ کے بارے میں جاننے کا تجسس پیدا ہوا لیکن پھر جوں جوں پڑھتا گیا تجسس کا دائرہ پھیلتا ہی گیا۔ سوالوں کے بعد سوال ، مزید سوال اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
ایسے میں جب میں نے 1988 میں سوشیالوجی میں ایم اے کرنے کے بعد برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا تو جانے سے پہلے میرپور بیرسٹر صاحب کے گھر ان سے یہ پوچھنے گیا کہ برطانیہ میں کن کن لوگوں سے ملنا ہے۔ میں، اپنی دانست میں ، ایک مکمل خود مختاریہ اور” انقلابی ذہن ” لے کر برطانیہ جا رہا تھا۔ انہوں نے نذیر نازش، یونس تریابی اور یوسف ثانی ( مرحوم) کے نام بتائے جن سے میں برطانیہ پہنچتے ہی ڈھونڈ کر ملا ۔ بشکریہ ماموں عجائب ، سابق منکراہ، حال ڈربی۔
چھ سال برطانیہ رہ کر جب 1994 میں واپس میرپور گیا ، تو پہلی فرصت میں جا کر بیرسٹر صاحب سے ملاقات کی۔ تب وہ جے کے پی این پی کو عوام میں لے کر جانے یعنی ‘ ماس پارٹی’ بنانے کی تیاریاں کر رہے تھے ۔اس ملاقات میں ظاہر ہے کہ مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں لیکن اس مضمون سے متعلقہ وہ تجویز ہے جو میں نے ان کی ا جازت سے دی کہ عوام میں ابھی نہ جائیں ۔ بلکہ دو یا تین سال کا ایک پروجیکٹ بنائیں۔ پی این پی میں آزاد کشمیر کے بہت اچھے دماغ موجود ہیں۔ دو دو تین تین ارکان پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دے کر انہیں اپنی اپنی دلچسپی کے شعبے میں تحقیق کرنے کی ذمہ داری سونپیں۔ تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ متعقلہ شعبے کو اندر باہر سے ان بنیادی سوالوں کی چھانیوں میں چھانا جائے کہ کیا ہو رہاہے؟ کیسے ہورہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ کون کر رہا ہے؟ وغیرہ۔ اس سے یہ ہوگا کہ دو یا تین سال بعد پی این پی کے پاس ‘آزاد جموں کشمیر کے تمام شعبوں بشمول معیشت، سیاست، انتظامیہ اور دیگر متعلقہ موضوعات جیسے برادری سسٹم اور برادری ازم کا نام لیا تھا پر بہترین تحقیقی مواد موجود ہو گا۔ اس کے بعد اس کمیٹی کو مزید دو تین ماہ دیں کہ وہ اپنی اپنی تحقیق کا دس پندرہ صفحوں پر مشتمل خلاصہ ایسی زبان میں لکھیں جو مڈل پاس کو بھی سمجھ آ سکے۔۔ یہ کتابچے یا پمفلٹ بڑی تعداد میں چھاپے جائیں اور شہروں کے محلوں اور گاؤں گاؤں جا کر جلسے کیے جائیں اور وہاں تقسیم کیے جائیں ۔ یوں ماس پارٹی لانچ کی جائے۔
بیرسٹر صاحب نے غور سے سُنا ۔ تاہم کہا کہ بہت سا تحریری مواد ہمارے پاس پہلے سے ہی تیار ہے۔ آپ نے شاید پڑھا نہیں؟ میں نے ان کے کچھ کتابچے پڑھے ہوئے تھے۔ تاریخی مادیت اور قومی سوال پر بہت اعلیٰ نظریاتی مواد تھا ان میں جو بہت ہی دلچسپ انداز میں تحریر کیا گیا تھا ۔ تاہم میرے خیال میں یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے تھے اور اس نظریاتی مواد سے مقامی معاشرے کے مادی حالات کو نہیں سمجھا جا سکتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جموں کشمیر کا مادی تجزیہ ہونا چاہیے۔ لیکن میں خود یہ کرنے کے قابل نہیں تھا۔ میں اس کو بہت ہی بڑا کام اور خود کو ایک چھوٹا سا طالب علم سمجھتا تھا۔
خیر وقت گزرتا رہا۔ میرے علم اور سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا رہا اور پھر ایک دن ہمت باندھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ یہ اوخا یعنی مشکل کام خود ہی کرنا ہو گا۔ اس کے لیے میں میرپور کے پیپلز یونائیٹڈ فورم کے نوجوانوں کا مشکور ہوں جنہوں نے 2022 کے آخری مہینوں میں تاریخی مادیت کی روشنی میں سنتالیس سے پہلے کے حالات پر بحث کے لیے ایک ورکشاپ رکھی ۔ تب سے میں نے سوچنا شروع کیا کہ کچھ لکھ سکتا ہوں۔ پہلے سوچا ایک مضمون میں سما جائے گا، پھر کتابچے کا سوچا اور اب لگتا ~ہے کہ ایک کتاب بن جائے گی۔
باقی اگلی قسط میں
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.