افسانچہ نگاری عصر حاضر کی ایک معروف  ادبی صنف  ہے۔ اسے ” منی افسانہ”اور “مختصر افسانہ ” بھی کہتے ہیں۔ افسانچہ دراصل افسانہ کی ہیئت میں تبدیلی کا تجربہ ہےجسے ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی اور سماجی روابط  کے ذرائع ( سوشل میڈیا) کی وجہ سے مقبولیت ملی ہے۔ بہت سے نئے لکھنے والے اس صنف میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔

شاعرہ، نثر نگار اور تربیت کار نازیہ نزی کی  یہ تحریر  نئے قلمکاروں اور ادب کے طالب علموں کے لیے  خاص طور پر پیش کی جارہی ہے ۔

*تلخیص اور تحقیق : نازیہ نزی

*اول : افسانچہ کیا ہے ؟*

افسانچہ افسانے کی مختصر ترین شکل ہے ۔اس کا نام افسانچہ ہی ہے اسے منی کہانی،یا دیگر کوئی بھی نام دینا مناسب نہیں ہے ۔ویسے بہت سے ناموں سے جانا جاتا ہے ؛ کم سے کم الفاظ میں اختصار کے ساتھ بیان کیا جانے والا افسانہ ہی افسانچہ ہے ۔اس میں انسانی تجربات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے واقعات لکھے جاتے ہیں احساسات ،منظر ،سبق وغیرہ قاری  پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔۔اس میں چھوٹے سے لمحے پر ایسا خاکہ بنا جاتا ہے کہ قاری پر مکمل کہانی کھل کر واضح ہو جاتی ہے ؛ جو قاری کے ذہن کی تمام پرتوں کو کھول دیتی ہے ۔اس کی پنچ لائن بہت ہی جان دار ہوتی ہے ۔یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جیسے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہو ۔

 *افسانچے کا لغوی مفہوم*

 افسانچہ افسانے سے نکلا ہے افسانے کا مطلب ہے قصہ ، روداد یا واقعہ اور جب ہم اس کے ساتھ ”چہ“ لگاتے ہیں تو ” چہ “  تصغیر کے لیے آتا ہے اور کسی لفظ کے ساتھ آخر میں لگنے سے اس کی تصغیری شکل سامنے آئے گی “چہ “اختصار کی نشان دہی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*دُوم :ہم کیسے فرق کریں کہ مختصر کہانی افسانچہ نہیں ہے ؟*

ہم لفظوں کے اختصار سے جانیں گے کہ یہ افسانچہ ہے ۔کوئی بھی مختصر کہانی افسانچہ نہیں کہلاتی جب تک  اس میں افسانچے کے تمام لوازمات نہ ہوں ۔افسانچہ جتنا مختصر ہو گا اتنا جامع بھی ہونا ضروری ہے ۔اس میں لکھاری کے پاس ایسا ہنر ہوتا ہے کہ وہ کم الفاظ میں پوری کہانی بیان کر دے ۔اس میں غیر ضروری طوالت سے گریز کیا جاتا ہے .اس میں ابتدا اور اختتام موجود ہوتا ہے اور اس میں چونکانے کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے قاری  اختتام کے بعد بھی متجسس رہتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*سِوُم:افسانچے کے بنیادی قواعد کیا ہیں ؟*

