ممتاز شیریں
دوحہ۔۔قطر
” اُس ماہِ عرب کا ذکر چھڑے
اُس مہرِ عجم کی بات چلے
ہے شمس وقمر میں جس کی ضیاء
اُس شمع حرم کی بات کریں۔۔۔!”
مگر سچ تو یہ ہے کہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کی شان مبارک زندگی کے ہر ہر شعبے میں ایسی ہمہ جہت اور لاثانی ہے کہ میرا یہ قلم اس کی کسی ایک شان کا بھی حق ادا نہیں کر سکتا ہے ۔وہ ایسا آفتاب تھے جس کی نورانی کرنوں نے دلوں کے اندھیرے میں اجالا کیا ۔جس نے ذرے ذرے کا سینہ چیر کر اس میں ہدایت کی روشنی بھر دی،جس نے پتے پتے کا جگر چاک کر کے اس میں صداقت کا نور سمو دیا۔ جو صدق و صفا میں، عمل و کردار میں، اخلاق و فرض میں،مہر و محبت میں ،عاجزی و فروتنی میں روشن ستارے کی مانند تھے ۔
وہ نور علی نور ، ہم نور سے بہت دور ، وہ خیرالانعام ہم انسان کالانعام ، وہ عقل کل ہم ناقص العقل ، وہ شھنشاہ ہم ادنی گدا ، ان کی شان بے پایاں ہم ناسمجھ و نادان ، وہ آفتاب عالمتاب ہم ذرہ بےتاب وہ پاک ہم خاک ، وہ گوہر ہم پتھر ، وہ بہتر ہم کمتر آخر کس زبان سے ، کس دماغ سے اور کون سے قلم سے ان کی تعریف لکھوں۔۔؟
سخت تردد میں ہوں کہ اس ذات پاک کی کون سی خوبی بیان کروں ان کے ذکر کو کس طرح قلم بند کروں جس کا ذکر خود اس رب کریم نے بلند کر دیا
“ورفعنا لک ذکرک” اور اے نبی بے شک ہم نے آپ کا ذکر بلند کیا “جب قرآن نے خود گواہی دے دی
میں تو یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ ان کی عزت بیان کروں یا عظمت ؟ ان کی رحمت بیان کروں یا عنایت ؟ ان کی شریعت بیان کروں یا ہدائت ؟
امانت بیان کروں یا دیانت ؟ ان کے افعال بیان کروں یا اعمال ؟ ان کا علم بیان کروں یا حلم ؟ ان کا کلام بیان کروں یا منزل و مقام ؟
وہ رہبر اعظم کبھی گھر کے کاموں میں مشغول نظر آتے ۔۔وہ ہادی بر حق مدینے کے غرباء ،فقراء ، یتیموں اور مسکینوں کی پرورش بھی کرتے اور تبلیغ دین کے مقدس فریضے کو بھی سر انجام دیتے۔ وہ شھنشاہ کون و مکاں عام مزدوروں کی طرح پتھر باندھ کر خندق کھودتے اور بنی نوع انسان کی اصلاح بھی کرتے۔
آپ میدان جنگ میں ایک اعلی جرنیل، عرصہ سیاست میں ایک ماہر شھسوار، منبر پر ایک فصیح البیان خطیب اور انسانوں کے درمیان ” انا بشر مثلکم” کی تفسیر تھے۔
وہ کون سی تکلیف تھی ، وہ کون سی ایذا تھی جو ان کی قوم نے ان کو نہ پہنچائی لیکن اللہ رے شان رحمت۔۔۔ ان بےحد و بے پایاں تکالیف کو برداشت کیا اور کبھی قلب مبارک میں ذاتی انتقام کا جذبہ بیدار نہ ہوا۔ بلکہ اپنی جاہل قوم کے حق میں اس رحمت مجسم نے یہی دعا فرمائی کہ ۔
“اللھمہ اھدا قومی فالنھم لایعلمون”
( اے اللہ ! میری قوم کو ہدائت دے کہ یہ مجھ سے واقف نہیں )
اور جب فتح مکہ کے بعد یہی جاہل اور سرکش قوم ، ظالم و مغرور قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتی ہے تو زبان نبوت سے ارشاد ہوتا ہے ۔
” لا تثریب علیکم الیوم”
( آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں )
عفو درگزر کی یہ مثال تاریخ انسانی میں بے مثال ہے۔ آپ اخلاق کا مجسم نمونہ تھے اور عدل کا پیکر جمیل، آپ تدبر و فراست کی مکمل تفسیر تھے اور جود و سخا کا بحر بیکراں، آپ صبر و ضبط کا دریائے ناپید کنار تھے اور بخشش و عطا کا بحر ذخار۔۔۔!!
بے شک آپ کی شان رحمتہ العالمین ہے۔
رحمتہ اللعالمین صلی اللہ و علیہ وسلم کی مبارک حیات ہر سمت سے سراپا رحمت تھی ۔باپ ہیں تو پیاری بیٹی فاطمہ رضی اللہ کے تشریف لانے پر ان کی پیشانی چوم کر اپنی جگہ بٹھاتے ہیں، بیٹے ہیں تو رضائی ماں حلیمہ سعدیہ کے لیئے اپنی چادر بچھاتے نظر آتے ہیں ، بھائی ہیں تو دودھ شریک بہن شیما جنگی قیدی بن کر آتی ہیں تو قبیلے سمیت آزاد کر دیتے ہیں ،ہادی اور مصلح قوم ایسے کہ پوری پوری رات سر سجدے میں رکھے اپنی امت کے لیے دعائیں کرتے ہیں آپ کا رحم و کرم بارانِ رحمت کی طرح تھا جو بلا امتیاز اپنے اور پرائے دوست اور دشمن سب پر برستا تھا ایسا کریم جو نہ آسمان نے پہلے دیکھا اور نہ زمین کو بعد میں دیکھنا نصیب ہوا۔ کس کی جرآت ہے کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر آئے ۔
“نہ کوئی آپ سا ہوگا، نہ کوئی آپ جیسا تھا “
رفیق حیات کی حیثیت سے حضور اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم کا کردار دنیا کہ تمام شوہروں کے لیے نمونہ حیات ہے آپ نے عرب معاشرے میں عورت سے محبت اور اس کی اہمیت کو اجاگر کر کے دکھایا۔
حضرت عمر فاروق رضی فرماتے ہیں کہ
” ہم لوگ اسلام سے قبل عورت کو کچھ اہمیت نہیں دیتے تھے ،آپ نے ان کے حقوق مقرر کئے اور عورتوں کے لئے راہیں کھولیں ۔ “
آپ صلی اللہ و علیہ وسلم ایک مثالی شوہر تھے جب حضرت خدیجہ رضی اللہ سے شادی ہوئی تو اس وقت آپ پر نبوت کی بھاری ذمےداری تھی لیکن آپ عبادت کے ساتھ ساتھ حضرت خدیجہ کا بھی پورا خیال رکھتے ،ان کے سارے حقوق ادا کرتے ،ان کے دل بہلانے کا سامان ان کی ذوق و طبیعت کا لحاظ رکھتے ہوئے کرتے ۔آپ صلی و علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ” تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہے اور میں تم سب سے زیادہ بہتر ہوں اپنی ازواج کے لیے”
آپ نبوت جیسے عظیم کام میں مصروف رہتے تھے لیکن اس کے باوجود اپنی ازواج کے ساتھ حسن معاشرت، نرم خوئی، کشادہ روی،خوش طبعی اور ہنسی مذاق میں ایک مثالی شوہر تھے۔
اللہ کے رسول اپنے گھر میں ایسے کریم تھے کہ حضرت عائشہ رضی سے کسی نے پوچھا ۔۔!
آپ صلی اللہ و علیہ وسلم کے اخلاق گھر میں کیا تھے تو فرمایا ۔۔!
