تحریر: پروفیسر محمد اکبر خان
مسجد قبا سے نکل کر میں کے قریب واقع تاریخی مسجد ابو انیف جا پہنچا جہاں رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز ادا کی تھی ۔وہاں سے نکل کر میرا رخ مدینہ منورہ کے اس باغ کی طرف تھا جو صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ہے ،جس میں ایک کنواں بھی ہے جسے بئر الفقير یا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا کنواں کہا جاتا ہے۔ مسجد قبا کے عین سامنے واقع شاہراہ الھجرہ سے پیدل چلتے ہوئے میں کچھ دیر بعد اس مقام پر موجود تھا جہاں وہ باغ واقع ہے جو ایک یہودی کی ملکیت ہوا کرتا تھا اور جہاں کبھی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بطور غلام کے کام کرتے تھے. حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ رضی اللہ عنہ فارس (ایران ) کے مشہور شہر اصفہان کے ایک گاؤں روزبہ جسے “جی” بھی کہتے ہیں میں پیدا ہوئے۔ اسلام لانے سے قبل آپ ؓ کا نام مابہ تھا۔ آپ ؓ کے والد کا نام بوذخشان تھا۔آپ ؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے زرتشت مذہب ( آتش پرست ) کے پیروکار تھے مگر دل ہرگز مطمئن نہ ہوتا تھا. حضرت سلمان فارسی ؓ کی زندگی تلاش حق اور جستجو سے عبارت تھی۔
آپ کے قبول اسلام کا واقعہ بہت دلچسپ اور اثر انگیز اور حیران کن ہے جسے ابن ہشام نے سیرت ابن اسحاق سے روایت کیا ہے کہ آپ رض کا تعلق مجوسیت سے تھا لیکن آپ کے دل میں جستجو حق کی ایک چنگاری روشن تھی جو انھیں بے چین رکھتی تھی اور وہ سوچتے تھے کہ یہ آگ جسے ہم خود روشن کرتے ہیں یہ ہمارا خدا کیسے ہو سکتی ہے ۔آپ کے والد بوذخشان ایک بڑے آتش کدے کے مہتمم بھی تھے۔ ایک دن انھوں نے حضرت سلمان سے کہا کہ آج میں کھیتوں میں نہیں جا سکوں گا اس لیے آج کھیتوں کی دیکھ بھال تمھارے ذمے ہے۔ حضرت سلمان ؓ نے ہامی بھر لی اور کھیتوں کی طرف چل دیے، راستے میں عیسائیوں کا ایک گرجا نظر آیا۔ آپ وہاں چلے گئے، ان کی عبادت کا طریقہ دیکھا تو اس سے بہت متاثر ہوئے اور اسی وقت اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرلی۔ ان کے والد کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھیں گھر میں قید کر لیا اور ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاوں میں بیڑیاں ڈال دیں، لیکن آپ کسی نہ کسی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور ایک قافلے کے ساتھ شامل ہوکر عیسائیت کے مرکز شام پہنچ گئے۔
آپ ؓ تلاش حق میں بڑے بڑے پادریوں کے پاس پہنچے، قریہ قریہ، ملکوں ملکوں بھٹکتے رہے، شام سے موصل(عراق)، وہاں سے نصیبین (ترکی) اور پھر عموریہ پہنچے اب تک انھیں کوئی بھی دین مسیحی کا سچا پیروکار نہ ملا تھا ۔عموریہ پہنچ کر آپؓ وہاں کے سب سے بڑے پادری کی خدمت میں رہنے لگے۔ اس پادری کا جب وقتِ اجل آیا تو اس نے حضرت سلمان ؓ کو بلا یا اور کہا کہ ’’ میرے بیٹے! اب میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہوں۔اب نبی آخرالزمان صل اللہ علیہ والہ وسلم کے ظہور کا وقت قریب آ پہنچا ہے، جو صحرائے عرب سے اٹھ کر دینِ حنیف کو زندہ کرے گا اور اس زمین کی طرف ہجرت کرے گا جہاں کھجوروں کی کثرت ہوگی۔اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔وہ ہدیہ قبول کرے گا لیکن صدقہ کو اپنے لیے حرام سمجھے گا۔ تم جب اس نبی پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم کا زمانہ پاؤ تو اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا۔‘‘ اس مردِ درویش اور عیسائیت کے سچے پیروکار کے انتقال کے بعد حضرت سلمان اسی جستجو میں رہنے لگے کہ کوئی قافلہ سرزمین حجاز کی طرف جا رہا ہو تو اس میں شامل ہو جائیں۔بالآخر آپؓ کی جستجو رنگ لائی اور قبیلہ بنو کلب کا ایک قافلہ عموریہ سے گذرا۔ آپ اس قافلے میں شامل ہو گئے لیکن راستے میں قافلے والوں کی نیت خراب ہو گئی اورجب یہ قافلہ وادی القریٰ پہنچا تو انھوں نے حضرت سلمانؓ کو یہودیوں کے ہاتھ بطور غلام فروخت کر دیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو اپنی قسمت سمجھ لیا لیکن اس کے باجود تلاشِ حق کی جو شمع آپ کے سینے میں روشن تھی ، وہ بدستور روشن رہی۔
ایک دن ان کے یہودی مالک کا ایک رشتہ دار جو یثرب( مدینہ) کا رہنے والا تھا، وہ اس سے ملنے آیا۔ اس کو ایک غلام کی ضرورت تھی۔ اس نے حضرت سلمان ؓ کے مالک سے انھیں خرید لیا اور یثرب لے آیا۔ یہاں جب آپ ؓ نے کھجور کے درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ دیکھے تو آپ سمجھ گئے کہ ان کی منزل یہی علاقہ ہے۔ایک دن آپ ایک کجھور کے درخت پر چڑھے کام کر رہے تھے کہ ایک یہودی شہر سے بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ ’’ خدا بنو قیلہ کو غارت کرے، سب کے سب قبا میں ایک شخص کے پاس جا رہے ہیں جو مکہ سے آیا ہے اور خود کو نبی کہتا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی حضرت سلمان ؓ فارسی بے چین ہوکر درخت سے اتر آئے اور اس شخص سے پوچھنے لگے کہ ’’ کیا کہا تم نے؟ ذرا پھر سے تو کہنا۔‘‘ ان کا آقا بہت غصہ ہوا اور ان ایک تھپڑ ما ر کر کہا کہ تم جاکر اپنا کام کرو۔ حضرت سلمان اس وقت تو خاموش ہو گئے لیکن ایک دن آپ ؓ کچھ کھانے کی چیزیں لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ چیزیں صدقہ کے طور پر پیارے نبی ﷺ کو پیش کر دیں۔ نبی کریم ﷺ نے وہ چیزیں اپنے صحابہ میں تقسیم فرما دیں لیکن خود کچھ نہ لیا۔اس سے انھیں اس پہلی نشانی کی تصدیق ہو گئی جو عموریہ کے راہب نے بتائی تھی، وہ اگلے دن دوبارہ کچھ چیزیں لے حاضر ہو گئے اور اب انھوں کھانے پینے کی چیزیں بطور ہدیہ نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیں۔ نبی اکرم ؐ نے خود وہ چیزیں کھائیں اور صحابہ ؓ میں بھی تقسیم کر دیں۔ حضرت سلمان ؓ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیوں کہ آخری نبی کے بارے میں راہب کی بتائی دو نشانیاں تو پوری ہوگئیں تھیں اب آخری نشانی یعنی مہر نبوت کو دیکھنا رہ گیا تھا۔چند دنوں بعد آپؓ کو پتا چلا کہ نبی اکرم ﷺ ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد تشریف لے گئے ہیں۔
حضرت سلمان ؓ بھی وہاں پہنچ گئے اور پیارے نبی ﷺ کو سلام کرکے آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوئے کہ موقع ملے تو مہر نبوت کا مشاہدہ کرلوں۔ پیارے نبی ؐ نے آپ ؓ کی کیفیت کو بھانپ لیا اور اپنی پشت سے کپڑا سرکا دیا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے کانپتے ہونٹوں سے مہر نبوت کو بوسہ دیا اور کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ ایمان قبول کرنے کے بعد نبی اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر رہنے لگے۔ یہودی کی غلامی کے باعث فرائضِ مذہبی ادا نہ کرسکتے تھے اسی وجہ سے غزوۂ بدر و غزوہ اُحد میں شریک نہ ہو سکے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے آقا کو معاوضہ دے کر آزادی حاصل کرلو، یہودی آقا نے تین سو کھجور کے بار آور درخت اور چالیس اوقیہ سونے پرمعاملہ طے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں سے سفارش فرمائی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو،سب نے حسب حیثیت کھجور کے درخت دیے، اس طریقہ سے تین سودرخت ان کومل گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحابِ رسول سے مل کر اپنے ہاتھوں سے درختوں کو لگایا اور زمین وغیرہ ہموار کرکے ایک شرط پوری کردی کہتے ہیں کہ ان درختوں نے بہت جلد پیداوار دینی شروع کر دی ، اب سونے کی ادائیگی باقی رہ گئی اس کا سامان بھی اللہ نے کر دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی غزوہ میں مرغی کے بیضہ کے برابر سونا مل گیا، آپ نے سلمان کودے دیا، یہ وزن میں ٹھیک چالیس اُوقیہ تھا، اس سے گلو خلاصی حاصل کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے لگے۔ نبی اکرم ؐ نے آپؓ کو یہودی کی غلامی سے نجات دلائی تھی اس کے بعد تو آپؓ سفر و حضر میں پیارے نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ رہنے لگے۔
آپ ؓ بہت جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ کے مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم ؐ نے غزوہ احزاب ( جنگ خندق) میں آپ ؓ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خندق کھودی اور دفاعی جنگ لڑی۔میں نے جبل سلع کے دامن میں وہ مقام بھی دیکھا جہاں روایت کے مطابق جنگ خندق حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا خیمہ تھا جہاں آج مسجد سلمان فارسی رضی اللہ عنہ قائم ہے جنگ خندق کے موقع پر جب خندق کھودی جا رہی تھی ، مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں بحث چھِڑ گئی کہ سلمان ؓ کون ہیں۔ مہاجرین کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہیں جب کہ انصار کا کہنا تھا کہ سلمان میں سے ہیں۔ اسی دوران پیارے نبی ؐ تشریف لے آئے۔ آپ ؓ کو جب ساری بات کا علم ہوا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ سلمان میرے اہل بیت میں سے ہیں۔آپؓہر وقت عشق نبی میں غرق رہتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انھیں جہاد کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کے عشق رسول اور شوق جہاد کو دیکھ کر پیارے نبی ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتیں ہے۔ علی ؓ ، عمارؓ اور سلمان ؓ کا۔ایک موقع پر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ سلمان علم سے لبریز ہے۔ آپ ؓ بہت قناعت پسند، درویش صفت انسان تھے۔ دنیا داری سے دور بھاگتے تھے۔حضرت عمر بن ؓخطاب نے ان کو مدائن کا گورنر مقرر کیا۔اس کی جو تنخواہ ملتی وہ غریبوں ، مسکینوں میں تقسیم کردیتے اور خود چٹائی بُن کر کماتے، اس کا بھی ایک تہائی خیرات کردیتے تھے۔ سفر ہمیشہ بغیر زین کے گدھے پر سوا رہوکر کرتے۔ ایک دفعہ اسی طرح آپؓ گدھے پر بغیر زین کے سفر کر رہے تھے اور پیوند لگا کرتا پہنا ہوا تھا۔ ایک شخص نے ان سے پوچھ لیا کہ ’’ اے امیر ! یہ آپ ؓنے کیا حالت بنائی ہوئی ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ’’ بھائی آرام و راحت تو صرف آخرت کے لیے ہے۔‘‘ آپ ؓ نے کبھی گھر نہیں بنایا، ہمیشہ کسی بھی درخت یا دیوار کے سائے میں رات گزار دیتے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ میں آپ کو گھر بنا دیتا ہوں، لیکن آپ نے انکار کر دیا۔ جب آپ نے مسلسل انکار کیا تو اس شخص نے کہا کہ اچھا میں آپ کی خواہش کے مطابق مکان بنا دیتا ہوں کہ آپ کا سر اس کی چھت سے جا لگے اور اگر لیٹیں تو پاؤں دیوار سے جا ٹکرائیں۔ اس کے بعد آپ نے ہامی بھر لی اور اس شخص نے ان کو ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنا دی۔
جب آپ کا آخری وقت آیا تو آپ ؓ کا کل اثاثہ ایک بوسیدہ کمبل، ایک بڑا پیالہ، ایک لوٹا اور تسلہ تھا لیکن زہد تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ انتقال سے پہلے حضرت حضرت سعد بن ابی وقاس ؓ آپ ؓ کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ حضرت سلمان ؓ زارو قطار رو رہے ہیں۔ سبب پوچھنے پر فرمایا کہ ’’سرورِ کائنات ؐ نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ دولتِ دنیا جمع نہ کرنا اور میرے پاس اس دنیا کا اس قدر سامان جمع ہو گیا ہے، ڈرتا ہوں کہ کہیں اس اسبابِ دنیا کی وجہ سے آخرت میں آقا ؐ کے دیدار سے محروم نہ رہ جائوں۔آپؓ کا انتقال 35 ہجری میں حضرت عثمان غنی ؓ کے دور خلافت میں مدائن میں ہوا۔ سنہ 657ء آپ رض اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال مدائن میں ہوا آپ نے 88 سال. عمر پائی آپ کی کنیت
ابو عبد اللہ جبکہ آپ کا لقب
سلمان الخیر اور سلمان ابن الاسلام حضرت انس بن مالک ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔
میں جب اس باغ پر پہنچا تو وہاں کھجوروں کے درختوں کی کثرت دیکھی شاہراہ الھجرہ سے ایک ذیلی سڑک اس باغ کی طرف مڑتی ہے جس کے دونوں اطراف کھجوروں کا باغ ہے ۔ایک طرف وہ کنواں ہے جسے بئر الفقير کہا جاتا ہے جہاں آج بھی قدیم سنگی تعمیرات کے آثار ہیں ۔یہ کنواں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے۔ سعودی حکومت نے وہاں معلوماتی تختی آویزاں کر رکھی ہے اور قدیم آثار کو محفوظ بنایا گیا ہے۔
اس مقام پر پہنچا اور کھجوروں کے درختوں پر نگاہ ڈالی میرے تصورات میں وہ مناظر گھومنے لگے کہ یہیں کہیں وہ درخت بھی ہوگا جس پر چڑھ کر سلمان فارسی کھجوریں توڑ رہے ہونگے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی قبا میں آمد کا سن کر نیچے اترے ہونگے ۔یہیں وہ اشجار ہونگے جو رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے یہیں سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ قبا تشریف لے گئے ہونگے،جہاں سے انھیں ایمان کی عظیم الشان دولت ملی۔