دوسرا حصہ
حفصہ محمد فیصل
نیلم اور جہلم کا سنگم
اگلی صبح ہلکی ہلکی بوندا باندی کے ساتھ مری کے حسن کو چار چاند لگاتی ہوئی نمودار ہوئی خنکی میں اضافہ ہوگیا تھا ہمیں ناشتے کے بعد ناران کاغان کے لیے نکلنا تھا پیکنگ اور ناشتے کے بعد گاڑی آگئی ایک نئی منزل کی جانب رب کریم سے مناجات کرتے ہوئے چل پڑے ۔ گاڑی روانی سے چلتی ہوئی ہمیں دریائے نیلم تک لے گئی دریائے نیلم سے کچھ پچھلی یادیں بھی وابستہ تھیں اونچے پہاڑوں کے وسط میں بہتا یہ خوب صورت دریا کشمیر کی ابتدا میں واقع ہے۔
دریائے نیلم کشمیر میں دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے۔ بھارت میں اسے دریائے کشن گنگا بھی کہتے ہیں۔ یہ آزاد کشمیر کے شہر مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم میں گرتا ہے۔ اس مقام سے کچھ ہی آگے جہلم پر منگلا ڈیم بنایا گیا ہے۔ یہ دریا اپنے شفاف نیلگوں پانی کی وجہ سے مشہور ہے اور یہی اس کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔
کشمیر آبشار
لطیف احساسات کے ساتھ آگے بڑھے جہاں اگلی منزل کشمیر آبشار تھا۔ دریائے نیلم کو پار کرکے اس آبشار تک پہنچا جاسکتا ہے اس کے لیے لفٹ باکس کا انتظام تھا ،اسے عرف عام میں ڈبہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہماری پوری فیملی کے لیے ایک ڈبہ کافی تھا،کرایہ دے کر اس میں سوار ہوئے اور وہاں ایک اور قدرت کی حسین تخلیق ہماری منتظر تھی ، نگاہیں خیرہ ہوتی جارہی تھیں، ایسی خوب صورت جگہوں کو دیکھ کر اور حسن تھا کہ ہر لمحہ ہر جا دو آتشہ تھا۔ کشمیر آبشار پہاڑوں کا سینہ چیڑتا ہوا ایک ادا سے اس گوشے کے سکوت کو اپنے مدھر گیت کے ساتھ سہانا بنا رہا تھا۔ کئی لوگ اور خاندان وہاں پکنک منانے کی غرض سے پہلے سے موجود تھے اور قدرت کے اس حسین شاہکار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اسے خراج تحسین پیش کررہے تھے۔ یخ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ساتھ ہی ہوٹل والوں نے پانی کے اندر ہی میز اور کرسیاں لگا کر مہمانوں کو مزید لطیف احساس سے لطف لینے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ ہم بھی کافی دیر اس آبشار سے لطف اندوز ہوئے اور پھر چوں کہ اگلی منزل کی طرف بھی جانا تھا یہ تو کشمیر جنت نظیر کی ایک جھلک تھی ابھی تو آگے کشمیر سے گزرتے ہوئے اس کے حسین نظاروں کو آنکھوں میں قید کرنا تھا۔
بالا کوٹ
گاڑی تیزی سے کشمیر کی سڑکوں اور گلیوں کو عبور کرتی ہوئی ہمیں دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب بالا کوٹ لے کر پہنچی موسم تھوڑا گرم محسوس ہورہا تھا ۔بالا کوٹ کا مین بازار تھا جہاں پھل اور سبزی کی ملی جلی بو ایک عجیب کیفیت سے دوچار کررہی تھی ، جامع مسجد میں خواتین کے لیے نماز کے لیے کمرہ تو مختص تھا لیکن خواتین کے لیے الگ وضو خانے کا انتظام نہیں تھا اور اس انتظام کی اکثر جگہوں پر کمی محسوس ہوئی ۔
نماز سے فراغت کے بعد سفر ایک بار پھر شروع ہوچکا تھا۔۔ اونچے نیچے راستوں کو عبور کرتے ہم اونچائی کی طرف گامزن تھے۔ راستے میں کھیت کھلیان ، باغات اور فلک بوس پہاڑوں کو آنکھوں میں قید کرتے ،قدرت کی ثنائی لبوں پر جاری تھی۔
کیوائی مانسہرہ
اگلی منزل کیوائی کا مقام تھا۔ جو ضلع مانسہرہ کے وسط میں خوب صورت پکنک پوائنٹ ہے ، یہاں دریائے کنہار کے وسط میں سے فارم کی طرح نالیاں بناکر “ٹراؤٹ فش ” گاہک کے سامنے پکڑ کر کاٹی اور پکائی جاتی ہیں ۔لوگ اس دلچسپ عمل کو انہماک سے دیکھتے ہیں ، لیکن خریداروں کی تعداد اس کی ہوشربا قیمت کی وجہ سے محدود ہوتی ہے۔ فیمیلیز کا جم غفیر اس پوائنٹ پر موجود تھا ،عصر کی نماز سے فارغ ہو کر اور دریائے کنہار کی اٹھکیلیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چائے نوش کی اور اب اگلی منزل “وادی ناران” تھی، راستے میں چھوٹے چھوٹے پکنک پوائنٹ آتے گئے لیکن اب رکنا ممکن نہ تھا ، دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وادی ناران کی جانب رواں دواں تھے
۔
وادی ناران
وادی ناران ضلع مانسہرہ سے بیاسی ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔
وادی ناران و کاغان، ضلع مانسہرہ، خیبر پختونخوا کی حسین وادیاں ہیں، جو اپنے قدرتی حسن کے باعث عالمگیر شہرت کی حامل ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع کئی معروف تفریحی و حسین مقامات اسی وادی میں واقع ہیں۔ آٹھ اکتوبر 2005ء کو آنے والے تباہ کن زلزلے سے اس وادی کو بھی نقصان پہنچایا۔ دریائے کنہار ان کے قلب میں بہتا ہے۔ یہ وادی اکیس سو چونتیس میٹر سے درۂ بابوسر تک سطح سمندر سے چارہزار ایک سو تہتر میٹر تک بلند ہے اور ایک سو پچپن کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کی آبادی پشتو اور اردو بخوبی جانتی ہے۔ یہ علاقہ جنگلات اور چراہ گاہوں سے اٹا ہوا ہے اور خوبصورت نظارے اس کو زمین پر جنت بناتے ہیں۔ یہاں سترہ ہزار فٹ تک بلند چوٹیاں بھی واقع ہیں۔ جن میں مکڑا چوٹی اور ملکہ پربت شہرت کی حامل ہیں۔ پہاڑوں، ندی نالوں، جھیلوں، آبشاروں، چشموں اور گلیشیئروں کی یہ وادی موسم گرما (مئی تا ستمبر) میں سیاحوں کی منتظر رہتی ہے۔ مئی میں یہاں کا زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت گیارہ اور کم از کم تین درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ جولائی کے وسط سے ستمبر کے اختتام تک ناران سے درۂ بابوسر کا رستہ کھلا رہتا ہے۔ برسات اور موسم سرما میں وادی میں نقل و حمل مشکل ہو جاتی ہے۔ اس حسین وادی تک بالاکوٹ، ایبٹ آباد اور مانسہرہ سے باآسانی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بالاکوٹ سے با آسانی بسوں یا دیگر ذرائع نقل و حمل سے کاغان یا ناران پہنچا جا سکتا ہے۔ بالاکوٹ سے ناران تک کے تمام راستے میں دریائے کنہار ساتھ ساتھ بہتا رہتا ہے اور حسین جنگلات اور پہاڑ دعوت نظارہ دیتے رہتے ہیں۔ راستے میں کیوائی، پارس، شینو،(اوچری) جرید اور مہانڈری کے حسین قصبات بھی آتے ہیں۔
چوں کہ ہمیں قیام وادی ناران میں کرنا تھا اس لیے کاغان کے نظاروں سے محظوظ ہوتے ہوئے بالآخر مغرب کی اذانوں کے ساتھ وادی ناران کی اونچی نیچی سڑکوں کو عبور کرتے ہوئے داخل ہوہی گئے ، راستے کے پیچ وخم نے جسم کے سارے اسکرو ڈھیلے کردیے تھے لیکن ناران کی سحر نگری نے مبہوت کردیا اور چند لمحوں کے لیے راستے کی ساری کلفتیں فراموش ہوگئیں ،وادی ناران کو دنیا میں جنت کا ایک ٹکڑا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ سطح سمندر سے اتنی اونچائی پر پہاڑوں میں گھری اس حسین وادی کی خوب صورت شب کے اس پہلے منظر کو میرا قلم لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہے کہ اس وقت کی میری کیفیات ایک ساحر کے سحر میں مبتلا قیدی کی ہو جیسے۔۔
اگلی منزل کی تیاری
اسی سحر زدہ کیفیت کے ساتھ پائن ویو ہوٹل میں داخل ہوئے ایک خوب صورت گلابی کاٹیج ہمارا منتظر تھا ،بچوں کا تجسس دیدنی تھا۔ تمام نیٹ ورک بند تھے زونگ کے سگنل بھولے بھٹکے آجاتے جو ہمارے بیٹے کے موبائل میں تھی ،گھر والوں کو خیریت سے پہنچنے کی اطلاع اسی سے دی ، ہوٹل کا وائی فائی ہمارے کاٹیج سے دور تھا اسی لیے اس وقت ہم موبائل، اور سوشل میڈیا سے دور ایک پرفضا، پرسکون جگہ پر قدرت کے بے پناہ حسن کو محسوس کررہے تھے۔ ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی محسوس ہورہی تھی سارے دن کے سفر کی تھکن نے آنکھوں کو بوجھل کیا ہوا تھا ، کھانے سے فارغ ہوکر آرام کی غرض سے لیٹے اور اس حسین وادی میں ایک پرسکون نیند کے مزے لیے۔
صبح ایک خوب صورت احساس کے ساتھ بیدار ہوئی ، فجر کے نماز کے بعد گلاس ونڈو سے پانی کی پھوار لاتی ہوا نے پھر سحر زدہ کردیا اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد پہاڑ کی چوٹیوں سے طلوع آفتاب نے تو مبہوت ہی کردیا ، اتنی خوبصورتی کے جس کی حد ہی نہ ہو ، جس کو بیان کرنے کے لیے کوئی تشبیہہ نہ ملے ۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ میٹھی میٹھی پھوار چہار سو پھیلے قدرت کے بیش بہا نظارے اور کچھ دیر بعد جھیل سیف الملوک کے نظارے کرنے کے خیال سے دل میں چٹکیاں لیتا حسین احساس۔۔۔
“جا زندگی جی لے والے احساسات تھے۔۔۔”
ناشتے کے بعد جیپ کا ایک پر خطر سفر شروع ہوا، اندازے سے زیادہ خطرناک اور ہچکولے لیتا یہ سفر ایک یاد بن کر ذہن کے گوشے میں محفوظ ہوگیا۔ لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات اور نشانات نے کلمہ طیبہ کا ورد خوب کروایا۔ ان راستوں پر ہوئےکئی دلخراش واقعات ذہن میں گھو متے رہے، مگر جھیل سیف الملوک کو دیکھنے کی چاہ نے سب کچھ کروادیا۔
سیف الملوک جھیل
جھیل سیف الملوک ناران پاکستان میں 3224 میٹر/10578 فٹ کی بلندی پر وادی کاغان میں واقع ہے۔ قریبی قصبہ ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل اس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت جھیل ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔
جیپ ایک اونچی نیچی سطح پر رکی اب ہم اس مقام پر تھے جہاں پہنچنے کے لیے جان جوکھوں میں ڈال آئے تھے۔ اس وقت کوہ پیماؤں کی جرات کو سلام کرنے کا جی چاہ رہا تھا کہ کیسے وہ اتنی اونچائی کے سفر فرط شوق کی خاطر سرانجام دے لیتے ہیں۔
جیپ سے اتر کر ایک حسین ،خواب ناک منظر ہمارا منتظر تھا کہ جس کو جو آنکھ ایک بار دیکھ لے تو بار بار خواہش کرے ، کہ جس کی خاطر یہ پر خطر سفر رائیگاں نہیں تھا۔۔۔
“ایک بار دیکھا ہے ،بار بار دیکھنے کی ہوس ہے” یہ تشبیہہ اس مقام کے لیے صد فیصد درست لگی۔۔۔۔
ٹھنڈ کا احساس رگ وپے میں بڑھتا جارہا تھا۔ بارش کی بوندیں برف کی طرح جسم کو منجمد کرنے کے درپے تھیں، شال، سویٹر اور چھتری یہاں کی اہم ضرورت تھیں، حالاں کہ ناران میں ان چیزوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔اکثرمقامی لوگ یہ چیزیں فروخت کرتے نظر آئے۔
پتھریلی تر زمین کے عبور کرتے ہمیں جھیل کے قریب پہنچنا تھا۔ جیپ والے نے ایک گھنٹہ دیا تھا اس کے بعد واپسی تھی۔ ایک گھنٹے میں یہ ٹارگٹ مشکل لگ رہا تھا مگر پھر اللہ کا نام لے کر چلنا شروع کردیا، سردی سے ٹھٹھرتی ٹانگیں مگر قدرت کے شاہکار کے نظارے ہر چیز پر حاوی تھے، ہزاروں نفوس اس کاری گری قدرت کو خراج تحسین پیش کرنے پہنچے ہوئے۔ جھیل کے چاروں طرف حسن کے تاج محل کی صورت کھڑے پربت اپنی خوب صورتی پر اترا رہے تھے، جھیل کا نیلگوں یخ بستہ پانی اٹھکیلیاں کرتا ،اپنی رعنائی پر ناز کررہا تھا، پر سکون فضا میں ایک گہرا سانس لے کر اسے محسوس کیا ، جی چاہا کہ زندگی یوں ہی تمام ہوجائے۔
لیکن ایک گھنٹہ گزرنے کو تھا۔ ان نظاروں کو آنکھوں میں قید کیے اب جانا تھا رب کریم نے زندگی کی ایک برسوں پہلے کی خواہش آج تکمیل پر پہنچائی تھی۔ اس جھیل کو دکھایا تھا جہاں پر پریاں آتی تھیں۔۔۔کیا میں بھی ایک پری ہوں ھھھھ ایک لطیف احساس نے گدگدایا اور پھر جیپ کے جھٹکوں نے دوبارہ اس دنیا میں لا پٹخا۔
واپسی کے راستے میں ایک گلیشیر بھی دکھا جہاں چند سر پھرے شور مچاتے رکے ہوئے،دل چاہا کہ ہم بھی ان سر پھروں میں شامل ہوجائیں، مگر ہمارے جیپ والے ڈرائیور نے راستہ خطرناک ہے کہہ کر رکنے سے انکار کردیا ۔
واپسی کا سفر
واپسی کا سفر اترائی کی طرف تھا اللّٰہ اللّٰہ کرکے اختتام کو پہنچا ، دوپہر کے کھانے کے بعد وادی ناران کی بازاروں کی گرد چھانی کچھ تحفے اور سوغاتیں خریدیں ،وادی کی دلکشی کو آنکھوں میں قید کیے روالپنڈی کے طویل سفر کے لیے کمر باندھی۔
ایک دن پہلے جن نظاروں نے خوش آمدید کہا تھا اب ہم ان کو الوداع کہتے جارہے تھے۔ دریائے کنہار ہمارے ساتھ رواں دواں تھا۔ براستہ موٹر وے رات بارہ بجے روالپنڈی پہنچے ہوٹل پہلے سے بک تھا اس لیے پریشانی نہیں ہوئی۔
صبح تازہ دم ہوکر پنڈی کی سیر کا پروگرام بنا۔
راولپنڈی
راولپنڈی، صوبہ پنجاب میں سطح مرتفع پوٹھوھار میں واقع ایک اہم شہر ہے۔ یہ شہر پاکستان فوج کا صدر مقام بھی ہے اور 1960ء میں جب موجودہ دار الحکومت اسلام آباد زیر تعمیر تھا ان دنوں میں قائم مقام دار الحکومت کا اعزاز راولپنڈی کو ہی حاصل تھا۔۔ راولپنڈی شہر دار الحکومت اسلام آباد سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
روالپنڈی کی صاف شفاف سڑکوں سے ہوتے ہوئے ،سب سے پہلے ایوب نیشنل پارک دیکھنے کا پروگرام بنا۔
ایوب نیشنل پارک
ایوب نیشنل پارک ، جو عام طور پر ایوب پارک یا تاریخی طور پر توپی رکھ پارک ( پوٹھواری میں رک لائٹ ریزرو ) کے نام سے جانا جاتا ہے ، جس کا نام پاکستانی صدر اور جنرل ایوب خان کے نام پر رکھا گیا ہے ، راولپنڈی میں پرانے صدارتی ایوان کے قریب جہلم روڈ پر واقع ایک قومی پارک ہے۔ یہ پارک پاکستان کی تشکیل سے پہلے قائم کیا گیا تھا اور تیئیس سو(2300) ایکڑ کےرقبہ پر واقع ہے اور یہ ایشیا کا سب سے بڑا پارک ہونے کا دعویدار ہے۔
اس میں ایک پلے ایریا ہے، جھیل ہے جس میں کشتی رانی کی سہولت ہے، ایکویریم ، ایک گارڈن ریستوراں اورایک تھیٹر ہے۔
؎یہ پارک” دی جنگل کنگڈم ” کی میزبانی کرتا ہے جو خاص طور پر شہر کے نوجوان رہائشیوں میں مشہور ہے۔
ہم نے بھی کشتی رانی کی، عید الاضحی کی نسبت سے ایک میلہ بھی لگا ہوا تھا، چڑیا گھر کی سیر کرتے ہوئے کئی جانور دیکھے ، بندروں کو پھلیاں کھلا کر بچے بے انتہا خوش ہوئے، فوجی میوزیم دیکھ کر اس پارک کی نسبت کا اندازہ ہوا، پارک فور ان ون کا مجموعہ ہے۔
پارک چوں کہ طویل رقبے پر پھیلا ہوا ہے اس لیے ٹرام ،اور گھوڑے سواری کو گیٹ تک لے جانے کے لیے سروس موجود ہے ،آئس کریم اور پوپ کارن سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ٹرام سے گیٹ تک کا سفر کیا۔
لذت کام و دہن
یہاں سے ہم پنڈی کے مشہور فوڈ سینٹر سیور پلاؤ تناول کرنے کے لیے پہنچے کباب اور پلاؤ کا ایک لذیذ امتزاج کھانے والے کو اس کا ذائقہ برسوں بھولنے نہیں دیتا۔ مناسب قیمت اور بہترین ماحول اور سروس کے ساتھ یہ لذیذ ڈش پنڈی آکر نا کھانا آپ کے ٹور کو ضائع کرنے کے مترادف ہوگی۔
پنڈی اسلام آباد میٹرو بس
ہماری اگلی منزل پنڈی اسلام آباد میٹرو بس کی سیر تھی جس کا اسٹیشن سیور پلاؤ فوڈ سینٹر سے نزدیک ہی تھا اس لیے خراماں خراماں چلتے ہوئے اسٹیشن تک پہنچے اور ٹکٹ خرید کر سوار ہونے کے لیے ابھی جاہی رہے تھے کہ ہمارے چھوٹے صاحبزادے نے جلدی دکھائی اور بس میں سوار ہوگئے ، بس ڈرائیور بھی کچھ زیادہ جلدی میں تھے کہ ہمارا انتظار کیے بنا ہی آٹو میٹک دروازہ بند ہوتے ہی ہمارے بچے کو لے اڑے اب ہم اور ہماری فیملی ہکا بکا بس کو جاتا اور اپنے بچے کو گلاس وال سے جھانکتا دیکھتے رہ گئے ایک پل کے لیے لگا کہ یہ کیا سے کیا ہوگیا؟
میاں صاحب شکایت دفتر کی طرف دوڑے کہ بڑے بیٹے کی آواز آئی کہ غالباً چھوٹے کے جیب میں موبائل ہے ، فورآ سے پیشتر فون ملایا، بھائی نے کہا اسے اگلے اسٹیشن پر اترنے کا کہو ، بیٹے کو تسلی اورہدایت دی اب اگلی بس میں ہم سب سوار ہوئے اور اگلے اسٹیشن کے شدت سے منتظر ۔۔۔
اگلے اسٹیشن پر صاحبزادے کھڑے نظر آئے بس رکی تو بڑے اعتماد کے ساتھ ہمارے ساتھ سوار ہوئے پوری فیملی ایک اسٹیشن پہلے بچھڑے بچے سے ایسے ملی جیسی برسوں بعد ملی ہو اور تو اور ان کی بہادری اور اعتماد پر پیٹھ ٹھونک کر ان کے ابا جان نےداد بھی دے ڈالی ، سارا دن اس بات کو لے کر باتیں ہوتی رہیں۔
راجہ بازار
شام میں پنڈی کے راجہ بازار کو رونق بخشی گئی کچھ سیر اور کچھ خریداری کے بعد ہوٹل پہنچے ، اسی دوران ایک پیاری سہیلی کے میسج آتے رہے،دراصل کل یعنی جمعے کو اسلام آباد کی سیر اور رات کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے واپسی تھی اور وہ پیاری سہیلی اسلام آباد میں رہائش پذیر تھیں ظہرانہ دینے کی خواہاں تھیں، بحث مباحثے کے بعد وہ ہمارے انکار کو اقرار میں بدلنے میں کامیاب ہو ہی گئیں۔یہ تھیں ہماری عزیز طالبہ اور اب سہیلی ام محمد جو بحریہ انکلیو،اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں، صبح ناشتے کے بعد اسلام آباد کی سیر اور ان کے گھر کے ساتھ ایئرپورٹ تک کے لیے گاڑی بک کروائی ،
شکر پڑیاں
اب سب سے پہلے شکر پڑیاں کا قصد کیا ، شکر پڑياں ،اسلام آباد، پاکستان میں ایک پہاڑی اور ایک مقامی تفریحی مقام ہے۔ پارک زیرو پوائنٹ انٹر چینج کے قریب واقع ہے۔ پاکستان مونومنٹ شکر پڑياں میں واقع ہے۔
شکرپڑیاں بھی ان پچیاسی دیہات میں شامل تھا جو اسلام آباد کی تعمیر سے متاثر ہوئے۔ یہاں دو سو سے زائد گھر تھے جو بالکل اس جگہ پر تھے ،جہاں آج لوک ورثہ موجود ہے۔ لوک ورثہ کے پیچھے پہاڑی پر اس گاؤں کے آثار آج بھی جنگل میں بکھرے پڑے ہیں۔
یہاں کی سیر کرنے کے بعد راول لیک ویو پارک کی جانب چلے۔
راول جھیل
راول جھیل مارگلہ پہاڑی نیشنل پارک کے ایک بالکل الگ تھلگ حصہ میں واقع ہے۔ راول بند کی جھیل جو راول جھیل کہلاتی ہے اسلام آباد کا ایک مشہور اور مقبول سیاحتی مقام ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشی اور سیاح یہاں مچھلی کے شکار اورکشتی رانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جھیل کے کنارے ایک بہت خوبصورت باغ لیک ویو پارک واقع ہے۔موٹر بوٹ کی یادگار سیرکی گئی اور اب سہیلی کے گھر بحریہ انکلیو اسلام آباد پہنچنا تھا۔ اور بالآخر اسلام آباد کے خوب صورت علاقے بحریہ انکلیو پہنچ ہی گئے ، خوب صورت لوگ، بہترین استقبال ، مزیدار ظہرانہ ناقابلِ فراموش یادیں اور باتیں دل کے نہاں خانوں میں سمیٹ کر اب ہم شاہ فیصل مسجد کی طرف رواں دواں تھے۔
فیصل مسجد
شاہ فیصل مسجد جدید طرز کو جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ عظیم مسجد اپنے انوکھے طرز تعمیر کے باعث تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔
مسجد پانچ ہزار مربع میٹر پر محیط ہے اور بیرونی احاطہ کو شامل کرکے اس میں بیک وقت تین لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہے۔ یہ دنیا کی بڑی مساجد میں سے ایک اور برصغیر کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ فن تعمیر جدید ہے، لیکن ساتھ ہی روایتی عربی فن تعمیر کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک بڑا تکونی خیمے اور چار میناروں پر مشتمل ہے۔
خوب صورت مسجد میں نماز عصر کی ادائیگی کی اور اس حسین شاہکار کو نگاہوں میں بسائے اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے ، اردہ تو دامن کوہ جانے کا تھا لیکن ٹریفک کے باعث یہ پروگرام ملتوی کرنا پڑا ، چوں کہ رات کی فلائیٹ تھی اور اسلام آباد ایئر پورٹ آبادی سے خاصے فاصلے پر ہے اس لیے دل پر جبر کیے اور اگلی بار آنے کا عزم کیے ایئر پورٹ کی جانب گاڑی کردی گئی ۔
روشنیوں کا شہر
رات دس بجے کی فلائیٹ سے کراچی کے لیے پرواز تھی ایک ہفتے کے اس خوب صورت یادوں کے سفر کی روداد بھی اختتام کو پہنچی ، زندگی پھر اسی صبح و شام کے کاموں کو ذہن میں ترتیب دے رہی تھی کہ جینا اسی کا نام ہے۔۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.