کہانی کار: حافظ ذیشان یاسین
مرور زمانہ سے بہت کچھ بدل گیا بمشکل چند چیزیں جو تغیرات زمانہ سے سالم رہیں ان میں سے چھوٹے شہروں اور قصبوں کے پرانے ریلوے اسٹیشنز کی قدیم عمارات بھی ہیں جو اب بھی اپنی اصل حالت پر برقرار ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں کی تاریخی عمارات گزرے وقتوں کی یادگار ہیں عہد رفتہ کی علامت ہیں۔
اگرچہ ٹرین کی اندرونی حالت میں کافی تبدیلیاں آ چکی ہیں پرانے بزرگوں نے مجھے بتایا ہے کہ پہلے وقتوں میں ٹرین کی سیٹیں لکڑی کے تختے ہوا کرتے تھے ان پر فوم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی خود ہی اس پر کوئی چادر وغیرہ بچھا لیتے تھے اور ایئر کنڈیشن ڈبوں کا بھی ٹرین میں کوئی تصور نہیں تھا لیکن اب ریل گاڑیوں میں آرام دہ نرم سیٹیں ہیں اور ایئر کنڈیشن پارلر ٹرینوں میں بنے ہوئے ہیں مگر ریلوے اسٹیشن اب بھی اپنی پرانی حالت میں موجود ہیں۔
اگرچہ مجھے سفر نہیں کرنا ہوتا پھر بھی وقتا فوقتا شام کے وقت قدیم ریلوے اسٹیشن ضرور جاتا ہوں اور لکڑی کے خالی خستہ بینچ پر بیٹھ کر ڈوبتے زرد سورج کے اداس منظر کا مشاہدہ کرتے ہوئے گزرے ہوئے زمانوں اور گمنام مسافروں کو یاد کرتا ہوں۔
جب ٹرین اسٹیشن پر آ کر رکتی ہے تو اونگھتے ہوئے مسافر جلدی سے ٹرین میں سوار ہونے لگتے ہیں لیکن مجھے نہ کسی مسافر کو رخصت کرنا ہوتا ہے اور نہ ٹرین سے اترتے ہوئے کسی مسافر کا استقبال کرنا ہوتا ہے بس خالی نگاہوں سے دور جاتی ہوئی ٹرین اور اس کے انجان مسافروں کے چہروں کو دیکھتا ہوں اور ریل کی سیٹی کی آواز سنتا ہوں۔
ریل گاڑی کی کوک بھی عجیب ہے دل کے تار ہلا دیتی ہے روانہ ہوتی ہوئی ریل کی کوک ہجر و فراق کا استعارہ ہے یہ طویل جدائیوں کی تمہید ہے۔
طبیعت پر تنہائی اور خلوت نشینی ہمیشہ سے غالب ہے طبیعت سفر پر مائل نہیں ہوتی اگر سفر کا ذوق ہوتا تو سرشام ریل کے اداس مسافروں میں ضرور شامل ہو جایا کرتا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.