ج:افسانچے میں منظر نگاری نہیں ہوتی ۔کردار نگاری پر کام نہیں کیا جاتا ؛ اور اس میں چھوٹے چھوٹے پہلوؤں کو بیان نہیں کیا جاتا ۔افسانچے میں لمبے اور طویل مضامین باندھنے سے گریز کرنا ہوگا ۔افسانچے کا حسن اختصار پر مبنی ہوتا ہے ۔اس پر تفصیلاً روشنی نہیں ڈالی جاتی ؛ بلکہ اس کو جتنا کم الفاظ میں لپیٹ کر بات کی جائے تاکہ تمام باتوں کا نچوڑ سامنے آئے اور وہ مخصوص انداز میں قارئین کے ذہن پر نقش ہو جائے ۔اس میں لفظوں کی تکرار سے  بھی گریز کرنا چاہیے ۔ظاہری بات ہے جب ہم غیر ضروری طوالت کی طرف جائیں گے تو اختصار کم ہوتا جائے گا اور ہم اپنی بات کو سمیٹ نہیں پائیں گے اور جب ہم تکرار کریں گے تو افسانچے کا حسن فوت ہو جائے گا ؛ اسی لیے افسانچہ جتنا مختصر ہو گا؛ اتنا اس میں ابہام پیدا نہیں ہوگا ۔افسانچہ ابلاغ دیتا ہے ۔اس میں ہر بات کھول کھول کر بیان نہیں کی جاتی ؛ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ افسانچہ ہے. اس میں جو بات کی جاتی ہے وہ حالات حاضرہ پر مبنی ہوتی ۔ایسا نہیں ہوتا کہ پرانی باتیں بیان کرنا شروع کر دی جائیں  ۔اس میں حالات اور ماحول کا زیادہ اثر نمایاں ہوتا ہے ۔ماحولیاتی اثرات منفی ہوں یا مثبت ان کا احاطہ کر کے بات ایسےخوبصورت انداز میں کہی جاتی ہے کہ اس میں طنز بھی آجائے اور نئے موضوع کی آمیزش بھی ہو جائے ۔افسانچے میں چونکہ پرانے موضوعات کی گنجائش نہیں ہوتی ۔افسانچے کا عنوان ایسا رکھناچاہیے کہ جس سے عنوان اچھا تو لگے لیکن اس سے افسانچے کے  اندر کےمعنی واضح نہ ہوں اور افسانچے کا تجسس معدوم نہ ہو اور جب اختتام ہو تب آپ چونک جائیں.اور عنوان کا عقدہ آپ پر  چونکانے والے انداز میں کھلے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*چہارم:افسانچہ کتنی سطروں پر مبنی ہو یا کتنا طویل ہو ؟*

ج: یہاں ناقدین فن کی مختلف آراء سامنے آئی ہیں ۔ کچھ کے نزدیک افسانچہ  ایک صفحے پر ہی ختم کرنے کا رجحان ہےاور کچھ کے یہاں یہ دو سطری تین سطری یا زیادہ سطروں پر بھی محیط ہو سکتاہے ؛ غرض کوئی قاعدہ نہیں ہے ؛جس کے مطابق اس کا احاطہ کیا جائے ۔ ناقدین فن اس کو مختصر سے مختصر اور بہترین انداز میں پیش کرنے کی تجاویز دیتے ہیں ۔جب منٹو نے افسانے لکھے 1948 میں “سیاہ حاشیے” میں ان کے 68 سطروں پر لکھے افسانچے بھی موجود ہیں .اور کہیں کہیں دو سطری اور تین سطری بھی موجود ہیں ۔تو اس تناظر میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی کوئی حد مقرر ہے ۔ویسے ایک حد مقرر ہونا چاہیے ۔مستند افسانہ نویسوں نے جو افسانچے لکھے ہیں ایک صفحہ میں ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*پنجم:کیا سویا  پچاس  لفظی  فکشن ،یا دیگر نینو فکشن، فلیش فکشن اور مائکروفکشن ایسی کہانی بھی افسانچہ کہلائے گی ؟*

ج: بہت سے لوگ سو لفظی کہانی کو بھی افسانچہ سمجھتے رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نینو فکشن، فلیش فکشن اور مائکروفکشن کو بھی افسانچے سے تعبیر کرتے رہے ہیں؛لیکن یہ تمام اصناف افسانچہ نہیں کہلا سکتیں ۔(ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ خومخواہ کے نام ہیں یہ سب افسانچہ ہی ہیں )بہرحال زیادہ بحث میں الجھے بغیر قصہ مختصر  ، ہر مختصر کہانی جو  افسانچے کے قواعد پر پوری اترتی ہو ۔ افسانچہ کہلائے گی ؛ ورنہ! اپنی طرف سے سب کچھ لکھ دینا افسانچہ نہیں کہلاتا ۔ارادتاً یا غیر ارادی طور پر قواعد کو مد نظر رکھتے ہوئےافسانچہ سو لفظی بھی لکھا جاسکتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 *ششم:کیا افسانچہ مغرب کی پیداوار ہے ؟*

 ج:اس پر بہت سے ناقدین کی یہی رائے رہی کہ یہ مغرب سے آیا ہے ۔اسی طرح بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ منٹو اس کا بانی ہے ۔منٹو  ایک بہترین افسانہ نگار تھے۔اسی لیے ان کے مشاہدات مختصر کہانیوں سے منسلک بہت مضبوط تھے۔ ان کو اس تیکنیک کا اندازہ بہت اچھی طرح سے تھا؛ جو مختصر کہانی کا خاصا کہلا سکتی تھی ۔اسی تیکنیک کو مدنظر رکھتے ہوئے منٹو نے اپنے افسانوں کو  مختصر ترین حالت میں اپنی کتاب “سیاہ حاشیے” میں پیش کیا۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں مختصر افسانے لکھنے پر غیر شعوری طور پر گرفت حاصل تھی؛ اسی لیے انھوں نے اس کو ایک الگ انداز دے کر متعارف کروایا ،جو مغربی تہذیب سے ہٹ کر تھا ؛کیونکہ وہ مائکروفکشن فکشن ، نینو فکشن اور فلیش فکشن کی تیکنیک سے بھی واقف تھے ؛ لیکن منٹو کے یہاں  مختصرافسانوی انداز مغربی انداز سے یکسر مختلف رہا۔اس وقت تو انھیں بھی یہ علم نہیں تھا کہ یہ تجربہ آگے چل کر اپنا ایک الگ مقام بنائے گا ۔اس لیے اس وقت تو اسے افسانہ ہی قرار دیا گیا ۔ بعد میں اسے متنازع کہا گیا اور پھر ماہرین فن نے اسے افسانچوں سے تعبیر کیا ۔اس سے پہلے بھی یونان میں ایک غلام تھا جو مقولے لکھتا تھااور اسی طرح شیخ سعدی کی حکایت اور خلیل جبران کے مقولوں کو بھی افسانچہ کہا گیا ؛لیکن جب ان کا موازنہ کیا گیا تو ان تحاریر کو افسانچے کی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ خیر! اس پر بحث ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.

*ہفتم:کیا افسانچہ لطیفہ گوئی ہے یا اس سے ہٹ کر کوئی چیز ہے ؟*

 ج:  منٹو نے جب اپنے مختصر افسانے لکھے   “سیاہ حاشیے”  تب ان سے پہلے کوئی ایسا تجربہ تو موجود نہیں تھا؛ اس لیے اس وقت محمد حسن عسکری صاحب نے اس کو فسادات پر مبنی چٹکلے کہا ۔ حسن عسکری کی اس رد و قبول نے ایک متضاد فضا قائم کی ۔جس کے باعث ممتاز حسین نے بھی ان کے افسانوں کو لطیفہ گوئی پر محمول کر دیا ۔ جب کہ سوچنے والی بات یہ تھی کہ جس میں فسادات کا ذکر ہو وہ تحریر لطیفہ گوئی پر مبنی کیسے ہو سکتی ہے ؟

یہاں یہ بات بھی ظاہر ہو رہی تھی کہ عسکری صاحب اس کو لطیفہ بھی کہہ رہے ہیں اور فسادات پر مبنی افسانے بھی اس وجہ سے غلط فہمی کی فضا قائم ہوئی اور وارث علوی جیسے بڑے ناقد نے بھی منٹو کے افسانوں کو چٹکلے سے زیادہ اہمیت نہ دی ۔اس طرح افسانچے کی اہمیت بھی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی۔اور افسانچے سے متعلق لوگوں کے دماغوں میں یہی غلط فہمی جڑ پکڑ گئی ۔ اور لوگوں میں افسانچہ لکھنے کا رجحان ختم ہوتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 *ہشتم:  مختصر افسانوں کو افسانچے کا نام کس افسانہ نگار نے دیا ؟*

 ج: منٹو کے بعد جوگندرپال نے بہت سے افسانچے لکھے اور اس پر بہت محنت کی اور افسانچوں کی ہیئت متعارف کروائی اور بہترین افسانچے پیش کیے ۔انھوں نے ہی مختصر افسانے کو افسانچے کا نام دیا اور لوگوں میں افسانچے کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔جوگندرپال کا کہنا ہے ۔” منی افسانے کا کمال یہ ہوتا ہے کہ چند ہی سطروں میں قاری ایک طویل کہانی کا تانا بانا آپ ہی اپنے ذہن میں بُن لے“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*نہم : کن لوگوں نے  افسانچے کی ہیئت کو نقصان پہنچایا؟*

ج: جیسا کہ ہمیں علم ہو گیا ہے کہ افسانچے کو چٹکلوں سے تعبیر کیا جا رہا تھا تو 1980 کے دوران مختلف اخبارات میں اس پر انعامی مقابلے رکھے گئے اور ایک عام رجحان افسانچے کو لے کر اپنی مرضی کی چیز لکھنے کی طرف پایا گیا ۔اس وقت جو لوگ افسانچے کے خدو خال سے واقف ہی نہیں تھے اور متضاد فضا کا شکار تھے ؛خود کو بہترین افسانچہ نگار تصور کر رہے تھے ۔کوئی خود کو سو لفظی کہانی کا موجد کہتا تھا تو کوئی پچاس لفظی کا؛ جب کہ انھیں علم ہی نہیں تھا کہ افسانچہ کیا ہوتا ہے ۔اس صورت حال سے افسانچے کو بہت نقصان پہنچا۔ اس وقت عظیم راہی اس صورت حال پر بہت افسردہ تھے۔  انھوں نے اس پر تحقیقی کام شروع کردیا اور گاہے بگاہے جوگندرپال سے بھی مشاورت کرتے رہے ؛ انھوں نے یہ تحقیقی کام مسلسل جاری رکھا۔ اس وقت بہترین افسانچہ نگاروں نے ان کے تحقیقی کام میں ان کا بہت ساتھ دیا اور  پھر ان کے افسانچوں پر مبنی مجموعے سامنے آئے اور اردو ادب میں تنقیدی روایت بھی پیش کی ۔ اس طرح رفتہ رفتہ افسانچہ ایک الگ صنف کی شکل میں سامنے آیا ۔اس وقت سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اپنی مختصر کہانیوں یا افسانوں کو افسانچہ کہنے ،منوانے پر بضد ہیں اور جو استاد اس پر تنقید کرتا ہے؛ اس کی کردار کشی کرتے ہیں ،ذاتیات پر حملہ کرتے ہیں ۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ جو اساتذہ کا احترام نہیں کرتے ،کاپی پیسٹ ،جوڑ توڑ سے لکھتے ہیں وہ افسانچہ کی صنف کو نقصان پہنچا رہے ہیں ؛جن میں خود ادب نہیں وہی ادب کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*دہم: بہترین افسانچہ نگاروں کے نام بتائیں جنھوں نے افسانچے کے فروغ کے لیے کام کیا؟*

 ج: افسانچہ کے باب میں‘ سینکڑوں کی تعداد میں افسانچہ لکھنے والوں کے نام ملتے ہیں۔

سعادت حسن منٹو

 جوگندر پال

  رتن سنگھ

 محمد بشیر مالیر کوٹلوی

ڈاکٹر خالد سہیل

 اسلم جمشید پوری

 اختر آزاد

 اقبال حسن آزاد

عظیم راہی

 نواب رونق جمال

 دیپک بدکی

 ڈاکٹر ایم اے حق

 پرویز بلگرامی ۔

ریاض توحیدی ۔

علیم اسماعیل ۔

 سید سرور ظہیر ۔

مبشر زیدی۔

 پرویز بلگرامی (اس ضمن میں بہت کام کر رہے ہیں اور ان کا یوٹیوب چینل افسانچوں کی ترویج کے لیے مختص ہے۔)

آپ اپنی دعا میں نازیہ نزی کو بھی یاد رکھیے گا ۔

شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact