حفصہ محمد فیصل
سفر زندگی میں تنوع لاتا ہے ،قدرت کی تخلیق کردہ خوب صورتی کو دیکھ کر آنکھوں کو تراوٹ اور ذہن کو نئی جہت ملتی ہے۔ انہیں باتوں کو ازبر کرتے ہوئے جولائی 2021 کی ایک صبح ہم نے مع خاندان  پاکستان کے ناردرن ایریاز کےلیے رخت سفر باندھا۔صبح سویرے کی فلائٹ سے ،کراچی سے لاہور ایئر پورٹ پہنچے ،بچوں کا پاکستان ٹور کے اعتبار سےیہ پہلا سفر تھا اس لیے ان کا تجسس اور خوشی دیدنی تھی۔
لاہور ایئر پورٹ پر بے انتہا حبس زدہ موسم نے استقبال کیا ، لیکن چوں کہ وطن کے ایک نئے شہر میں موجود تھے اس لیے اس حبس میں بھی دلکشی نظر آرہی تھی ، ہوٹل پہنچ کر تازہ دم ہوئے اور پھر کچھ پیٹ پوجا کرکے لاہور کی سیر کا ارادہ کیا۔ عید الاضحی کی تعطیلات چل رہی تھیں، اسی لیے جب منٹو پارک جہاں بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ ، مزار اقبال رح اور مختلف بارہ دریاں ایک ساتھ ہی موجود ہیں ، وہاں لوگوں کا جم عفیر موجود تھا۔ پارک کے اہلکاروں کی چابک دستی ایسی کے اتنی ساری تفریح گاہیں جو یک مشت ایک جگہ موجود تھیں اور اتنے بڑے رقبے پر مشتمل اس تفریح گاہ کے کئی گیٹ تھے، سب بند رکھے گئے تھے، سوائے ایک چھوٹے سے گیٹ کے۔پہلا مرحلہ شام کے چار بجے اس شدید حبس زدہ گرمی میں اس گیٹ کو تلاش کرنا تھا، وہاں پہنچنے پر جو منظر نظر آیا وہ ایک لمبی طویل قطار تھی ،اس نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ اندر جایا جائے کہ لوٹ جایا جائے لیکن چوں کہ وقت کم اور مقابلہ سخت والا معاملہ تھا، اس لیے اس قطار کا حصہ بننے کا ہی فیصلہ ہوا، آخر محنت کارگر ہوئی اور پارک کے اندر قدم رنجہ فرما ہی دیے۔

عصر کا وقت ہوچکا تھا، اب بادشاہی مسجد تک پہنچنے کے لیے دوبارہ ایک طویل رستہ پار کرنا تھا ، اللہ اللہ کرکے مسجد کے احاطے میں پہنچے، درمیان میں شاہی قلعہ اور کامران کی بارہ دری نے دل للچایا مگر نماز فوت ہونے کے ڈر سے مسجد کی جانب ہی توجہ مرکوز رکھی۔ نماز عصر کی ادائیگی کے بعد شاہی قلعے اور کامران کی بارہ دری کو بالاہی بالا دیکھا کیوں کہ اندھیرا چھا رہا تھا اور شاہی قلعے کی جانب روشنی کی بے حد کمی تھی مغرب سے پہلے ہی وہ سیاحوں کے لیے بند کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ بات سمجھ آئی کہ ان جگہوں پر صبح سویرے آیا جائے تاکہ تفصیلی سیر کی جاسکے۔