” آپ صلی گھر میں اپنی بیویوں کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹاتے، مختلف امور میں ان کی مدد فرماتے ، بکری کا دودھ دوہ لیتے،جوتا سی لیتے، پانی کا مشکیزہ بھر لیتے، اپنے کپڑوں کو پیوند لگا لیتے”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے حقوق میں پوری مساوات اور عدل کو ملحوظ رکھتے تھے باقی رہی محبت تو اس کے لیے فرمایا کرتے کہ
” اے اللہ جس کا مجھے اختیار ہے اس میں تقسیم تو مساوی کرتا ہوں لیکن جو بات میرے اختیار سے باہر ہے اس پر مجھے ملامت نہ کیجیے”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام ازواج کے گھروں میں روزانہ تشریف لے جاتے ،ان کے پاس بیٹھتے، ان کے حالات معلوم کرتے اور جب رات ہو جاتی تو جہاں باری ہوتی وہاں شب بسر کرتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باری کی اتنی پابندی کرتے کہ کبھی ہم میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دیتے۔
بیویوں پر شفقت و محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ و علیہ وسلم زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ سے کسی خانگی مسئلے پر محو گفتگو تھے بات ذرا بڑھ گئی اور حضرت عائشہ کی آواز اور لہجہ بلند ہوگیا الفاظ میں تلخی آگئی عین اسی وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی تشریف لے آئے باپ نے بیٹی کا لہجہ سنا تو سرزش کے لیے آگے بڑھے لیکن اس وقت باپ کے غضب سے بیٹی کو کس نے بچایا ؟ اس مبلغ اعظم نے جس نے عورتوں کی ناراضگی کو بھی ان کے “ناز” سے تشبیح دی۔
اور ساتھ ہی امت کو نصیحت کر گئے کہ ۔۔!
” یہ آبگینے ( عورتیں )ہیں ان کے ساتھ نرمی اور سہولت کا معاملہ کرو”
قابل فکر ہے یہ بات ان شوہر حضرات کے لیے جو بیویوں کی ذرا ذرا سی کوتاہی کا شکوہ ان کے ماں باپ یا اپنے ماں باپ سے کرتے ہیں
ان آبگینوں سے “ناز” کے بجائے “مار” اور نرمی کے بجائے “گالی” کا معاملہ فرماتے ہیں ۔
اگر آج کے مرد سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو کہ آپ صلی اللہ و علیہ وسلم نے ان آبگینوں کی نزاکت و لطافت کا کس قدر خیال رکھا ۔
گر نقش قدم تیرے مشعل نہ بنے ہوتے
راہبر بھی لٹا ہوتا، راہرو بھی لٹا ہوتا۔۔!
اللہ پاک نے اخلاق و عادات کی تمام خوبیاں اور کمالات و صفات کی تمام خوبصورتیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں جمع فرما دی تھیں
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ کی شان میں فرما تے ہیں ۔!
“و احسن منک لم ترقط عینی
و اجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرا من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء “
” میری آنکھوں نے کبھی آپ سے زیادہ
حسین نہیں دیکھا! عورتوں نے آپ سے زیادہ کوئی صاحب جمال نہیں جنا!
آپ کو ہر عیب سے پاک پیدا کیا گیا ہے !
جیسے آپ اپنی مرضی کے مطابق پیدا کیئے گئے ہوں”
شاعر کا تخیل وہاں تک پہنچا ہے کہ عقل دنگ ہے ۔۔محو حیرت ہے۔۔گویا رب محمد اور روح محمد آمنے سامنے کر دیئے گئے ہوں اور رب محمد ، روح محمد سے پوچھ رہے ہوں کہ ۔۔!
اے میرے محبوب ! تو بتا تجھے کیسے بناؤں ؟
محبوب نے جیسے کہا، رب نے ویسے ہی بنایا
جبکہ بنایا تو رب نے ہی اور جیسا چاہا ویسا بنایا
کامل و اکمل بنایا۔۔۔اور ایسی اکملیت دی کہ
“جو قرآت کی وہ قرآن بن گیا
جو بات کی وہ حدیث بن گئی
جو کام کیئے وہ سنت بن گئی”
آخر میں بس اتنا ہی کہنا ہے کہ۔۔۔!
اے دور جدید کے دانشوروں!
اے سقراط و افلاطون سے سبق لینے والوں!
اے یورپ کی شاہراہوں پر عظمت آدم ڈھونڈنے والوں ! ۔۔۔۔۔۔سکندر و نپولین کو عظیم کہنے والوں۔۔۔!
تم اپنے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ بھی کرو۔۔۔۔۔ذرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدس پر بھی نظر ڈالو !
رب کعبہ کی قسم۔۔۔! یہاں زندگی کی حقیقتوں کا عکس ملے گا ! فضل کی گفتگو ملے گی!
اے آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم
اے ماہ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
آپ پر کروڑوں درود و سلام
” اے صبح ازل کے نور یقیں
اے شام ابد کے ماہ مبیں
آپ پر لاکھوں درود و سلام
میرے ہاتھوں سے اس لئے خوشبو نہیں جاتی
میں نے اسمِ محمد کو لکھا بہت اور چوما بہت