تحریر :نگہت فرمان

حالات چاہے کیسے بھی ہوں، آسماں سے برسات برس رہی ہویا بارود، روشنی ہو ہر جانب مہیب اندھیرا، خوشی کے شادیانے ہوں یا آہ، چیخیں یا سسکیاں، جیون دھارا تو بہتا رہتا ہے بس بہتا رہتا ہے، نہیں روک سکا اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا ہے، اور ایسے میں جہاں موت کا پہرا ہو، وہاں بھی جیون پھول کی ڈالی میں نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں، زندگی نہیں رکتی، رک ہی نہیں سکتی کہ یہی قانون قدرت ہے۔ اور خاص طور پر اس وقت جب آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا، آپ کو جیون کا بوجھ بس خود ہی اٹھانا ہوگا، تب آپ ہزاروں گنا زیادہ ہمت، جرات، حوصلے اور عزم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایسے کارہائے انجام دینے لگتے ہیں کہ خود بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔

غزہ میں اسی منظر کو دیکھ رہے ہیں ہم لوگ۔ اور آتش و آہن کے سیلاب سے گزر رہے ہیں چٹانوں کی طرح مضبوط اہل فلسطین۔ کسی نے طنز کے تیر چلائے کہ بس بھول گئے فلسطین کو اور ہم جو اپنی شرمندگی چھپائے بیٹھے ہیں انہیں کیا بتاتے کہ بھول سکتے ہیں بھلا یہ منظر؟ کیسے بھول سکتے ہیں؟ ہم ان معصوم بچوں کو جن کے خون میں ڈوبے لاشے ہمارے بے حس و بے ضمیر حکم رانوں کو نہ جگا سکے۔ نظروں سے ہٹتا نہیں اس بچے کا چہرہ جس کے ہاتھ میں خالی برتن تھا اور کھانا نہ ملنے پر بھی حسین مسکراہٹ چہرے پر تھی اور حسبنا اللہ و نعم الوکیل لبوں پر تھا۔ کیا ہم اس بچی کی چیخیں بھول سکتے ہیں جو رو رو کر عرب و مسلمان حکم رانوں کی غیرت جگانے کی سعی لاحاصل کررہی تھی اور اس بچی کی للکار کیسے بھلا سکتے ہیں جو عرب مسلمان حکم رانوں کو ان کی اوقات یاد دلا رہی تھی کہ بے حس حکم راں اس قابل نہیں کہ کوئی انہیں ردی کے بھاﺅ بھی خریدے،

 صحیح ہی تو کہا اس بچی نے کہ ان سب بے ضمیروں کو خود کشی کر لینا چاہیے۔ اور اس بچے کو کیسے بھلائیں جس کا چھوٹا سا بھائی خوف و ڈر کے رو رہا تھا اور بڑا بھائی جو خود زخمی تھا اسے سنبھالنے کی کوشش میں تھا، کیسے بھولیں گے اس معصوم بچی کو جو اپنی گود میں چھوٹی سی بہن کو سمیٹے ہوئے تھی اور اس کے دو بہن بھائی دائیں بائیں جو زخمی تھے، انہیں بھی سنبھال رہی تھی۔ ہم کیا بھلا سکتے ہیں! ان ماؤں کو جو اپنے بیٹوں کی میتوں کو خود کندھا دے رہی ہیں، جو اپنے بچوں کو خود دفنا رہی ہیں اور اس عورت کے الفاظ تو دل و دماغ پر نقش ہیں جو کہہ رہی تھی اور بجا کہہ رہی تھی کہ ایک فلسطینی بچے کا جوتا بھی عرب و دیگر مسلمان حکم رانوں سے بہتر ہے۔

ہم کس کس کا نوحہ لکھیں !

اپنی بے بسی کا، مسلمان حکم رانوں کی بے ضمیری و بے حسی کا، ہم چیخنا چاہتے ہیں، فریاد کرنا چاہتے ہیں، ہر روز ہمیں اہل فلسطین کا درد بے چین کرتا ہے لیکن ہم اتنے بے بس ہیں کہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ اہل فلسطین کے چٹانوں جیسے حوصلے ہم جیسے بزدل و بے بس افراد کے لیے سہارا ہیں، ہم جب ان کا ایمان دیکھتے ہیں تو اللہ سے بس ان کے ایمان کا ذرّہ مانگتے ہیں کہ وہ اگر ہمیں نصیب ہوجائے تو شاید ہمارے ایمانی حالات بھی بدلیں۔ اہل فلسطین تو آزاد ہیں بہادروں کی طرح جی رہے ہیں، زندگی کی محبت میں خود کو غلامی کی زنجیریں نہیں پہنائی ہوئیں، ہم، ہم سب تو غلام ہیں چند روزہ نام نہاد موت سے بدتر زندگی کی تعیشات کے حصول کے لیے خود کو ہلکان کیے ہوئے ہیں، اور سمجھ رہے ہیں کہ جیسے موت ہمیں آنی ہی نہیں، موت تو آنی ہی ہے کہ اس سے بڑی سچائی نہیں ہے۔

وہاں کے حالات پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، دل کی کیفیت کیا ہوتی ہے الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی وہاں ہونی والی ہر شہادت اور اس میں بہنے والے آنسو فریاد بن کر رب تک پہنچ رہے ہیں، ان کی قربانیاں صحابہ کرامؓ کے دور کی یاد تازہ کررہی ہیں، ان ہواؤں  میں اگر خُوش بُو باقی ہے تو اہل فلسطین ان کا سبب ہیں کہ ان کا ایمان بے مثل، ان کے جذبے انمول اور ان کی قربانیاں لازوال ہیں۔ یہ جہاں بھی اپنے پیاروں کو دفنا رہے ہیں وہاں امید کی کونپلیں جنم لیتی ہیں کہ نہیں یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔

 ملبے کے ڈھیر پر تعلیم حاصل کرتے لوگ، خوں آلود مٹی سے اپنے اجڑے گھروندے تعمیر کرنے والے، شمسی توانائی سے پانی کو صاف کرنے والی مشین بنانے کا ہنر رکھنے والے اور غیر یقینی حالات میں حوصلوں کو بلند رکھتے ہوئے صرف زندگی کاٹنے نہیں زندگی کا سامنا کرنے کا حوصلہ اور ہنر رکھنے والوں کو کون شکست دے سکتا ہے؟ کوئی نہیں، کوئی بھی نہیں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content