مغرب کے بعد مینار پاکستان کی سحر انگیز یادگار کو دیکھا، 1940 کے ان ایام کو تصور ہی تصور میں محسوس کیا جب جوشیلے نوجوان تحریک پاکستان کے پر عزم رہنما ،پاکستان کے حصول کے لیے اس جگہ پر پر عزم ہوکر جمع ہوئے تھے،اوراس جمع ہونے کے ثمرات میں آج ہم اس آزاد مملکت کے باسی ہیں ۔اسی کے ساتھ اس یادگار باغ کی سیر تمام ہوئی، اگلی صبح لاہور کی خوب صورت اور ترقی یافتہ چیز یعنی اورینج ٹرین کی سیر کا ارادہ تھا۔ انارکلی فوڈ اسٹریٹ سے لاہور کے روایتی  پائے، حلوہ پاری اور لسی کے لذت و صحت بخش ناشتے کے بعد ہم اورینج ٹرین اسٹیشن کی جانب رواں دواں تھے۔لاہور میں میٹرو بس کے بعد اورنج لائن ٹرین منصوبے کو لاہور شہر کے لیے ’ماس ٹرانزٹ‘ منصوبہ بھی کہا جاتا ہے ۔لکشمی چوک سے گجراں تک یہ ٹرین سروس  فی گھنٹہ پینتیس کلومیٹر کی رفتار سے ستائیس کلومیٹر سفر کرتی ہے ،جس سے شہر میں دوگھنٹے کا سفر پینتالیس منٹ تک کم ہوجاتا ہے۔ … یہ پورے شہر میں چھبیس اسٹیشنوں پر رکتی ہے جن میں زیرِ زمین تقریباً پونےدو کلومیٹر کے علاوہ تقریباً تمام ہی راستہ پل پر مبنی ہے۔
بلاشبہ اس سروس کے اسٹیشن سے لے کر ٹوکن سسٹم پھر آٹو میٹک دروازوں کا کھلنا،  بند ہونا، ٹرین کی رفتار وانداز اور مرحلہ وار اطلاعات کی سروس سب کچھ کسی یورپی ملک میں ہونے کا گمان دے رہے تھی۔ پنجاب حکومت کی اس محنت کو نا سراہنا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
اورینج ٹرین کو رشک سے دیکھتے ہوئے اور کراچی کے لیے بھی ایسے منصوبے اور سروس کی خواہش دل میں لیے ہم لاہور نیشنل میوزیم کی سیر کو پہنچے لاہور میوزیم کے نواردات دیکھنے کے بعد لاہور “زو گارڈن “کی سمت لی اور ایک عمدہ جانوروں کا جنگل دیکھنے کو ملا۔ شیر، چیتے گینڈے ،بن مانس ،بھالو سے لے کر مور ، طوطے اور کئی خوب صورت پرندے دیکھنے کو ملے ،شیروں کی کئی اقسام دیکھیں اور ہر ہر جانور کے لیے ایک وسیع رقبے پر مشتمل جگہ دینا ایک احسن قدم تھا۔ بلاشبہ لاہور زو گارڈن کو گھوم کر بے حد لطف آیا۔
اگلی صبح مری کے لیے روانگی تھی ۔مری پنجاب کے ضلع راولپنڈی کا ایک صحت افزا مقام ہے۔ جو راولپنڈی سے انچالیس کلومیٹر دور ہے۔ اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 7500 فٹ ہے۔ … 1907ء تک  لوگ پنڈی سے مری تانگوں پر جایا کرتے تھے۔لیکن اب تو موٹر وے اور جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے ایک کشادہ روٹ بن گیا ہے۔ لیکن پھر بھی کہیں کچھ موڑ اور اونچائی کے سبب خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ پہاڑی علاقہ جہاں انتہائی خوب صورتی سموئے ہوئے ہوتے ہیں وہاں کچھ خطرات بھی اپنے اندر رکھتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ “شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا “تو جب بندہ قدرت کی اس کاری گری کو اصل آنکھ سے دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے تو کچھ خطرات بھی مول لینے پڑتے ہیں۔ مری کے پرفضا مقام پر پہنچ کر دل میں راحت کا احساس جاگ اٹھا تھا ، شام ہوچکی تھی رات آرام کے بعد صبح سویرے گلیات کی سیر کا پروگرام بنا۔ پہاڑی علاقوں میں قدرت کے ایسے رنگ برنگے نظارے ہیں کہ جن کو آنکھیں بار بار دیکھنا چاہتی ہیں اور گلیات اس خوب صورت سلسلے کا بہترین حصہ ہیں۔
صبح سویرے زبردست سا ناشتہ کرنے کے بعد ایک کھلی سوزوکی میں ہم گلیات کی سیر کو روانہ ہوئے۔ خنکی بھری ہوائیں پر لطف احساس بیدار کررہی تھیں۔ بچوں کا تجسس دیدنی تھا۔ لطیف موسم ،اپنوں کا ساتھ سب کچھ رب کا شکر ادا کرنے کے لیے بے قرار کررہا تھا۔ نعمتوں کے زوال سے پناہ کی دعا بے اختیاری لبوں پر آگئی۔ گاڑی روانی کے ساتھ دوڑے جارہی تھی۔ بچوں کی شرارتیں،چٹکلے اور ہواؤں کی اٹھکیلیاں ایک ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھیں۔
گلیات  خطے یا پہاڑی گلیاں ہیں۔ یہ ایک تنگ پٹی یا علاقے تقریبا 50-80 کلومیٹر اسلام آباد، پاکستان کے شمال مشرق میں، جبکہ خیبر پختونخوااور پنجاب دونوں کی سرحد کے اطراف میں ایبٹ آباد اور مری کے درمیان واقع ہے۔”ویلکم ٹو خیبر پختونخوا” کے بورڈ نے ہوا میں مزید خنکی بھر دی گلیات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔کھیرا گلی ، کوزا گلی، چھانگلہ گلی سے ہوتے ہوئے کچھ دیر ڈونگا گلی پر رکے وہاں بھٹے کھائے اور بندروں کی شرارتوں سے لطف اندوز ہوئے، اگلی منزل ایوبیہ تھی جہاں چڑھائی پر چڑھتے ہوئے ایک خوب صورت مارکیٹ آباد تھی لیکن خریداری سے پہلے ہمیں لفٹ چیئر کی سیر کرنی تھی اسی لیے جلد از جلد وہاں پہنچنا چاہتے تھے۔ لفٹ چیئر کے اتار چڑھاؤ کے منظر نے کئی لوگوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا یعنی انہوں نے اس کی سیر کا ارادہ ترک کردیا مگر ہم اور ہمارے بچے اپنے ارادے میں پختہ اور ثابت قدم رہے اور پھر ہمارے جیسے نڈر لوگوں کی لمبی سی قطار دیکھ کر ہمارے جذبے اور بھی بلند ہوگئے ۔ قطار جیسے جیسے آگے بڑھتی جارہی تھی دل کی دھڑکن اسی تیز رفتاری بڑھ رہی تھی
آخر کار باری آگئی ہم اپنے فرزند اصغر کے ساتھ لفٹ چیئر پر بیٹھنے کا معرکہ سر کرچکے تھے۔ پہاڑوں کے دامن میں ہوا کے دوش پر اڑتے جارہے تھے۔ جادوئی اڑن قالین جیسے احساسات محسوس ہورہے تھے۔ پہاڑیوں کے نشیب و فراز میں کھڑے علاقائی لوگ اور بچے ہم سیاحوں کو ہاتھ ہلا ہلا کر خوش آمدید کہہ رہے تھے بے حد خوب صورت لمحات تھے، پوائنٹ آگیا پہاڑی کے قدرے اونچے حصے پر کھانے پینے اور تصاویر کے عکس لینے کے لیے یہ پوائنٹ بنایا گیا تھا۔ بادلوں کی ہلکی ہلکی لہریں دھویں کی صورت پاس سے گزر رہی تھیں ہم اس وقت تقریباً سات ہزار فٹ کی بلندی پر تھے۔ اس وقت اللّٰہ تبارک وتعالی کا قرب ایک خاص کیفیت کے ساتھ محسوس ہوا۔ کچھ دیر وہاں کی فضا کو اپنے اندر اتارا اور پھر دوبارہ لفٹ چیئر پر بیٹھنے کے مرحلے سے گزرتے ہوئے انہیں راستوں کو خیر باد کہتے ہوئے جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹے ہمارے ساتھی  ہمارے منتظر تھے۔ گھڑ سواری اور کشمیری چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئےبازار ایوبیہ تک پہنچے کچھ خوبصورت سوغاتیں خریدیں اور پھر دوبارہ گاڑی کا رخ کیا اب ہماری منزل نتھیاگلی سے ہوتے ہوئے نملی میرا آبشار تھا۔
نتھیا گلی کے درمیان سے نکلنے والی یہ نملی آبشار انتہائی حسن کا مرکز ہے۔ نتھیا گلی سے پچیس منٹ کی مسافت پر نملی آبشار بلند و بالا پہاڑوں سے نکلنے والے چشمے سے وجود میں آئی ہے۔ اس آبشار تک سیاحوں کی رسائی آسان بنانے کے لیے  ایک مقامی شخص شبیر مظفر نے راستہ ہموار کیا ہے۔ آبشار کا پانی بے انتہا ٹھنڈا ہے مقامی افراد کے مطابق اس علاقے میں اس طرح کی متعدد آبشاریں ہیں تاہم حکومتی عدم دلچسپی کے باعث ان تک سیاحوں کی رسائی ممکن نہیں بنائی جا سکی۔ ہم چوں کہ ماہ جولائی میں یہاں آئے تھے اس لیے یہاں کی ٹھنڈ قابل برداشت تھی ورنہ یہاں زیادہ دیر ٹھہرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پہاڑوں کی جھرمٹ سے بہتا شفاف میٹھا اور یخ ٹھنڈا پانی گویا جنت کا گمان ہورہا تھا دنیا کی جنت اتنی حسین اور قدرت کی کاری گری کا شاہکار ہے تو واقعتاً جنت کیسی ہوگی “تبارک اللّٰہ احسن الخالقین”
آبشار کی خوب صورتی نے گویا مبہوت کردیا ، ہاتھوں کے پیالوں میں بھر بھر کر اس ٹھنڈے میٹھے پانی سے لطف اندوز ہوئے ایک عجیب سرشاری کا احساس تھا جو ناقابلِ بیان ہے۔ جیسے جیسے آگے جاتے گئے آبشار ہمارے ساتھ ساتھ چلتا گیا اور سونے پر سہاگہ وہاں کے مقامی لوگوں نے آبشار کے ساتھ ساتھ ہی بلکہ درمیان میں ہی میز اور کرسیاں لگا کر ہوٹلیں کھول رکھی  تھیں جو ماحول کو مزید خوشگوار بنارہی تھیں ، دیسی مرغ اور بطخیں ساتھ ساتھ چہلیں کررہی تھیں رومانیت سے بھرپور دل فریب منظر تھا ، جی چاہ رہا تھا کہ زندگی اسی طرح تمام ہوجائے۔

 زلفی آبشار ریسٹورنٹ کا لذیذ کھانا کھا کر رب کا شکر ادا کیا اور اتنی خوب صورت جگہ کو خیر باد کہتے ہوئے نتھیا گلی پارک کی طرف روانہ ہوئے نتھیا گلی پارک کی سیر کے ساتھ کافی کی سوندھی سوندھی خوشبو کو سانسوں میں اتارتے ہوئے لطف اندوز ہوئے۔
قدرتی مناظر کی سحر انگیزی ہر سو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھی نگاہ خوب صورت مناظر کو اپنی قید میں کرنے کو بے چین تھی لیکن منظر ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ مری ہوٹل پہنچ کر آرام کیا پھر رات کو مری مال روڈ سے کچھ شاپنگ کرکے ،مری کے چپل کباب سے لطف اندز ہوئے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact