تحریر و تحقیق: ملائکہ شہزادی
ہارن کی آواز سنتے ہی ارویٰ نے جھٹ سے بستر چھوڑا، گھڑی پر نو بجتے دیکھ کر وہ حیران تھی۔ چند ہی منٹوں میں اس نے جلدی سے تیاری کی اور ہینڈ بیگ کندھے پر لیا۔۔
“اوکے ممی جان الله حافظ!”
باورچی خانے میں کام کرتی امی جان کو بوسہ دئیے سینڈ وچ اٹھایا اور یکایک باہر کی جانب لپکی۔
“بیٹا آرام سے دعاؤں کا اہتمام لازمی کر لینا”
امی جان نے اس کے پیچھے سے بلند آواز میں کہا۔
“آگئیں آپ محترمہ تھوڑا اور سو لینا تھا۔” ارویٰ جیسے ہی گاڑی میں بیٹھنے لگی اسمر نے طنز باندھا”
ارویٰ اور اسمر دونوں بہن بھائی تھے۔ ارویٰ ہمیشہ کی طرح ہر کام سے خود بھی لیٹ ہوتی اور اپنی ٹیم کو بھی دیر سویر کرواتی۔”
یہ چار افراد(اروی، اسمر، جنید، دانیال)پر مشتمل ایک چھوٹی سی ٹیم۔ انہیں “سر فاروق” کی طرف سے دی گئی اسائمنٹ “پاکستان کا عالمی ثقافتی ورثہ” پر زبردست دستاویزی فلم بنانی تھی۔
جس کے لیے ٹیم جے ڈی رواں تھی۔
✰✰✩✩✰
“تم تیار ہو؟۔” جنید نے “دانیال” کی طرف سوالیہ نگاہ اٹھائی۔
“جی بالکل تیار ہوں۔”
ہوں۔۔ تو پہلی باری تمہاری ہی ہے۔ ہماری پہلی منزل “لاہور کا شاہی قلعہ” ہے۔
جنید ٹیم کا سینئیر ممبر جو اپنا فرض انجام دے رہا تھا
جنید نے دانیال کو ہر بات اچھے سے سمجھا دی۔ اور وہ رفتہ رفتہ اپنی منزل کے قریب تر ہوتے گئے۔
✺✺✺✺
منزل پر پہنچتے ہی “دانیال” نے اپنی نشست سنبھالی۔
السلام علیکم! سامعین کرام۔۔۔۔
“میں ہوں “انکشاف” چینل کی ٹیم
کا سینئیر کارکن “دانیال”۔ جو حاضر ہے دلچسپ معلومات کے ساتھ۔
اللہ رب العزت نے پاکستان کو “جنت نظیر نظاروں”اور قدرتی حسن سے مالا مال ایک “حسین وجمیل” ملک بنایا ہے۔ اس سوہنی دھرتی کی قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے “غیر ملکی سیاحوں” کی ایک بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے۔ رب تعالیٰ نے جو جمال ہمارے ملک پاکستان پر اتارا ہے اس کا موازنہ کسی بھی ملک سے نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان کے “شمال مغربی، شمال مشرقی” پہاڑی علاقے، “برف پوش چوٹیاں”، قدرتی حسن دل فریب مناظر “دریاؤں، “جھیلوں، آبشاروں، “گلیشیئرز اور جنگلات کا سحر غیر ملکی سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا چلا جاتا ہے۔ جہاں وطن عزیز میں قدرت کے حسین نظارے، (“خوبصورت جھیلیں،” “بل کھاتے دریا”، “برف پوش چوٹیاں” مزید برآں “کالام” اور “وادی ہنزہ” جیسی پر کیف اور دل موہ لینے والی وادیاں) موجود ہیں، وہیں اس کائنات ارضی پر تاریخی اعتبار سے بھی بیش بہا خزانہ موجود ہے۔
“موہنجودڑو، سیری بہلول، اور ٹیکسلا جیسے قدیم شہر اس خطۂ ارض کا “ثقافتی ورثہ” ہیں۔ تاریخ کے انہیں اوراق میں چند ایسے مقامات بھی ہیں جو آج بھی ہر دیکھنے والی آنکھ کو مبہوت کر دیتے ہیں۔
جی ہاں آج ہم بات کریں گے “پاکستان میں موجود چند مشہورترین قلعوں کی” جن میں سے بعض کو دشمنوں کی یلغار سے تحفظ کی بنا پربنایا جبکہ بعض قلعے محض بادشاہوں اور نوابوں کی بودوباش کے لیے تعمیر کیے گئے۔
شاہی قلعہ
“شاہی قلعہ” “جو “لاہور قلعہ”اور “لاہور فورٹ” کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ قلعہ “پاکستان” کے صوبہ پنجاب” کے شہر “لاہور کے شمال مغربی کونے” میں واقع ہے۔ پاکستان کا یہ “قدیم قلعہ” لاہور کی مرکزی شناخت اور پنجاب کے مشہور “تاریخی مقامات” میں سے ایک ہے۔ جو اپنی “تعمیر اور شان وشوکت” کے اعتبار سے بے مثال ہے اور “مغلیہ سلطنت” کی فن تعمیر اور روایت کے شاندار نمونے کی ایک قابلِ ذکر مثال ہے۔ یہ عمارت لاہور شہر کے ماضی اور حال کو اچھوتے انداز سے ایک کڑی میں پرؤے ہوے ہے۔ جو بہت نمایاں طور سے ہمارے ثقافتی ورثے کا عکاس ہے۔ اور اس بستے پھیلتے شہر میں ہیروں کی طرح جگمگاتی ہے۔
رقبہ
اگر بات کریں اس کے رقبے کی تو تقریباً 20 ہیکٹر سے زائد رقبے پر پھیلا یہ قلعہ 21 قابلِ ذکر عمارات اپنے اندر سموے ہوے ہے۔
عالمی ثقافتی ورثہ:
1981ء میں اس قلعہ کو یونیسکو نے “عالمی ثقافتی ورثہ” کا درجہ عطاء کیا۔
تعمیراتی عمل
لاہور فورٹ کے تعمیراتی کام کی بات کریں تو مؤرخین کا کہنا ہے کہ مغلیہ دور کی اس تاریخی عمارت کا موجودہ ڈھانچہ 1566ء”مغل شہنشاہ اکبر” نے تعمیر کروایا۔یہ قلعہ سیاحوں کے لیے نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے،بلکہ روحانی معنی بھی رکھتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ گیارہویں صدی میں ابتدائی طورپر یہ قلعہ مٹی کی اینٹوں سے تعمیر کیاگیا تھا۔ پھر ستارہویں صدی میں اس قلعہ کی تعمیر میں نمایاں تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں۔”شاہ جہاں” نے بھی اپنے دور میں قلعہ کی تعمیر میں “ایرانی سٹائل” کی عمدہ کشیدہ کاری کا کام کروایا۔ دریائے راوی کے کنارے ایک ٹیلے پر واقع اس قلعے کو صدیوں سے انسانی تسلسل نے تہ در تہ جنم دیا۔
دوسری صدی قبل از مسیح سے لیکر موجودہ دور تک تعمیر،انہدام اور فتوح وفنون کے بے شمار شواہد یہاں سے ملتے ہیں۔ “مغلیہ عہد حکومت” سے “سکھ دور” اور پھر انگریزوں کی حکمرانی تک تعمیر کے فنی اسلوب میں جو جو تبدیلیاں آئیں وہ یہاں جوں کی توں موجود ہیں۔
دروازے
اس عظیم الشان قلعہ کے چاروں جانب مختلف ادوار میں تعمیر کی گئی فصیل اب تک موجود ہے۔ اس فصیل میں دو دروازے کھلتے ہیں۔ “مشرق کی جانب “اکبری دروازہ” جسے “مسجدی دروازہ” بھی کہا جاتا ہے۔ اسے شنہشاہ اکبر نے تعمیر کروایا۔
دوسرا “عالمگیری گیٹ” جو “مغرب” کے پہلو میں واقع ہے۔ اسے “شہنشاہ اورنگزیب” نے تعمیر کروایا۔
مقبوضات
مغلیہ سلطنت کے شاندار دور کی ترجمانی کرتا یہ قلعہ کئی حکومتوں کا مقبوض رہا ہے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد، “سکھ سلطنت” کے بانی “مہاراجہ رنجیت سنگھ نے” اس قلعے کو اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ اس کے بعد اس پر برطانوی افواج کا قبضہ رہا۔
“مغلوں کی حکومت” تقریباً 350 سال تک رہی، “سکھوں” نے اس لاہور فورٹ پر 40 سال حکومت کی۔ اور “انگریزوں کی حکومت” تقریباً 100 سال رہی۔
دیوان عام و دیوان خاص
اب بات کرتے ہیں اس میں موجود مشہور جگہ “دیوان عام” کی۔ یہ ایک ایسی عوامی جگہ تھی جہاں رعایا اپنے بادشاہ سے ملاقات کرتی تھی۔ یہاں لوگ ہر صبح بادشاہ کے جھروکوں سے نکلنے کا انتظار کرتے۔ ہم دیوان عام سے ہی بادشاہ کی رہائش گاہ کی عمارت میں داخل ہوتے ہیں۔
” ” (-).
جہانگیر کے احاطے کے گرد کئی حجرے ہیں۔ جبکہ اس کی اپنی “خواب گاہ” شمال کی جانب ہے۔
” “(-).
مغرب کی طرف شاہ جہاں کا احاطہ ہے۔ جس میں سنگ مرمر کا دیوان خاص “جوہرِ نایاب” کی طرح نظر آتا ہے۔ یہاں “شاہ جہاں کا “شدا” تھا۔
لال برج وکالا برج
جنوب کی جانب بادشاہ کی خلوت گاہ کی طرف پرشگوف عمارت اور مخصوص مزین محرابیں دکھائی دیتی ہیں۔ اسی کے شمال میں دو ہشت پہلو مینار ہیں۔ جنہیں “لال برج اور کالا برج کہا جاتا ہے۔ یہ بھی بادشاہ کی رہائش کا حصہ تھے۔ یہاں سے دریائے راوی کے وسیع پارٹ کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
موتی مسجد
شاہ جہاں کے احاطے کے جنوب میں ہی “سفید سنگ مرمر” کی بنی ہوئی یہ “موتی مسجد” اپنی محرابوں والے صحن اور شاندار گنبدوں کے باعث منفرد نظر آتی ہے۔ اسی احاطے میں “مکاتب خانہ” کھلتا ہے۔ جہاں عام لوگ کم ہی جاتے ہیں۔
نادرن سرکل لائبریری
سیر و تفریح کے لیے لاہور کے شاہی قلعے میں آنے والے اکثر لوگ نہیں جانتے کہ یہاں 20 ہزار سے زائد کتابوں پر مشتمل “مغل باشاہوں کے محلات کے درمیان”ایک “تاریخی لائبریری” بھی موجود ہے۔ جس کا نام “ناردرن سرکل لائبریری” رکھا گیا تھا۔ لائبریری کے دروازے تو سب کے لیے کھلے ہیں۔ لیکن زیادہ تر “مؤرخ اور محققین” ہی یہاں سے استفادہ حاصل کرنے خواہاں ہیں۔ انسیویں صدی کی بھی کتابیں اس میں موجود ہیں۔ سن 1860 سے 1870 اور اس سے آگے کی بھی بہت ساری کتابوں کی کلیکشن یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ “لائبریری کا دروازہ” احاطہ جہانگیری” کے اندر کھلتا ہے۔
شیش محل: ( )
اردو اس کا مطلب شیشے کا محل اور اسے آئینوں کا محل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ہے کہ اس کی عمارت کو “سفید سنگ مرمر” اور راستوں کو پتھری جبکہ اندرونی حصہ کو شیشے کی مدد سے انتہائی نفاست کے ساتھ سجایا گیا ہے۔
اسکی بنیاد “مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر ” کے دور میں رکھی گئی۔ ورنہ اس سے پہلے یہاں کچی مٹی سے تعمیر شدہ قلعہ ہوا کرتا تھا۔ جس کی بنیادوں پر مزید مضبوط پکی اینٹوں سے نئی بنیاد رکھی گئی۔ نئے قلعہ کی تعمیر کے لیے شہنشاہ نے “فتح پور سیکری” مکمل ہونے کے بعد وہاں معماروں کو “لاہور” طلب کیا۔ بعد میں شاہ جہاں نے “قلع لاہور” میں کئی دلکش عمارات کا اضافہ کیا۔ جن میں “دیوان خاص” “موتی مسجد”،” برج نولکھاں “آرام گھر اور شیش محل شامل ہیں۔
اس عمارت کے مرکزی حصے تک صرف “شاہی خاندان” اور ان کے “قریبی عزیزوں اور احباب” کی ہی رسائی تھی۔ شیش محل وہاں تعمیر کیا گیا جو کبھی شہنشاہ کا “برج شاہ” یا “شاہ برج” یعنی شہنشاہ کا آرام گھر کہلاتا تھا۔
انیس سو اکیاسی میں شیش محل کو لاہور فورٹ کے ساتھ ہی “اقوام متحدہ” کے ادارہ “برائے تعلیم سائنس” اور “ثقافت” کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیا گیا۔
“یہاں عمارت کی باحالی ارد گرد کے ماحول کی بہتری، باضابطہ دیکھ بھال اور سیاح کا انتظام و انصرام بھی شامل ہے۔ آپ بھی اس عظیم الشان تاریخی عمارت سے لطف ہونے کے لیے یہاں کا رخ ضرور کیجیے۔
نیا منظر
“
“کیا چل رہا ہے بچو؟”سر فاروق کی آواز سن کر سبھی کے ہاتھوں سے سینڈوچ چھوٹے اور منہ کھلے کے کھلے ہی رہ گے۔
کک۔۔۔ کچھ نہیں سر بس اب “اسمر” کی سیریز باقی ہے۔” دانیال نے مؤدبانہ طریقے سے ڈرتے ہوے جواب دیا۔
سبھی حیران تھے کہ “سر فاروق” یہاں کیسے؟۔
“ہوں۔۔ جلدی سے پارٹی ختم کرکے کام مکمل کیجیے آخری تاریخ ہے آج۔”
“فاروق سر تنبیہی لہجہ میں کہتے ہوے چلے گئے۔”
“اسمر نے جھٹ سے اپنی پوزیشن پکڑی اور جنید نے جلدی بیک گراؤنڈ کی سیٹنگ کی۔
چلو بھئی ریڈی ہو تم۔۔؟۔۔۔ جنید اسمر سے مخاطب ہوا۔
جی جی بلکل تیار ہوں۔ اسمر نے شرٹ درست کرتے ہے کہا۔
✰✰✰✰
آج بات کریں گے پاکستان کے مشہور ترین مزید دو قلعوں کی بابت۔ سب سے پہلے “جنت نظیر وادی کشمیر” میں واقع “قلعہ رام کوٹ” کی کہانی جانتے ہیں۔
قلعہ رام کوٹ:
یہ “قدیم قلعہ” (منگلا جھیل میں گھرا ہوا) “آزاد کشمیر” میں “منگلا ڈیم” کے نزدیک جہلم اور پونچھ دریاؤں کے سنگم پر “سلطان پور” کے قریب ایک اونچی پہاڑی پر واقع ہے۔ “آزاد کشمیر” کے علاقے “دینا” سےتقریباً”13 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس قلعے تک رسائی صرف کشتی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔جبکہ “آزاد کشمیر کے علاقے “میر پور” سے سڑک کے ذریعے ہی یہاں تک رسائی ممکن ہے۔ اور یہ فاصلہ 79 کلومیٹر بنتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قلعے کا بیشتر حصہ کھنڈر میں تبدیل ہو گیا۔ مگر گزشتہ زمانے کی چند علامات اب بھی موجود ہیں۔
“16 ویں اور 17 ویں صدی” کے درمیان کشمیر کے حکمرانوں نے کئی مضبوط قلعے تعمیر کروائے، یہ قلعہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔
قلعہ التت
دنیا بھر کے سیاحوں کو وطن عزیز پر الله پاک کی عطاء کردہ خوبصورتی سے مالامال وادیوں کا علم تو بخوبی ہو گا ہی بالخصوص جب بات کی جاے “پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے” “گلگت اور بلتستان” کے حسین نظاروں کی۔ اور “وادئ ہنزہ” کی خوبصورتی،پر فضا مقامات کی۔ تو یقیناً وادی ہنزہ کے نظارے دیکھنے والے سیاح یہاں آکر اس خوبصورتی کے ہمیشہ گرویدہ رہتے ہوں گے۔ وادئ ہنزہ کے اصل باشندے “بروشو” کہلاتے ہیں۔ اور بروشو قوم “بروشکی زبان” بولتی ہے۔ “التت نامی قلعہ” تاریخ کی تقریباً 1100 سو سال پرانی عمارت “وادئ ہنزہ” کے “قصبے التت” میں واقع ہے۔ اور اسی نام سے مشہور “قلعہ التت” گلگت بلتستان کی ایک قدیم ترین یادگار ہے۔ مشہورومعروف ہے کہ یہ “ریاستِ ہنزہ” کے “آبائی حکمرانوں” کا گھر ہوا کرتا تھا۔
تعمیر:قلعہ التت کو ہنزہ کے میروں (شاہی خاندان) نے “گیارہویں صدی”میں تعمیر کروایا تھا۔
“دریائے ہنزہ” سے “ایک ہزار فٹ” کی اونچائی پر “بلند ترین پہاڑی” پر واقع یہ قلعہ اپنے دور کی حیرت انگیز فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ جس نے اب تک اپنی شان کو برقرار رکھا، نہ صرف حملوں کو روکنے میں کامیاب رہا۔بلکہ زلزلوں کے دوران بھی اپنے وجود کو قائم رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے “خوبصورت مقام” “رائل گارڈن”ہے، یہاں پھیلی ہر سوہریالی اور تروتازگی” آج بھی ایسی ہی نظر آتی ہے۔ قلعے میں دیدہ زیب کام کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ اس کے دروازوں، کھڑکیوں اور سیڑھیوں پر بڑی مہارت سے کیا گیا لکڑی کا کام جو احساس دلاتاہے کہ ہوبہو “قلعہ التت” اپنی پرانی حالت میں برقرار کھڑا ہے۔ لکڑی کے چھوٹے چھوٹے کمروں پر عمدہ کشیدہ کاری کا کام اس انداز سے کیا گیا گویا وہ ماضی کی داستان سنا رہا ہوں۔
ہنزہ کے اس قدیم قلعے کو “ثقافتی ورثہ” کے تحفظ کے لئے 2011ء کا “یونیسکو ایشیا پیسفک” ایوارڈ دیا گیا تھا۔
اگر آپ نے بھی ابھی تک ان حسین، دلنشین و دلفریب نظاروں کا لطف نہیں لیا تو میرا کہنا ہے کہ ضرور لیجیے۔ خود میں، اپنے بچوں میں اور ہر آنی والی نسل میں تاریخ” کی محبت کو اجاگر کیجیے۔ اور الله رب العزت کی ان نعمتوں کی قدردانی کیجیے۔
“اے میرے ملک ! تیری فضاؤں کی خیر ہو دریاؤں، جھیلوں، چشموں، ہواؤں کی خیر ہو۔”
الله حافظ
ملائکہ شہزادی
(یہ ایک ڈاکومینٹری کا سکرپٹ ہے)
جاری ہے۔