تحریر : مظہر اقبال مظہر

ابھی طویل سفر کی تھکاوٹ اتری نہیں تھی ، ارادہ یہ تھا  کہ چند روز خاموشی سے آبائی گھر پر رہ کر والدہ محترمہ کی مزاج پرسی اور صحبت میں گزارے جائیں  مگر برادر محترم جاوید اقبال صاحب نے سر شام ہی مژدہ سنایا کہ کل صبح اسکول کی تقریب میں جانا ہے۔ آپ بھی میرے ہمراہ ہونگے۔ مڈل اسکول تراڑ جہاں ہم سب بھائیوں نے  علم و آگہی اور قلم و قرطاس سے پہلا رشتہ جوڑاایک مرتبہ پھرہمارا بچپن پھیلائے منتظر تھا اس لئے انکارکی گنجائش نہیں تھی ۔ ہم وقت مقررہ پر اسکول پہنچے تو صدر معلم جناب اقشاد صاحب اور دیگر اساتذہ جن میں ممتاز صاحب، وقاص فاروق صاحب، اعجاز صاحب، ریاض صاحب ، خالد صاحب نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ محترم عبدالقیوم صاحب جو ہمارے استاد محترم ماسٹر فیروز صاحب مرحوم و مغفور کے فرزند ارجمند ہیں انہیں بھی اس ادارے میں بحیثیت استاد موجود پاکر انتہائی خوشی ہوئی ۔ ہم تو مقررہ وقت پر پہنچ گئے تھے مگرمہمان خصوصی اشتیاق صاحب اور چند دوسرے احباب ابھی نہیں پہنچے تھے اس لئے ہم صدر معلم کے آفس میں بیٹھ کر اپنے شفیق اساتذہ کی خوبصورت یادوں کو کریدنے لگے ۔ ہمارے وقتوں کے اساتذہ بچوں سے جس شفقت و ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اس کا ایک پرتو موجودہ اساتذہ اور خصوصاً صدر معلم کی شخصیت میں موجود پاکر انتہائی خوشی ہوئی۔حاضرین محفل جن میں اساتذہ کے علاوہ چند اکابرین و معززین علاقہ بھی شامل تھے اس موقع پر ادارے کی خصوصی دعوت پر بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے موجود تھے۔بچوں کے والدین اور خواتین کی ایک معقول تعداد بھی موجود تھی ۔
اسکول گراونڈ کے مشرقی کنارے پر موجود قدیم درخت اپنی پوری آب و تا ب کے ساتھ آج بھی کئی عشروں کی داستان زبان حال سے سنا رہا تھا۔ جیسے ہی دو خوبصورت بچیوں نے تقریب کے ابتدائی حصے کی نظامت سنبھال کر باری باری طلبا و طالبات  کو اسٹیج پر بلانا شروع کیا سورج سوا نیزے سے تھوڑا آگے سرکنا شروع ہوگیا۔ سامنے کی قطار میں میرے ساتھ بیٹھے حاضرین محفل نے سورج کی تپش محسوس کرتے ہی اپنی اپنی کرسیوں کو پیچھے درخت کے سایے  کی طرف دھکیلنا شروع کیا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا پچھلی قطاروں میں بیٹھے پھول جیسے بچوں کے چہرے دھوپ و گرمی کی حدت و شدت سے کملائے ہوئے تھے۔
یوں لگا وقت تھم گیا ہو۔ چار دہائیوں کا سفر پلک جھپکنے میں طے ہو گیا۔ کیا ہم نے ان چالیس برسوں میں اتنا بھی سفر نہیں کیا کہ ہمارے ارباب اختیار  بارش اور دُھوپ سے ان بچوں کو بچانے کے لیے  کسی چھجّے ،  خیمے  ، شامیانے  یا کم از کم گھاس پھوس کے چھپراُسارے کا ہی بندوبست کر لیتے۔کیا تین کمروں کی اس عمارت کے ساتھ ایک بڑے ہال کا اضافہ ہماری آنے والی نسلوں کا خواب ہی رہے گا۔تقریب جاری تھی مگر میں خیال کے گھوڑے پر سوار ماضی کے سفر پہ تھا۔
میرا ماضی ، میرے مستقبل کا معمار ، میرا شفیق استاد ، میرا سائبان اس اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ عین اسی جگہ کھڑا  تھا  جہاں ہماری کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ اس کی لکڑی کی کرسی پر رجسٹر دھرا تھا۔ میرے استاد کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔ لکڑی سے بنے تختہ سیاہ پر سفید چاک میں لکھی تحریر میرے مقدر کی ساری سیاہی مٹا رہی تھی ۔ مجھ سمیت ٹاٹ پر سمٹے  بیٹھے بچوں کے سروں پر اسی ایک درخت کا سایہ تھا۔چالیس سال قبل فیروز صاحب جیسے اساتذہ جس درخت کے سایے کے ساتھ ساتھ اپنی کلاس لے کر چلتے تھے اساتذہ کے قبیلے کی اس تقریب میں آج بھی وہی رسم دہرائی جا رہی تھی۔ سورج اور حاضرین محفل کے درمیان اس آنکھ مچولی میں وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔
یہ تقریب ایلیمنڑی بورڈ پونچھ سے نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی ۔والد محترم  سے منسوب خواجہ محمد شفیع ٹرسٹ کے تعاون سے ہونے والی اس  تقریب میں بچوں نے شاندار پروگرام پیش کر کے حاضرین سے خوب داد وصول کی جبکہ ٹرسٹ کی طرف سے نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے بچوں کو کیش انعامات سے نوازا گیا۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content